
پاک امریکہ حالیہ اسٹریٹجک مذاکرات کہ (جن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ، وزیر دفاع رابرٹ گیٹس، جنرل مائیک مولن اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ مذاکرات کئے تھے)میں بھی پاکستانی وفد نے ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم امریکی حکام نے پاکستانی وفد کو ڈرون حملے روکنے کی کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی جبکہ 25 مارچ کو مشترکہ اعلامیہ جاری ہونے کے بعد 29 مارچ کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مشیر قانون ہیرالڈ کوہ نے امریکی سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران ڈرون حملے کرنا جائز اور بین الاقوامی قانون کی رو سے امریکہ کا قانونی حق ہے۔
امریکہ بین الاقوامی قانون سرحدوں اور آزاد ممالک کی خود مختاری کا کتنا احترام کرتا ہے ہمیں یہاں اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ محض یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ امریکا کا قانون اس کی معاشی اور فوجی طاقت ہے وہ اپنی اسی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی سرحدوں کو توڑنے اور ڈرون حملے کرنے کا خود ساختہ اختیار استعمال کر رہا ہے۔ آزاد ممالک کے وقار کی توہین اور خود مختاری کو کچلنا بھی امریکہ اپنا صوابدیدی اختیار سمجھ رہا ہے کیونکہ امریکہ ایک طاقت ہے۔ یو این او سمیت کوئی عالمی ادارہ ایسا نہیں کہ جو امریکہ کی اس طاقت کو کم از کم قانون کی زبان میں ہی چیلنج کر دے بلکہ ریکارڈ تو یہ بتا رہا ہے کہ امریکی دہشت گردی ، جارحیت اور توسیع پسندی کو بہت سے موقعوں پر یو این او کی قرار دادوں نے سپورٹ کی۔
بہر حال پاکستان کا قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد اور پاکستان کے عوام امریکی ڈرون حملوں کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان حملوں کو پاکستان کے خلاف غیرملکی جارحیت قرار دیتے ہوئے امریکی ڈرونز گرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں مگر ہمارے وزیردفاع اور حکومت کے بعض دیگر ذمہ داران یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان ڈرون گرانے کی ٹیکنالوجی نہیں رکھتا، ایٹمی طاقت کے حامل اور دنیا کی مانی ہوئی بہترین سات لاکھ فوج رکھنے والے ملک کے وزیر دفاع کا یہ بیان جو کئی مرتبہ پڑھنے کو ملا انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا تاہم وزیر دفاع احمد مختار، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اگر واقعی کسی ٹیکنالوجی کا انتظار کر رہے تھے تو ہمارے قابل سائنسدانوں اور آرمی انجینئرز نے اس انتظار کو ختم کر دیا۔ 18 اپریل کو ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے کے بعد اب اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش یا جواز نہیں رہا کہ پاکستان کے اندر امریکہ کا کوئی ڈرون میزائل فائر کر کے واپس بحفاظت اپنے ٹھکانے پر اتر سکے بلکہ اس سے پہلے اسے ملبہ کا ڈھیر بننا ہوگا۔
ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے پر ہم جنرل اشفاق پرویزکیانی اور ڈرون ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرنے والے تمام سائنسدانوں ، آرمی انجینئرز، آفیسرز اور جوانوں کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے ایک بار پھر پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کو یقینی بنانے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔ تاہم یہ بات بھی یاد رہے کہ قوم کا اعتماد بحال کرنے کے لئے تجربے کو حقیقت میں بدلنا ہو گا۔ قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ چولستان میں ملبہ بننے والا ڈرون وزیرستان میں حملہ کر کے کیونکر واپس جا سکے گا؟
چولستان میں ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے کے بعد بھی اگر امریکی ڈرون وزیرستان اور دیگر پاکستانی قبائلی علاقوں میں حملے کر کے بخریت واپس جاتے ہیں تو پھر قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گی کہ پاکستان کے اندر امریکی ڈرون حملوں کو ہمارے حکمرانوں اور ناقابل تسخیر دفاع کا حلف اٹھانے والوں نے از خود اجازت دے رکھی ہے۔ اگرایسا ہوا تو پھر اس وقت کا انتظار کیا جائے جب قوم کا ردعمل انقلاب بن کر ان تمام ایوانوں اور مورچوں کو روند ڈالے جہاں سے ”پاکستان“ پر حملہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ملک الطاف حسین
(بشكریہ روزنامہ جنگ)
امریکہ بین الاقوامی قانون سرحدوں اور آزاد ممالک کی خود مختاری کا کتنا احترام کرتا ہے ہمیں یہاں اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ محض یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ امریکا کا قانون اس کی معاشی اور فوجی طاقت ہے وہ اپنی اسی طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی سرحدوں کو توڑنے اور ڈرون حملے کرنے کا خود ساختہ اختیار استعمال کر رہا ہے۔ آزاد ممالک کے وقار کی توہین اور خود مختاری کو کچلنا بھی امریکہ اپنا صوابدیدی اختیار سمجھ رہا ہے کیونکہ امریکہ ایک طاقت ہے۔ یو این او سمیت کوئی عالمی ادارہ ایسا نہیں کہ جو امریکہ کی اس طاقت کو کم از کم قانون کی زبان میں ہی چیلنج کر دے بلکہ ریکارڈ تو یہ بتا رہا ہے کہ امریکی دہشت گردی ، جارحیت اور توسیع پسندی کو بہت سے موقعوں پر یو این او کی قرار دادوں نے سپورٹ کی۔
بہر حال پاکستان کا قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد اور پاکستان کے عوام امریکی ڈرون حملوں کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان حملوں کو پاکستان کے خلاف غیرملکی جارحیت قرار دیتے ہوئے امریکی ڈرونز گرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں مگر ہمارے وزیردفاع اور حکومت کے بعض دیگر ذمہ داران یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان ڈرون گرانے کی ٹیکنالوجی نہیں رکھتا، ایٹمی طاقت کے حامل اور دنیا کی مانی ہوئی بہترین سات لاکھ فوج رکھنے والے ملک کے وزیر دفاع کا یہ بیان جو کئی مرتبہ پڑھنے کو ملا انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا تاہم وزیر دفاع احمد مختار، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اگر واقعی کسی ٹیکنالوجی کا انتظار کر رہے تھے تو ہمارے قابل سائنسدانوں اور آرمی انجینئرز نے اس انتظار کو ختم کر دیا۔ 18 اپریل کو ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے کے بعد اب اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش یا جواز نہیں رہا کہ پاکستان کے اندر امریکہ کا کوئی ڈرون میزائل فائر کر کے واپس بحفاظت اپنے ٹھکانے پر اتر سکے بلکہ اس سے پہلے اسے ملبہ کا ڈھیر بننا ہوگا۔
ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے پر ہم جنرل اشفاق پرویزکیانی اور ڈرون ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرنے والے تمام سائنسدانوں ، آرمی انجینئرز، آفیسرز اور جوانوں کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے ایک بار پھر پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کو یقینی بنانے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔ تاہم یہ بات بھی یاد رہے کہ قوم کا اعتماد بحال کرنے کے لئے تجربے کو حقیقت میں بدلنا ہو گا۔ قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ چولستان میں ملبہ بننے والا ڈرون وزیرستان میں حملہ کر کے کیونکر واپس جا سکے گا؟
چولستان میں ڈرون گرانے کے کامیاب تجربے کے بعد بھی اگر امریکی ڈرون وزیرستان اور دیگر پاکستانی قبائلی علاقوں میں حملے کر کے بخریت واپس جاتے ہیں تو پھر قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گی کہ پاکستان کے اندر امریکی ڈرون حملوں کو ہمارے حکمرانوں اور ناقابل تسخیر دفاع کا حلف اٹھانے والوں نے از خود اجازت دے رکھی ہے۔ اگرایسا ہوا تو پھر اس وقت کا انتظار کیا جائے جب قوم کا ردعمل انقلاب بن کر ان تمام ایوانوں اور مورچوں کو روند ڈالے جہاں سے ”پاکستان“ پر حملہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ملک الطاف حسین
(بشكریہ روزنامہ جنگ)
آپ کی رائے