خالد خواجہ کے قتل میں حرکت الجہاد الاسلامی ملوث ہے، حکام

خالد خواجہ کے قتل میں حرکت الجہاد الاسلامی ملوث ہے، حکام
khaled-khwajaلاہور (رپورٹ: جنگ نیوز) 25مارچ کو آئی ایس آئی کے سابق افسر خالد خواجہ کو اغوا اور بعدازاں قتل کے واقعہ کی تحقیقات کرنے والے پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ ”ایشین ٹائیگرز“ دراصل جہادی کشمیری تنظیم حرکت الجہاد الاسلام کا ہی درپردہ نام ہے۔”ایشین ٹائیگرز“نے مغوی افسران اور برطانوی صحافی کی رہائی کے لئے سینئر افغان طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر سمیت دیگر شدت پسند رہنماؤں کی رہائی اور ایک کروڑ ڈالر تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔

پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے باوثوق ذرائع کے مطابق حرکت الجہاد الاسلامی پاکستان چیپٹر کے سربراہ قاری سیف اللہ ہیں جب کہ اس کی آزاد کشمیر شاخ کی قیادت الیاس کشمیری کر رہے ہیں۔الیاس کشمیری کو حالیہ چند ماہ سے القاعدہ کی حاشیہ بردار ، امریکہ مخالف تنظیم ”لشکر ظل“ کا بھی سربراہ بتایا جا رہا ہے ۔الیاس کشمیری آج کل شمالی وزیرستان کے علاقہ میر علی میں ہی روپوش ہے ، یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے سکواڈرن لیڈر(ر) خالد خواجہ کی نعش گزشتہ روز برآمد ہوئی ہے۔کشمیری عسکریت پسندوں سے ہمدردی رکھنے والے ذرائع نے خالد خواجہ کے قتل میں الیاس کشمیری یا کسی بھی اور کشمیری عسکریت پسند کے ملوث ہونے کا خیال مسترد کر دیا ہے، ذرائع کے مطابق یہ محض ایجنسیوں کا پروپیگنڈہ ہے تاکہ انہیں بدنام کیاجا سکے جو آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ عسکریت پسند رہنما کبھی بھی اغواء اور قتل کی وارداتوں میں ملوث نہیں رہے، انہوں نے کہا کہ اس قسم کے جرائم مجرموں کا کام ہے اور ناجائز مفادات رکھنے والے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے عسکریت پسندوں پر انگشت نمائی کر رہے ہیں۔خالد خواجہ کو تقریباً ایک ماہ قبل آئی ایس آئی کے ایک اور سابق افسر کرنل (ر) سلطان عامر طرار العمروف کرنل امام اور پاکستانی نژاد برطانوی صحافی اسد قریشی سمیت اغوا کیاگیا تھا ۔ آئی ایس آئی کے مذکورہ سابق افسران نے اغواکاروں کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو ، جسے جیو ٹی وی نے نشر کیا تھا میں کہا تھا کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کے کہنے پر وزیرستان کا سفر کیا تھا ۔خواجہ اور امام وہاں برطانوی صحافی کی معاونت کے لئے گئے تھے جو ایک ڈاکومنٹری کے لئے بعض طالبان کمانڈروں کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا، تینوں کو آخری مرتبہ میر علی کے علاقے میں دیکھا گیا تھا اور لاپتہ ہونے سے قبل وہ عثمان پنجابی نامی ایک شخص کے ساتھ رابطے میں تھے ۔ کیس کی گزشتہ ایک ماہ سے تفتیش کرنے والے حکام کو یقین ہے کہ عثمان پنجابی دراصل الیاس کشمیری کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس نے خواجہ خالد اور کرنل امام کو حال ہی میں پھانسا ۔ اغوا کاروں نے ای میل کے ہمراہ مغویوں کی ویڈیو فوٹیج بھجوائی تھی جس میں ملا عبدالغنی برادر کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ملا برادر مفرور طالبان کمانڈر ملا محمد عمر کا نائب تھا جسے فروری 2010ء میں پاکستانی حکام نے لندن کانفرنس کے ایک ہفتے بعد گرفتار کر لیا تھا ۔ ”ایشین ٹائیگرز“کی ای میل میں برطانوی صحافی اسد قریشی کی رہائی کے لئے ایک کروڑ ڈالر تاوان کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں کرنل (ر) امام کا کہنا ہے کہ ان کا اصل نام سلطان عامر ہے۔ میں نے 18 برس پاک فوج میں خدمات سر انجام دی ہیں۔ جن میں 11 برس آئی ایس آئی میں کام کیا۔ میں نے یہاں آنے کے لئے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ سے مشاورت کی تھی۔ اسی ویڈیو میں خالد خواجہ نے کہا تھا کہ انہوں نے پاک فضائیہ میں 18 برس اور آئی ایس آئی میں 2 برس خدمات سر انجام دی ہیں۔ میں یہاں جنرل (ر) حمید گل، جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے کرنل سجاد کے کہنے پر آیا تھا“۔ویڈیو میں خواجہ اور امام دونوں نے پشاور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کی کاپی تھام رکھی ہے۔ ویڈیو میں گروپ نے اپنا نام ”ایشین ٹائیگرز“ بتایا تھا اور کہا تھا کہ اگر 10 دن میں ہمارے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو ہم مغویوں کو قتل کر دیں گے۔ ای میل اردو زبان میں تھی جس میں ”ایشین ٹائیگرز“ نے آئی ایس ائی کے سابق افسران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ”خالد خواجہ اور کرنل امام طالبان کے قبضے میں ہیں۔ آئی ایس آئی کے دونوں افسران اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہم ملا برادر، ملا منصور داداللہ اور ملا کبیر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دیگر مجاہدین کی فہرست بھی چند روز میں بھجوا دینگے۔ ہم 10 روز کا وقت دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے مجاہدین کو رہا نہ کیا تو ہم آئی ایس آئی کے سابق افسران کو قتل کر دینگے“۔ واضح طور پر خالد خواجہ نے دباؤ میں آکر مذکورہ ویڈیو میں اعتراف کیا کہ وہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے ڈبل ایجنٹ ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کو انہوں نے ہی اکسایا کہ وہ محصور مسجد کے احاطے میں خواتین کا برقع اور نقاب پہن کر فرار ہوجائیں۔ خالد خواجہ نے کہا کہ ”میں میڈیا اور عوام میں انتہائی شریف النفس انسان کے طور پر جانا جاتا ہوں لیکن درحقیقت میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا ایجنٹ تھا…! لال مسجد میں مجھے بے گناہ لڑکوں اور لڑکیوں کی جلی ہوئی نعشیں یاد ہیں…! میں نے مولانا عبدالعزیز کو کال کی اور انہیں مجبور کیا کہ وہ خواتین کا برقع اور نقاب پہن کر مسجد سے باہر نکل آئیں۔ اور اس طرح میں نے انہیں گرفتار کرا دیا“۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق افسران کے اغوا کا ان کشمیری جہادی گروپوں کے باہمی اختلافات سے بھی کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے جو اس وقت پاکستانی سرزمین سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں وہ ویڈیو میں خالد خواجہ کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہیں۔ خالد خواجہ نے کہا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا مسعود اظہر اور عبداللہ شاہ مظہر جیسے بعض جہادی کمانڈرز اور جیش محمد، حرکت المجاہدین، لشکر طیبہ اور البدر جیسے جہادی گروپس آئی ایس آئی کے لئے کام کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان میں فنڈز جمع کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ مذکورہ تنظیموں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود ان تنظیموں کے رہنماء اب بھی پورے پاکستان میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں لیکن الیاس کشمیری کو پاکستانی حکام انتہائی مطلوب کمانڈر قرار دے چکے ہیں۔ الیاس کشمیری کا لشکر ظل غیر معمولی گوریلا آپریشنز کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک حملہ 31 دسمبر 2009ء کو خوست میں امریکی سی آئی اے کے اڈے پر کیا گیا تھا۔ جس میں 7 سی آئی اے اہلکار مارے گئے تھے۔ الیاس کشمیری نے مبینہ طور پر بھارت میں متعدد بڑی مسلح کارروائیاں کی ہیں جن میں 1994ء میں دہلی میں ہونے والا الحدید آپریشن بھی شامل ہے۔ اس وقت کشمیری کا سیکنڈ ان کمانڈ شیخ احمدعمر سفید تھا جسے 2001ء میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اور بعد ازاں قتل کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔ الیاس کشمیری کو دسمبر 2003ء میں راولپنڈی میں جنرل مشرف کے قافلے پر راولپنڈی میں دوہرے خودکش حملے کے بعد پاکستانی حکام نے گرفتار کیا تھا لیکن 2 ہفتے کے بعد ناکافی شہادتوں کی بناء پر رہا کر دیا۔ بعد میں کشمیری نے کوٹلی آزاد کشمیر سے اپنا اڈا پاک افغان سرحدی علاقے شمالی وزیرستان منتقل کر لیا اور کالعدم تحریک طالبان کے امیر بیت اللہ محسود سے اتحاد کر لیا۔ اپنی سرگرمیاں جموں کشمیر میں جہاد سے ہٹا کر افغانستان میں نیٹو فورسز کے خلاف مزاحمت پر مرکوز کرنے کے بعد کشمیری نے شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں ایک ٹریننگ کیمپ قائم کیا اور کوٹلی کیمپ سے زیادہ تر جنگجوؤں کو یہاں منتقل کر لیا۔ تب سے کشمیری القاعدہ کی ”شیڈو آرمی“ لشکر ظل کاسربراہ بن بیٹھا ہے۔ اب تو پاکستانی سکیورٹی ایجنسیاں آزاد کشمیر میں مسلح افواج پر ہونے والے حملوں میں کشمیری کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کر رہی ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں