قندھار آپریشن ۔ امریکا کی پیشگی شکست

قندھار آپریشن ۔ امریکا کی پیشگی شکست
american-armyافغانستان میں اپنا فوجی امیج بہتر بنانے کی ہر امریکی کوشش مسلسل الٹی ہی پڑ رہی ہے۔ مرجا کے بعد اب قندھار پر حملے کی تیاریاں طالبان تحریک مزاحمت کی کمر توڑ دینے کے اُن ہی دعووں کے ساتھ جاری ہیں جن کی تکمیل مرجا میں کسی بھی درجے میں نہیں ہوسکی۔

افغان صوبے ہلمند کے مرجا نامی علاقے کو طالبان کا گڑھ قرار دے کر فروری میں’آپریشن مشترک‘ ان دعووں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا کہ اس کے بعد خطے میں امریکی ایجنڈے کی راہ میں حائل مشکلات دور ہوجائیں گی اور اہداف کا حصول آسان ہوجائے گا، مگر یہ کارروائی بیرونی قابضین کو مزید رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے سکی، جبکہ موجودہ افغان جنگ کی تاریخ کے سب سے بڑے قرار دیے جانے والے اُس آپریشن سے پہلے ہی، جس کے لیے قندھار کا انتخاب کیا گیا ہے، امریکا اس علاقے میں عوامی محاذ پر یہ جنگ ہار چکا ہے۔ قندھار میں رائے عامہ جاننے کے لیے خود امریکی فوج کی طرف سے واشنگٹن کے ادارے گلیوم (Glevum) ایسوسی ایٹس کے زیراہتمام کرائے گئے ایک سروے کے نتائج ، جو 16 اپریل کو منظر عام پر آئے ، بتاتے ہیں کہ 94 فی صد لوگ بیرونی قبضے کی مزاحمت کرنے والے طالبان کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فوجی کارروائی کے بجائے ان سے مذاکرات کے حامی ہیں جبکہ 85 فی صد کا کہنا ہے کہ ” طالبان ہمارے بھائی ہیں۔“ امریکی محقق اور صحافی گارتھ پورٹر نے اس سروے کے حوالے اپنے ایک حالیہ کالم میں اہم تفصیلات فراہم کی ہیں۔
اس سروے میں قندھار شہر کے علاوہ ارغنداب، زہاری، دیہی قندھار اور پنجوائی کے اضلاع کو شامل کیا گیا ہے جہاں اس نو سالہ جنگ کے سب سے بڑے آپریشن کے لیے جنرل اسٹینلے میک کرسٹل مزید امریکی افواج تعینات کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہ سروے صرف ان علاقوں میں کیا گیا ہے جہاں طالبان کا کنٹرول نہیں ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان کا خوف لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس سروے کے بعد یہ سوال سنجیدہ اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ کیا طالبان کو قندھار سے نکال باہر کرنے کے نام پر امریکا اور نیٹو کے اس مجوزہ آپریشن کو افغان قبائلی زعماء اور عوام کی حمایت حاصل ہوگی جس کے دعوے امریکی قیادت کرتی چلی آرہی ہے۔ چار اپریل کو اس حوالے سے حقیقت اس وقت پوری طرح سامنے آگئی جب پورے قندھار سے آنے والے قبائلی زعماء نے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے ان پر واضح کیا کہ وہ اس فوجی آپریشن کے منصوبے سے خوش نہیں ہیں۔ گلیوم سروے کے مطابق قندھارکے 91 فی صد لوگ قیام امن کے لیے ایسے لویہ جرگہ کے حامی ہیں جس میں طالبان کو بھی شریک کیا جائے۔رائے عامہ کے اس جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان عوام کس شدت سے طالبان کے خلاف آپریشن کے مخالف اور قابض استعماری افواج کی واپسی کے خواہشمند ہیں۔امریکا اور نیٹو ممالک کے خلاف عوامی جذبات کی شدت کے حوالے سے ٹائم میگزین کے کالم نگار جوئے کلین نے 15 اپریل کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں بتایا ہے کہ امریکی فوج کے کیپٹن یرمیاہ ایلس کے ساتھ اس نے ضلع زہاری میں ایک 17 سالہ افغان نوجوان سے ملاقات کی جس کا گھر امریکی کیپٹن نگراں فوجی چوکی کے طورپر استعمال کرنا چاہتا تھا۔ امریکی صحافی کے مطابق جب کپتان نے اس نوجوان سے پوچھا کہ اس کے خیال میں یہ جنگ کس طرح ختم ہوگی؟ تو نوعمر افغان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ”جب بھی تم لوگ واپس چلے جاوٴگے، حالات بہتر ہوجائیں گے۔ ہمارے اکابر طالبان کے ساتھ مل بیٹھیں گے اور طالبان اپنے ہتھیار رکھ دیں گے۔“
گلیوم سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ سروے میں شریک افراد میں سے 58 فی صد نے قابض افواج اور افغان نیشنل آرمی اور افغان نیشنل پولیس کی چیک پوسٹوں اور گاڑیوں کو اپنی سلامتی کے حوالے سے طالبان کی چیک پوسٹوں اور سڑکوں کے کنارے نصب کیے گئے بموں سے زیادہ خطرناک قرار دیا جبکہ صرف 37 فی صد نے کہا کہ ان کے نزدیک طالبان کی چیک پوسٹیں اور شاہراہوں کے کنارے نصب کیے گئے بم ان کی سلامتی کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔خاص قندھار شہر میں، جو مجوزہ امریکی آپریشن میں بنیادی اہمیت کا حامل ہدف ہوگا، امریکی نیٹو افواج اور افغان فوج اور پولیس کی چوکیوں اور گاڑیوں کو اپنے لیے زیادہ بڑا خطرہ سمجھنے کا رجحان اور بھی زیادہ ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ قندھار شہر میں65 فی صد افراد نے طالبان کے مقابلے میں بیرونی افواج اور افغان پولیس اور فوج کے چیک پوائنٹس کو اپنی سلامتی کے لیے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا۔ سروے میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر بھی متفق تھی کہ کرزئی حکومت انتہائی کرپٹ ہے جبکہ 53 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ طالبان بدعنوان اور خائن نہیں ہیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق لوگوں کو کرپشن کا عملی تجربہ ان چیک پوسٹوں کے توسط سے ہمہ وقت ہوتا ہے، افغان فوج اور پولیس کی چیک پوسٹوں پر انہیں بھتے اور رشوت کے لیے تنگ کیا جاتا ہے جبکہ طالبان کی چیک پوسٹوں پرعموماً انہیں اس بدسلوکی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
فوجی آپریشن کے خلاف قندھار کے 94 فی صد لوگوں کی یہ دوٹوک رائے مبصرین کے نزدیک اوباما انتظامیہ میں فوجی آپریشن کے حامیوں کے لیے سخت دھچکا ثابت ہوگی جبکہ صدر اوباما کے موقف کو تقویت ملے گی، جنہوں نے مرجا میں آپریشن مشترک کے فوراً بعد پچھلے مہینے اپنی کابینہ کے اجلاس میں طالبان سے فوری طور پر بات چیت شروع کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا مگر وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پرزور اختلاف کرکے انہیں اپنی رائے سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ ان طاقتور وزراء کا کہنا تھا کہ جب تک جنرل میک کرسٹل طالبان کو خاصا نقصان پہنچا کر کمزور نہ کر دیں اس وقت تک ان سے بات چیت نہیں کی جانی چاہیے۔ تاہم اس سروے کے نتائج صدر اوباما کے اس موقف کو مضبوط کریں گے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل فوری شروع کردیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قندھار آپریشن، شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا جسے امریکا کی فوجی حکمت عملی کی کھلی شکست کے سوا کوئی اور نام دینا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ قندھار کے عوام کی یہ رائے سامنے آ جانے کے بعد افغان مزاحمت کاروں کی قیادت نے صورت حال کا فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے واضح طور پر اشارہ دے دیا ہے کہ وہ نظام شریعت کی بحالی، قابض بیرونی افواج کی واپسی اور امن و سلامتی کے قیام کی شرط پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے زیر انتظام ایک علاقے میں سنڈے ٹائمز لندن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں دو طالبان رہنماوں نے تحریک مزاحمت کے قائد ملا محمد عمر کی جانب سے یہ بات کہی ہے۔ اس طرح قندھار کے عوام نے اپنے ملک کو ناجائز جارحیت کا نشانہ بنانے والی سامراجی قوتوں کے لیے نوشتہ دیوار رقم کردیا ہے جو واضح طور پر یہ ہے کہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی طاقتور قوموں کو خاک نشینوں افغانوں سے شکست کھا کر، افغانستان پر دائمی قبضے کی حسرت دلوں میں لیے اس سرزمین سے محض رسوائی سمیٹ کر واپس جانا ہو گا۔

ثروت جمال اصمعی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں