‘قیام صلاۃ کے حوالے سے مذہبی حکومتوں کا کردار مثبت ہونا چاہیے’

‘قیام صلاۃ کے حوالے سے مذہبی حکومتوں کا کردار مثبت ہونا چاہیے’
molana21اگر کوئی حکومت اسلامی ہونے کا دعویدار ہے تو اس کی ذمہ داریوں میں اقامہ نماز کے ذرائع فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ بعض بیمار ذہن رکھنے والے حکومتی عناصر اقامہ نماز کے بارے میں حساس ہوتے ہیں اور اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ اس گھناؤنے حرکت کی بنیادی وجہ سوچ کی غلطی ہے یہی چیز اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ جامع مسجد مکی زاہدان کے خطیب مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔

«الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ»
خطیب اہل سنت زاہدان نے اسلام میں نماز کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے بعض سرکاری اداروں کا قیام صلاۃ کے حوالے سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ (یاد رہےایران کے بعض تعلیمی اداروں اور مسلح افواج کی چھاؤنیوں میں سنی مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ نیز حال ہی میں ایران کے بڑے شہروں میں(اصفہان، کرمان، یزد،کاشان اورتہران کے آس پاس علاقے) اہل سنت برادری کی نمازجمعہ و عیدین پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حضرت شیخ السلام دامت برکاتہم نے یہ باتیں اسی تناظرمیں کہی ہیں۔)
انہوں نے کہا نماز اسلام کا اہم رکن ہے جو دنیا وآخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد سب سے اہم رکن نماز ہے۔ در حقیقت دینی واسلامی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نماز قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ لیکن بعض حکومتی عناصر با جماعت نماز اور جمعہ وعیدین کی نمازوں کے قیام کی راہ میں مانع بنتے ہیں۔ حتی کہ بعض علاقوں اور شہروں میں جمعہ کی نماز گھروں میں اداء کی جاتی ہے لیکن ایرانی حکام اس پر پابندی لگاتے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں بیمار ذہن ہی کے لوگ کرسکتے ہیں۔ مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے مزید کہا مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع نہیں کرنا چاہیے بلکہ سب کو ادائے نماز کی طرف بلانا چاہیے۔ ہماری تمنا ہے شیعہ وسنی سب نمازی بن جائیں۔ آپ نے مساجد ومدارس اور قرآنی مکاتب کی تعمیر کی مخالفت کو مذہبی حکومتوں کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ایرانی آئین نے تعلیم وتبلیغ دین کو قانونی اور بنیادی حق تسلیم کیا ہے۔
ملک میں تبلیغی جماعت کی کاوشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا یہ جماعتیں کلیات اور دین کی مشترکات کی طرف دعوت دیتی ہیں، نماز و روزہ اور اعمال صالحہ کے بارے میں باتیں کرتی ہیں اور اختلافی مسائل کے بیان سے گریز کرتی ہیں اس لیے ان کی سرگرمیوں پر پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ ملک کی نجات وکامیابی کا راز دین اور دعوت الی اللہ میں پوشیدہ ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے سرپرست نے کہا بعض بستیوں اور گوٹھوں میں صرف ایک شیعہ فیملی کے لیے مسجد تعمیر کی جاتی ہے، ہم ایسا کرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، نہ اہل تشیع حضرت علی کو پرستش کرتے ہیں نہ ہی اہل سنت حضرت عمر اور علی (رض) کی عبادت کرتے ہیں۔
حتی کہ غیر مذہبی ممالک اور حکومتوں میں لوگوں کی عبادات اور مذہبی مسائل میں مداخلت نہیں کی جاتی ہے۔ شاہ ایران کے دور حکومت میں توایک مرتبہ ایرانی بلوچستان کے کسی ضلع میں ایک عالم دین نے ضلعی گورنر سے نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت چاہی۔ ضلعی گورنرنے پوچھا مسلمان کس دن جمعہ پڑھتے ہیں؟! عالم دین نے کہا جمعے کے روز۔ اس نے کہا صرف جمعہ ہی نہیں آپ ہفتے کے روز بھی یہی نماز پڑہیے! مگر حکومت سے دست وگریبان نہ ہوجائیے! اب جب ایک مذہبی حکومت بر سر اقتدار ہے تو دینی تقریبات زیادہ آزادی کے ساتھ منعقد ہونی چاہیں۔
خطیب اہل سنت اور عظیم سنی رہنما نے نماز اور اذان کی اہمیت کی تشریح کے ضمن میں کلمات اذان کی وضاحت فرمائی۔ انہوں نے کہا اذان مسلمانوں کے شعائر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے۔ اذان امت مسلمہ کی خصوصیت ہے۔ پچھلی امتوں میں اذان کی جگہ ناقوس کی گھنٹی بجائی جاتی تھی۔ کلمات اذان میں پورے دین کاخلاصہ موجود ہے۔ “اللہ اکبر” جسے اذان شروع ہوتی ہے خالق کی عظمت اور بڑائی کو بیان کرتا ہے، “اشہد ان لا الہ الا اللہ” سے اللہ تعالیٰ کی توحید واضح ہوتی ہے۔ “اشہد ان محمداً رسول اللہ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار ہے۔ پوری دنیا کے شہروں کی فضائیں اذان سے معطر ہوتی ہیں۔ اسلامی ممالک کے علاوہ کفار و مشرکین کے شہروں کے مینار بھی یہی پیغام دیتے ہیں۔ شہادتیں کے بعد “حی علی الصلاۃ” کی ندا آتی ہے کہ ایمان کے بعد نماز سے بڑھ کر کوئی عبادت اہم نہیں ہے۔ “حی علی الفلاح” کا پیغام بھی یہی ہے کہ کامیابی نماز قائم کرنے میں ہے۔ نماز کی طرف آئیے جو فلاح وکامیابی کا راستہ ہے۔ گھروں، بازاروں اور بنگلوں میں کامیابی نہیں ملتی ہے، بلکہ نماز کی ادائیگی سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ تو نماز کے وقت دکانوں کو بند کرکے مساجد کا رخ کرنا چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے زور دیتے ہوئے کہا جب “حی علی الفلاح” کی صدائیں بلند ہوتی ہیں تو اس لمحے میں کامیابی صرف نماز میں ملتی ہے، اس وقت نماز کو چھوڑ کر مدارس وکالجوں میں تدریس کرنا یا گھروں اور بازاروں میں مشغول ہونا ناجائز ہوجاتاہے۔ نماز کے وقت تعلیم وتدریس یا تبلیغ میں کامیابی تلاش نہیں کی جاسکتی۔
بوقت نماز مدارس کو درس حدیث تک بند کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیز میں بھی تدریس موقوف کرکے نماز کی طرف لپکنا چاہیے۔ اسی طرح بازاروں کو بند ہوناچاہیے۔
بعض اسٹوڈنٹس ہم سے پوچھتے ہیں جب نماز کا وقت ہوتاہے تو ہم کلاسوں میں ہوتے ہیں اجازت چاہنے پر ٹیچر حضرات نماز کیلیے جانے نہیں دیتے، یہ کیوں؟ حکومت جب اسلامی ہے تو ایسا کیوں ہو؟ علم اور کاروبار نماز سے بڑھ کر اہم نہیں ہوسکتے۔
ہماری حکومت ،،اسلامی،، کا لفظ اپنے ساتھ رکھتی ہے تو اس میں سب سے زیادہ نماز کو اہمیت دینی چاہیے۔ بلا شبہ جب نماز کا وقت نہ ہو تو تعلیمی سرگرمیاں اہم ہیں لیکن نماز کے وقت یہ درس و تدریس بے اعتبار ہوجاتی ہے۔
سرپرست دارالعلوم زاہدان نے اذان کے آخری کلمات “اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ” کو اللہ تعالی کی بڑائی اور توحید کی تاکید قرار دیا۔ انہوں نے کہا قیامت تک دنیا ان مبارک کلمات کی خوشبو سے معطر ہوتی رہے گی۔ چنانچہ اگر کوئی فرد اکیلا نماز پڑھتا ہے اس کے لیے بھی مستحب یہی ہے کہ اذان واقامت کرے چونکہ سننے والی مخلوقات قیامت کے دن اس کے لیے گواہ بنیں گی۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ کلمات اذان سے بڑھ کر کوئی لفظ شیطان پر بھاری نہیں ہے یہاں تک کہ شیطان اذان کی آواز سن کر بھاگ جاتاہے اور اس قدر تیز بھاگتاہے کی اس کی ہوا نکل جاتی ہے۔ جب اقامت شروع ہوتی ہے تو دوبارہ بھاگ نکلتاہے، پھر واپس آکر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کرتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے اذان کے بارے میں مزید کہا تمام اسلامی ممالک میں صدائے اذان بلند ہونی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض بڑے شہروں جیسا کہ تہران، اصفہان ودیگر شہروں میں اذان کی صدائیں بلند نہیں ہوتیں۔ ریڈیو اور ٹی وی سے نشر شدہ اذان میں وہ تاثیر نہیں ہے جومساجد کے میناروں سے براہ راست ہونے والی اذان میں ہے۔ انہوں نے کہا صدائے اذان کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ حتی کہ اگر اذان کی آواز سے کسی کی نیند خراب ہوجائے پھر بھی اذان کہنی چاہیے چونکہ اذان کے وقت ایک مسلمان کو نہیں سونا چاہیے۔
مساجد اور صدائے اذان کا وجود نماز کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔ فرض نمازوں کو مسجدوں میں ادا کرنی چاہیے۔ حدیث کے مطابق اللہ کے یہاں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مساجد اور سب سے ناپسندیدہ مقام بازار ہے۔ مسجد عبادت وبندگی، نماز وتلاوت اور ذکر کی جگہ ہے جبکہ مارکیٹوں اور بازاروں میں جھوٹ، دھوکہ بازی اور جھوٹی شہادتیں عام ہیں۔
آخر میں مولانا عبدالحمید نے نماز سے دوری کو عصر حاضر کا سب سے بڑا بحران قرار دیا۔ انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہمیشہ پنجگانہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ اداء کرکے اپنی صفوں کو سیدھی اور صحیح بنائیے۔ اس عظیم حکم خداوندی کی ادائیگی میں کسی طرح سْستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں