’پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ اور قابل اعتماد‘

’پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ اور قابل اعتماد‘
gillani_obamaواشنگٹن (خبررسان ادارے) امریکی صدر براک اوباما نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محفوظ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو اقدامات کئے ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اعتماد ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں۔

اوباما دنیا میں ایٹمی دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے واشنگٹن میں سینتالیس ممالک کے جوہری سلامتی کے موضوع پر ہونے والے سربراہی اجلاس کے آخری روز مشترکہ اعلامیہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے پاکستان سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ پاکستان الگ اصولوں پر کارفرما ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ بلکل واضع رہے ہیں جیسے ہم دوسرے ملکوں کو بھی کہ رہے ہیں کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی میں شامل ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ انہوں نے کچھ عرصے میں پاکستان میں ایٹمی سلامتی کے معاملے میں پیشرفت دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پورے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی دیکھنا چاہتا ہیں۔
’میرے خیال میں وزیراعظم گیلانی کا یہاں آنا اور مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنا ایک مثبت قدم ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان سے ایٹمی پھیلاؤ کے اقدامات ہوں گے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی بہت کام کرنا ہے۔
صدر اوباما نے مزید کہا کہ ان کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور تنصیبات کی حفاظت کے انتظامات پر پورا اعتماد ہے تاہم بعض واقعات ہوسکتے ہیں لیکن ایسے واقعات امریکہ سمیت پوری دنیا میں ہو چکے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ہی یہی ہے کہ تمام ممالک سلامتی کے بھرپور اقدامات کریں۔
اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگلے چار برس کے دوران تمام ایسے ایٹمی ایندھن کو محفوظ بنانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں گے جو دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔
صدر اوباما نے بتایا کے اس اجلاس کے نتیجے میں کینیڈا اپنے پاس یورینیم کا بڑا حصہ تلف کرنے پر رضامند ہوگیا ہے، چلی اپنے تمام ذخائر ختم کر رہا ہے، یوکرین اور میکسیکو نے بھی ایسا ہی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسرے ممالک جیسا کہ ارجنٹینا اور پاکستان نے ایٹمی سمگلنگ کو روکنے کے لئے بندرگاہوں کی حفاظت کے لئے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ کئی دیگر ممالک نے عالمی معاہدوں کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری ایٹمی سلامتی کے لئے مل کر مشترکہ اقدامات کرے گی، قوانین بنائے گی اور ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرے گی۔
اجلاس اقوام متحدہ اور ایٹمی نگرانی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کو مظبوط اور موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا اور متعدد ممالک نے اس سلسلے میں پیسے فراہم کرنے کے وعدے کئے۔
صدر اوباما نے کہا کہ یہ اجلاس ان کے اس ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ان کی خواہش ہے کہ دنیا کے تمام ممالک، بشمول اسرائیل، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کریں۔
اس سے قبل روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت روس ڈھائی ارب ڈالر کے خرچے سے اپنے افزودہ پلوٹونیم کے کچھ حصے کو تلف کرے گا۔ اس لاگت میں سے چار سو ملین ڈالر کی رقم امریکہ فراہم کرے گا۔
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے ملک کے پاس چونتیس ٹن پلوٹونیم ہے جس کی انہیں ضرورت نہیں۔
صدر اوباما نے منگل کے روز اجلاس کے دوسرے دن کی کارروائی کے آغاز پر مندوبین سے کہا کہ وہ ایٹمی مواد غلط ہاتھوں میں چلے جانے کے خطرے سے نمٹنے کے لئے اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ممالک کی جانب سے ایٹم بم استعمال کرنے کا خطرہ بتدریج کم ہوگیا ہے لیکن یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ انتہائی بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صرف ایک سیب کے مساوی تابکاری مادے سے بھی ہزاروں لوگ ہلاک کئے جاسکتے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ القاعدہ اور اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہ تابکاری مادے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر وہ ان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ان کو استعمال کریں گے۔
جوہری سلامتی کا اگلا سربراہی اجلاس دوہزار بارہ میں جنوبی کوریا میں منعقد کیا جائے گا۔ سینتالیس ممالک کی واشنگٹن میں ہونے والی یہ کانفرنس امریکہ کی جانب سے انیس سو پینتالیس کے بعد منعقد کی جانے والی سب سے بڑی کانفرنس تھی.
اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا میں سولہ ہزار ٹن ایٹمی ایندھن موجود ہے جو کہ تقریباً تمام ان ممالک کے پاس ہے جو خود کو ایٹمی طاقتیں ظاہر کر چکے ہیں اور اس ایندھن کے سب سے زیادہ ذخائر روس میں موجود ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں