عراق …امریکی قبضے کے سات سال … (۱)

عراق …امریکی قبضے کے سات سال … (۱)
baghdad-warآج سے سات سال پہلے (کل کے دن) 10 اپریل2003کو امریکہ نے عراق پر غاصبانہ تسلط قائم کیا۔امریکہ نے عراق پر حملے کا یہ جواز بنایا کہ صدام حسین کیمیائی ہتھیار بنا رہا ہے اور اسکے طرز عمل سے عالمی امن کو شدید خطرہ ہے۔ سات سال گزرنے کے باوجود عراق سے نہ تو کوئی کیمیائی ہتھیار برا ٓمد ہوئے اور نہ ہی کوئی ایسے شواہد ملے جس سے ظاہر ہو کہ عراق مہلک ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ نے عراق پر قبضہ عراقی تیل کے ذخائر حاصل کرنے اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کیلئے کیا۔ اسی طرح افغانستان پر قبضے کا مقصد بھی اس خطے کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اپنے فوجی اڈے قائم کرنا اور کیسپین(Caspian) کے تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ افغانستان اور عراق پر امریکی تسلط کے حوالے سے کچھ حیران کن انکشافات قارئین کرام کیلئے پیش خدمت ہیں۔

عراق پر امریکی حملے سے ایک سال پہلے ستمبر2002 ء میں امریکہ کی جنگی پالیسی اور حکمت عملی وضع کرنیوالے ادارہ National Security Strategy of United States of America کی جانب سے جاری کی جانیوالی دستاویزات میں تحریر ہے کہ دنیا میں اب ایسی صورتحال پیدا کی جاچکی ہے کہ امریکہ آسانی سے دنیا بھر میں اپنی حکمرانی کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔اس دستاویز میں تین نکات پر زور دیاگیا ہے۔
1 -کسی بھی ملک کو ایسی فوجی طاقت رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جوامریکہ کیلئے خطرہ بن سکے۔
2 -امریکہ کو اگر کسی ملک سے خطرہ پیدا ہونے کا خدشہ یا امکان ہو تو امریکہ کا حق ہے کہ اس ملک کو تباہ وبربادکردے ۔
3 – جرائم روکنے والی کسی بھی عالمی عدالت کو کسی امریکی پرمقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی چاہے وہ کتنے ہی گھناونے جرم کرنے کا مرتکب کیوں نہ ہو ۔
دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ یہ سب کچھ امریکی مفادات کا تقاضاہے کہ ان نکات کو عالمی طورپر قبول کرایا جائے تاکہ امریکی اقدار محفوظ ہوں اور امریکی مفاد کے تقاضے پورے ہوں ۔ امریکی مفادات کیا ہیں؟ توانائی کے ذخیروں پر قبضے کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں مستقبل کے امریکی منصوبے، وسیع تر سٹرٹیجک ، معاشی اور سیاسی عزائم پر مشتمل ہیں۔ انہیں پورا کرنے کیلئے دس کروڑ کے لگ بھگ عرب آبادی کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے ۔
اس جنگ کو مغر بی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگ کے دوران بی بی سی نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ امریکی حملے کا مقصد محض عراقی عوام کو صدام حسین سے نجات دلانا نہیں بلکہ تیل پر قبضہ کرنا، طویل عرصہ تک وہاں فوج رکھنا اوروہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا اسکے اصل عزائم ہیں۔ امریکہ نے اس جنگ پر پچاس ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ اندازہ ہے کہ عراقی تیل سے اسے سالانہ پانچ سو ارب ڈالر کی بچت ہوگی ۔عراق کیخلاف کارروائی سے تین مقاصد کا حصول پیش نظرتھا۔
اول٭خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا،
دوم٭عراق کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنا،
سوم٭مشرق وسطی کا نیا سیاسی نقشہ ترتیب دینا ۔
تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے عراقی تیل پر قبضہ کیلئے منصوبہ بندی 1975 ء میں کی۔ عراق چونکہ ایک فوجی قوت تھا اس کو پہلے ایران سے لڑا کر کمزور کیا گیا پھر کویت پر حملہ کی ترغیب دی اور پھر UNO کی قرارداد منظور کرا کرامریکہ کویت کو آزاد کرانے چل پڑا ۔ اس سے عراق کی فوجی قوت کافی کمزور ہوئی اور رہی سہی کسر پابندیوں نے نکال دی ۔ اسلحہ انسپکٹروں کو عراق بھیجا گیا کہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار ڈھونڈو۔ جب وہ نہ ملے تو 20 مارچ2003 ء کو عراق پر حملہ کردیا کہ ہم اس کو صدام حسین سے آزاد کرانے آئے ہیں ۔ کون سا ہتھیار ہے جو عراقیوں پرآزمایا نہیں گیا ۔
عراق کیخلاف کارروائی کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ اس نے کیمیاوی ہتھیار چھپا رکھے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے چیف انسپکٹرزہانس بلکس اور محمد البرادی بار بار یہ کہتے رہے کہ انہوں نے عراق کا کونہ کونہ چھان مارا،لیکن کہیں مہلک یا کیمیاوی یا جراثیمی ہتھیار نہیں ملے ۔
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ عرا ق میں بعث پارٹی کے انقلاب کے بعد امریکہ نے اس خطے میں اپنے وسیع تر مفادات کی منصوبہ بندی شروع کی جس کے تحت مسلم ممالک میں امریکہ کی حمایت کرنیوالی حکومتوں کا تحفظ کرنا اور امریکہ مخالف حکومتوں کو ہٹانا تھا ۔ اس تھیوری کو” انقلاب “اورــ” رد انقلاب “کا نام دیا گیا ۔
لوگ دنیا کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یونی پولر ورلڈ میں تین جنگوں کے بعد اب دنیا کا نقشہ کیا ہوگا۔1991ء میں خلیجی ، پھر افغان اور اب عراقی جنگ کے دوران امریکہ نے جو رویہ اور طریقہ اختیار کیا اس نے کرہ ارض کے ملکوں کی اکثریت کو بے شمار خدشات میں مبتلا کردیا ہے ۔ کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے اگر دنیا کی طنابیں کھینچ کر اسے گلوبل ولیج بنا دیا ہے تو امریکی نیو ورلڈ آرڈر دراصل اسی گلوبل ولیج کو عالمگیر امریکی سلطنت میں تبدیل کرنے کا ایجنڈا ہے۔ عراق پر امریکی قبضہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب عالمگیرسلطنت کے امریکی خواب کی تعبیر کی سمت پیش رفت کا سارا دارومدار عراق پر ہے کہ وہاں حالات کس نہج پر آگے بڑھتے ہیں۔
عراقی تیل کے استحصال سے قطع نظر اگر امریکہ وہاں پر امن، جدید جمہوری ریاست کا ماڈل پیش کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو عالمگیر امریکی سلطنت کے قیام کی طرف اس کی پیش قدمی جاری رہ سکتی ہے۔ اب یہ مشرق وسطی کے قوم پرستوں پر منحصرہے کہ وہ اپنی قومی خود مختاری برقرار رکھنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں اور امریکہ کو کس قدر شدید مزاحمت سے دوچار کرتے ہیں ۔(جاری ہے)

سرور منیر رائو
(بشكريہ نواۓ وقت)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں