اگر یہ جنگی تیاری نہیں تو کیا ہے؟

اگر یہ جنگی تیاری نہیں تو کیا ہے؟
indian-weaponsپاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں بشمول پاکستان آرمی کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کے خیال میں بھارتی فوج اس وقت جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی وسیع فوج کیلئے ہتھیاروں کی فراہمی ہے۔بھارتی فوج شروع سے روسی اسلحہ پر انحصار کرتی رہی ہے اور اب وہ امریکی اور یورپی اسلحے کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ ان ہتھیاروں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کیلئے کم از کم مزید چند سال چاہئیں لیکن زمینی حقائق اسکے بر عکس ہیں ۔ ہماری یہی خوش فہمی ہے جس سے بھارت فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔ آج سے تین ہزار برس پہلے بھارتی ارسطو کوتلیہ چانکیہ نے جنگ کی راہ متعین کرتے ہوئے لکھا تھا
“Hit the enemy where & when he least expects.” ۔’’یعنی دشمن پر اُس وقت اور اُس جگہ حملہ کریں جب اور جہاں اُسے بالکل توقع نہ ہو‘‘ اور یہی حالت اس وقت بھارت اور ہماری ہے۔

اگر 1971ء کی جنگ کا تجزیہ کیا جائے تو ڈرامے کی نہ صرف ریہرسل ہو چکی ہے بلکہ مختلف Scenes کیلئے سٹیج بھی ترتیب دیا جا چکا ہے۔ بھارت معاشی طور پر بہت مضبوط ہے ۔معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ملک میں امن و امان ہے۔ بھارتی قیادت امریکہ ، سعودی عرب اور روس سے مل چکی ہے اور موجودہ دور کے یہی وہ اہم کھلاڑی ہیں جو علاقے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ممبئی حملے کے بعد سے بھارت اپنی قوم کو پاکستان کیخلاف تیار کر چکا ہے ۔ افغانستان اور ایران میں خصوصاً سرحدی علاقوں میں اپنے کونسل خانے کھول کر پاکستان کے ارد گرد گھیرا ڈال چکا ہے۔ چاہ بہار (ایرانی بندرگاہ) سے افغانستان تک متبادل راستے کے طور پر اہم شاہراہ تعمیر کر چکا ہے۔مکتی باہنی طرز کی دہشتگردتنظیمیں مختلف ناموں سے پورے پاکستان میں پھیلا چکا ہے جو پاکستان کی سا لمیت پر کاری ضربیں لگا رہی ہیں۔ پاکستان آرمی کو فاٹا میں ایک نا ختم ہونیوالی جنگ میں اُلجھا چکا ہے۔ افغانستان کو 1.2بلین ڈالر کی امداد دے کر افغانیوں کا سب سے پسندیدہ ملک بن چکا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت نومبر 2009ء میں ہونیوالے گیلپ پول ہیں۔ اس میں بھارت کو 72فیصد ووٹ ملے اور پاکستان کو محض 2فیصد ۔ بھارت افغانستان کا پسندیدہ ترین ملک قراردیا گیا جبکہ پاکستان نفرت کا نشان ۔
فوجی تیاری کے لحاظ سے چند ماہ پہلے بھارت ہماری سرحد پر ہائی لیول فوجی مشقیں کر چکا ہے جس میں اخباری اطلاعات کیمطابق دو سے چار کوروں کے استعمال کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ان مشقوں میں ائیر فورس اور نیوی نے بھی حصہ لیا کیونکہ فوجی مشقیں اس علاقے میں کی جاتی ہیں جہاں جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی ہو۔ پاکستان کے سرحدی علاقے کے نزدیک بھارتی افواج کی مشترکہ مشقیں بے بنیاد نہیں ہو سکتیں۔ یہ ممکن نہیں کہ بھارت مشقیں ہماری سرحد پر کرے اور جنگ چین یا کسی اور ملک کیساتھ کرے ۔
بھارت نے اپنی دور دراز چھائونیوں سے کم سے کم وقت میں پاکستانی سرحد پر پہنچنے کا بندوبست بھی کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پچھلے سال بھارتی فوج کے چیف جنرل دیپک کپور نے 96گھنٹوں میں نتائج حاصل کرنے کی بڑھک ماری تھی۔ اسی دوران بھارت نے کئی ایک دور و نزدیک تک مار کرنیوالے میزائلوں کا بھی تجربہ کیا ہے اور یہ وہ میزائل ہیں جنہیں صرف Pakistan Oriented یعنی خصوصی طور پر صرف پاکستان کیلئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان میں ایٹمی صلاحیت کے میزائل بھی شامل ہیں۔ 21مارچ کو 290کلو میٹر تک مار کرنیوالے “Manoeverable Cruise Missile” براہموس کا تجربہ کر کے بھارت سپر سانک حرکت پذیر میزائل رکھنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔یہ میزائل اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مطلوبہ ہدف کو آسانی سے تباہ کر سکتا ہے۔ موجودہ دور کا جدید جاسوس طیارہ AWACS اسرائیل سے حاصل کر لیا گیا ہے اور مزید دو جلد ہی ملنے والے ہیں۔ موجودہ دور کی جنگ میں ائیر فورس اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ فوجی زبان میں Decisive Factorکے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ائیر فورس ہمیشہ فوجی حملے سے پہلے دشمن کے علاقے میں منتخب اہداف پر حملہ کر کے فوجی حملے کیلئے راستہ تیار کرتی ہے۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے ہماری سرحد کے نزدیک ’’پوکھران‘‘ کے مقام پر 28فروری کو “Vayu-Shakti” نام سے ایک بہت بڑی مشق کی ہے ۔
اس مشق میں 107بمبار اور فائٹر جہازوں نے حصہ لیا ۔بقول بھارتی میڈیا کے آسمان جہازوں سے بھر گیا ۔ اس ایکسرسائز کی نوعیت بڑی الارمنگ ہے کیونکہ یہ مشق دن میں بھی کی گئی اور رات کو بھی۔ اس میں بم ، راکٹ اور میزائل وغیرہ سب کچھ استعمال کیا گیا۔ اس مشق میں ایک بہت اہم چیز ’’اہداف‘‘ پر حملوں کی مشق تھی۔ عام فوجی اہداف کے علاوہ خصوصی طور پردہشت گردوں کے نقلی کیمپ بھی تیار کئے گئے جن پر حملوں کی بار بار مشق کی گئی۔ یہ خصوصی ہدف اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ بھارت بار بار پاکستا ن میں 42دہشت گرد کیمپوں کا ذکر کرتا ہے۔
جہاں تک ہماری یہ سوچ ہے کہ بھارتی فوج کے پاس پرانے روسی ہتھیار ہیں اور جدید امریکی ہتھیار تا حال مکمل طور پر ملے بھی نہیں اور نہ ہی بھارتی فوج کی تربیت مکمل ہوئی ہے میری نظر میں یہ محض ’’خوش فہمی‘‘ ہے کیونکہ بھارت کبھی بھی ہتھیاروں کی خرید سے غافل نہیں رہا۔ Indian Defence Review کے تازہ شمارے میں جنرل مرینل ثمن نے بھارتی فوج میں ہتھیاروں کے موضوع پر لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ 1999ء کے کارگل ایشو کے بعد سے بھارت اوسطاً 3سے 6بلین ڈالرز کے ہتھیارسالانہ خریدتا رہا ہے اور یہ معمولی خرید نہیں ہے۔ اس خرید میں جدید ہتھیاروں کے علاوہ سپئیر پارٹس زیادہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت نے اپنی جنگی مشین کو زنگ آلود یا بیکارنہیں ہونے دیا۔
اگر بھارت کی جنگی خرید پر نظر ڈالی جائے تو بھارت نے ایک ’’سورس‘‘ کی بجائے ’’ملٹی سورسز‘‘ سے ہتھیار خرید کرہتھیاروں کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔ مثلاً پہلے واحد اور بڑی سورس روس تھی اور اب اسرائیل ، فرانس ، جرمنی ، انگلینڈ اور امریکہ بھی ہیں۔ پچھلے سال بھارت نے European Aeronatic Defence & Space Company کو 1.6 بلین ڈالرز ٹرانسپورٹ طیارے خریدنے کا آرڈر دیا تھا۔ اب فرانس کے صدر سرکوزی صاحب 8سے 12بلین ڈالرز کی سیل کیلئے کوشاں ہیں۔اسی طرح پچھلے سال اسی کمپنی سے 197ہیلی کاپٹر ز کی خرید کی تفصیلات طے ہوئیں۔ لیکن اب شاید امریکی دبائو کے تحت 10بلین ڈالرز کا آرڈر امریکہ کو دے دیا گیا ہے جس میں C-130J, F-18,F-16اور C-17 جیسے مختلف النوع طیارے اور دیگر جدید ہتھیارشامل ہیں ۔ اسی طرح کئی بلین ڈالرز کا ڈیل اسرائیل کیساتھ بھی ہے جہاں سے AWACS کے علاوہ ہرقسم کے جدید اور Sophisticatedہتھیار مسلسل مل رہے ہیں بلکہ بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کا دنیا میں دوسرا بڑا خریدار ہے۔حال ہی میں روس سے بھی مزید 4بلین ڈالرز کا معاہد ہ ہوا ہے۔T-72ٹینکس کو بھی اوور ہال کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ 15فروری 2010ء کو بھارت نے اپنے ہاں Defence Expo 2010 نمائش کا بندوبست کیا جس میں مختلف ممالک کی 35بڑی کمپنیوں نے حصہ لیا۔ ایسی نمائشیں بے مقصد نہیں ہو ا کرتیں۔ بھارت نے اپنا ڈیفنس بجٹ تقریباً 30بلین ڈالرز تک بڑھا دیا ہے۔ مختلف بھارتی میڈیا رپورٹس کیمطابق بھارت آئندہ دس سالوں میں 100بلین ڈالرز کا دفاعی سازو سامان خریدنے کیلئے کوشاں ہے۔
بھارت نے کامیابی سے پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان میں سول وار جیسی صورتحال پیدا کر دی ہے اور اب ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مخالف طالبان کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ایک کھرب روپے سالانہ دینے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے ، دہشت گردی بڑھانے ، فوجی ٹارگٹس اور بے گناہ عوام پر حملے کرنے جیسے اہم ٹارگٹس ’’را‘‘ کو سونپ دئیے گئے ہیں۔
لیکن چونکہ بھارت ایک مکار دشمن ہے ہماری موجودہ اندرونی مشکلات سے ضرور فائدہ اُٹھانے کی بشمول جنگ ہر ممکن کوشش کریگا لہٰذا فرمانِ الٰہی کیمطابق ہمیں جنگ کیلئے گھوڑے تیار رکھنے ہونگے۔

سکندر خان بلوچ
(بشكریہ نواۓ وقت)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں