ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک اور محمد بن قاسم کی منتظر

ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک اور محمد بن قاسم کی منتظر
release_siddiqui_pakistanامریکی عدالتی نظام دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہے کیونکہ امریکہ میں جیوری کے لئے عام شہریوں کو چنا جاتا ہے جو ایک ملزم کو مجرم یا بے گناہ قرار دیتے ہیں اور جج کا کام قانون کے مطابق مجرم کو سزا دینا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا کیس نیویارک میں ٹوئن ٹاورز کے قریبی واقع مین ہٹن کی ایک عدالت میں چلایا گیا اور جن 12 افراد کو جیوری کے لئے چنا گیا ان کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا اور یہ لوگ 9/11 کے واقعہ سے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوئے تھے۔ اس ٹرائل کے دوران امریکی میڈیا عافیہ صدیقی کو تسلسل کے ساتھ ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کرتا رہا۔ اس مخالفانہ پروپیگنڈے سے جیوری کے یہ افراد متاثر لگتے تھے جس کا ثبوت جیوری کے دو ارکان کے وہ ریمارکس ہیں جو انہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو مخاطب کرتے ہوئے طنزیہ کہے کہ ”آج تمہارا خدا کہاں ہے؟“ امریکی عدالت کے اس فیصلے کے حوالے سے جب میں نے سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی سے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ” ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کو امریکہ میں چلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ اس طرح کا واقعہ افغانستان میں پیش آیا ہے تو یہ مقدمہ افغانستان میں چلنا چاہئے تھا نہ کہ امریکہ میں۔

امریکی عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے بعد جب میں عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ جو مجھے ہمیشہ بیٹا کہہ کر پکارتی ہیں اور ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی سے ملنے ان کے گھر جارہا تھا تو میں انتہائی شرمندگی محسوس کررہا تھا کہ کس طرح اس دکھی خاندان کا سامنا کروں گا ۔ڈاکٹر عافیہ کی بگرام جیل میں امریکی کی قید میں بارے میں سب سے پہلے میں نے کالم ”قیدی نمبر 650 عافیہ صدیقی“ تحریر کیا جو قوم کی آواز بن گیا۔ اس کے بعد بھی میں نے قوم کی اس بیٹی پر کئی کالم تحریر کئے۔ مگر افسوس کہ ہماری یہ کاوشیں کارگر ثابت نہ ہوئیں اور ہم اپنی قوم کی بیٹی کو امریکی چنگل سے نہ چھڑا سکے۔ڈاکٹر عافیہ کی والدہ نے مجھے بتایا کہ جس وقت انہوں نے امریکی عدالت کا یہ فیصلہ سناتو ہم سب نے جائے نماز بچھا کر اللہ کے حضور دوگانہ نفل ادا کئے اور سجدے میں گرکر دعا کی کہ ”یا اللہ تو نے میری بیٹی کو امتحان کے لئے چنا ہے اور تو ہمیں اس آ زمائش میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرما۔“میری اس غمزدہ خاندان سے ملاقات میں، میں نے انہیں پختہ قوت ایمانی اوربلند حوصلے والا پایا اور انہوں نے کہا کہ امریکہ خواہ کتنے ہی میری بیٹی پر ظلم ڈھائے ہم اس سے رحم کی بھیک نہیں مانگیں گے۔
ایک بوڑھی اور مجبور ماں کو امریکی عدالت سے شاید انصاف کی توقع تھی اور کچھ دنوں قبل عافیہ کے کمرے کی دیواروں کو رنگ و روغن کرواکر اسے سجایا گیا کہ شاید ایک بوڑھی ماں اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیٹی کی صورت دیکھ سکے گی۔ اس خاندان نے بتایا کہ سیاستدانوں کے بیانات محض بیانات ہی ہوتے ہیں اور اگر حکومت سنجیدہ اور مخلص ہوتی تو عافیہ آج امریکی قید میں نہ ہوتی۔ عافیہ صدیقی کی فیملی کے مطابق جب امریکہ میں یہ فیصلہ سنایا گیا وہاں پر پاکستانی سفارتخانے کا کوئی اہلکار عدالت میں موجود نہ تھا جس سے ان کا اخلاص، ہمدردی اور سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ امریکی عدالت کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے بعد اس غمزدہ ماں نے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی سے ملاقات میں کہا کہ اگر میری بے گناہ بیٹی کی رہائی کے لئے حکومت کچھ نہیں کرسکتی اور میری بے گناہ بیٹی کو جیل بھیج دیا جاتا ہے تو مجھے بھی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور میں خود کشی کو ترجیح دوں گی تاکہ روز روز کے مرنے سے مجھے نجات مل جائے۔ عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے بھی وزیراعظم سے درخواست کی کہ اگر حکومت عافیہ کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تو اس خاندان پرایک احسان ضرور کرسکتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن تینوں مل کر ایک گڑھا کھودیں جس میں مجھے دفنا دیا جائے تاکہ ہمیں اس عذاب سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔ عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ ایک میری بہن امریکہ میں زندہ درگور ہے اور میں اپنے ملک میں زندہ درگور ہونا چاہتی ہوں۔ امریکہ کی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں یہ شکوہ کیا تھا کہ پاکستان کو اتنی مالی امداد دینے کے باوجود پاکستانی عوام میں امریکی مخالف جذبات کیوں پائے جاتے ہیں۔امریکہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ڈرون حملے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسے واقعات پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف روز بروز نفرت میں اضافہ کررہے ہیں۔ امریکی قید میں عافیہ صدیقی نے پوری قوم کو یکجا کردیا ہے اور وہ قوم کی آواز بن گئی ہے۔ اگر امریکہ ان مخالف جذبات میں کمی لانا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنا اور ڈرون حملے بند کرنا ہوں گے۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنی مصر میں کی گئی تاریخی تقریر میں مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے اس قول پر عمل کرکے دکھائیں۔ امریکی صدر کو کسی کی بھی سزا معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ آج وہ اپنا یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان بھیج کر پاکستانی قوم میں پائے جانے والے امریکہ مخالف جذبات میں کمی لاسکتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن شمالی کوریا آئے اور وہاں قید 3 امریکی صحافیوں کو رہا کراکر اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔ اسی طرح صدر مشرف کے دور حکومت میں ایک برطانوی شہری کو راوالپنڈی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور کال کوٹھری میں اپنی سزائے موت کا منتظر تھا۔ برطانوی حکومت کی درخواست پر صدر مشرف نے اس کی سزائے موت معاف کردی اور برطانیہ کے شہزادہ چارلس جب پاکستان تشریف لائے تو وہ اسے اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے۔ہمارے صدر اور وزیراعظم بھی امریکہ جاکر ڈاکٹر عافیہ کو صدارتی معافی دلاکر اپنے ساتھ وطن واپس لائیں۔سابق صدر مشرف نے ہی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کیا تھا۔وقت آگیا ہے کہ وہ امریکیوں سے اپنے تعلقات کی بناء پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن بنائیں اور اپنے گناہ کا کفارہ ادا کریں۔ بقول سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اگر کوئی ملک اپنے شہری کو کسی دوسرے ملک سے واپس لانا چاہے تو اس کے بہت سے طریقے ہیں ۔سینکڑوں سال قبل سندھ میں راجہ داہر کے دور حکومت میں بحری قذاقوں کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کی پکار پر حجاج بن یوسف غیرت اور غصے سے تلملا کر کہا ”لبیک میری بیٹی! ہم تمہیں ظالموں کے چنگل سے چھڑانے آرہے ہیں۔“ اور اس نے اپنے جواں سال سپہ سالار محمد بن قاسم کو ان مسلمان عورتوں کی رہائی کے لئے سندھ روانہ کیا۔ آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک اور محمد بن قاسم کی منتظر ہے۔

اشتیاق بیگ

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں