صبر، شکر اورتوبہ، جنت کا آسان راستہ (آخری قسط)

صبر، شکر اورتوبہ، جنت کا آسان راستہ (آخری قسط)
mofti-rafiتوبہ واستغفار ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں اور ہر وقت اس کی ضرورت ہے، نہ جانے کتنے گناہ ہم سے جان بوجھ کر اور کتنے ہی غفلت میں صادر ہوتے رہتے ہیں، بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا یا جنہیں ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے، ایسی تمام حالتوں میں جب بھی خیال آجائے، فوراً دل ہی دل میں نہایت ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجائیں اور زبان سے “استغفراللہ” کہیں، یااللہ! میں بہت نادم ہوں، مجھے معاف فرما دیجیے اور آئندہ بھی اس سے محفوظ رکھیے۔

یہ عمل ہے جس سے بندے پر اللہ تعالیٰ کے بے پایاں اور کامل رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، اس سے قلبی ندامت کے ساتھ ساتھ احساس عقیدت پیدا ہوتا ہے، ایمان کی حفاظت ہوتی ہے اور تقویٰ کی دولت نصیب ہوتی ہے، ایسے شخص سے جان بوجھ کر گناہ سرزد نہیں ہوتے یا بہت کم ہوجاتے ہیں اور ایسے شخص سے مخلوق خدا کو اذیت نہیں پہنچتی۔ اللہ جل شانہ نے محض اپنے فضل وکرم سے اپنے خطا کار بندوں کو دنیا کی فلاح اور آخرت کی نجات حاصل کرنے کے لیے توبہ واستغفار کا وسیلہ عطا فرما کر بہت عظیم احسان فرمایا ہے۔
بزرگوں نے فرمایاہے کہ اپنی گزشتہ عمر کے تمام گناہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، جس قدر بھی یاد آئیں، ان کا خیال کرکے اللہ تعالیٰ سے دوچار مرتبہ نہایت ندامت اور آہ و زاری کے ساتھ توبہ واستغفار کرلیں، بس اس قدر کافی ہے، انشاء اللہ سب گناہ معاف ہوجائیں گے، آئندہ پھر ہرگز یہ مشغلہ نہ رکھیں کہ بار بار ان کی یاد کرکے پریشان ہوں،بلکہ جب خود سے کوئی گناہ یاد آجائے تو آہستہ سے ایک بار استغفار کرلیں، مگر بندوں کے حقوق کو ہر حال میں جس صورت سے بھی ہوسکے ادا کرنا یا معاف کرانا فرض و واجب ہے۔
*استعاذہ: چوتھا عمل “استعاذہ” ہے۔ “استعاذہ” کے معنیٰ ہیں پناہ مانگنا، قرآن کریم کی تلاوت سے قبل ہم “اعوذباللہ من الشیطان الرجیم” پڑھتے ہیں، جس کے معنیٰ ہیں” میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، شیطان مردود سے۔” ہمارا یہ عمل بھی “استعاذہ” ہے، کیوں کہ اس کا حاصل یہی ہے کہ یااللہ، ہمیں شیطان کے شرسے اپنی پناہ میں لے لیجیے۔ تلاوت قرآن کریم سے پہلے “اعوذباللہ” پڑھنا ضروری ہے، خود قرآن کریم میں اس کاحکم دیا گیا ہے۔ ہر خطرے کے وقت “اعوذباللہ” پڑھیں۔
اس کے علاوہ دنیا کی زندگی ، طرح طرح کے حادثات اور سانحات کی زندگی ہے اور ہمیں ہر وقت نفس وشیطان سے سابقہ رہتا ہے، اس لیے ہمیشہ ان سب چیزوں سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ معاملات اور تعلقات میں کچھ خطرات ہوتے ہیں اور ان کے حل کی کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی ، نہ اپنے اختیار میں ہوتی ہے، ایسے وقت فطرتاً اپنے پروردگار سے پناہ مانگنے میں دل کو بڑی تقویت نصیب ہوتی ہے، لہذا اس کی عادت ڈالنی چاہیے کہ جب بھی کوئی ایسی صورت پیش آئے تو دل کی گہرائی سے “اعوذباللہ” کہہ لیا جائے ،انسان کو صبح سے شام تک مختلف قسم کے وسوسے اور اندیشے لاحق رہتے ہیں، پتا نہیں کل کیا ہوجائے؟ ملازمت نہ چلی جائے، کہیں عزت نہ خراب ہوجائے، چوری نہ ہوجائے، کوئی دشمن حملہ نہ کردے، تجارت میں خسارہ نہ ہوجائے، فلاں مرض یا موت لاحق نہ ہوجائے، کوئی حادثہ نہ ہوجائے، وغیرہ وغیرہ، کوئی بھی انسان اس قسم کے خطروں سے خالی نہیں، دنیا اور آخرت کے تمام خطروں سے بچنے کا راستہ یہ عظیم الشان عبادت استعاذہ ہے، جب بھی دل میں کوئی وسوسہ یا اندیشہ پیدا ہو، چپکے سے کہہ دیا “اعوذباللہ”  یا اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔ بلکہ اگر عربی کا یہ لفظ یاد نہ آئے تو اپنی زبان میں ہی یہ بات ہو اپنے اللہ سے کہہ لی جائے۔
جو شخص جتنا مال دار اور جتنا بڑا عہدے دار ہے، اس کے ارد گرد خطرے بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، جس کے پاس مال ہونہ شہرت، نہ عہدہ، اس کے خطرے بھی اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔
ایک چور کی بے بسی
ایک چور ایک گھر میں گھس گیا، پورے گھر میں چکر لگا کر بھی اسے کچھ نہ ملا کچھ تھا ہی نہیں، نہ برتن، نہ کپڑے، نہ کوئی اور ساز وسامان، کافی تلاش کے بعد اسے ایک آدمی نظر آیا جو برآمدے میں بڑے مزے سے سو رہاتھا، چور نے سوچا کچھ نہ کچھ تو ضرر لے کر جاؤں گا، کہیں بدشگونی نہ ہوجائے، غور سے دیکھنے پر اس سونے والے کے سرہانے آٹے کی ایک ڈھیری نظر آئی، چور نے اپنی چادر بچھائی، تاکہ آٹا اس میں سمیٹ لے ، ابھی آٹا اٹھانے پہ لگا تھاکہ سونے والے نے چور کی چادر پر کروٹ لے لی، اب تو چور کو لینے کے دینے پڑگئے، سونے والا خوب گہری نیند سورہا تھا، سردیوں کی ٹھنڈی راتیں تھیں، چور انتظار میں بیٹھ گیا کہ کب یہ کروٹ بدلے تو اپنی چادر اٹھاؤل، مگر وہ کروٹ لینے کا نام ہی نہ لیتا تھا، چور بے چارہ بیٹھے بیٹھے ٹھٹھرگیا، وہ اسی سوچ میں تھا کہ آٹا ملے نہ ملے، کم از کم اپنی چادر تولے کرجاؤں، اسی انتظار میں فجر کی اذانیں شروع ہوگئیں، اب چورنے سوچا کہ چلنا چاہیے، جب دروازے سے نکنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی “دروازہ بھیڑتے جانا!” چور جلابھنا تو تھا ہی کہنے لگا: رہنے دے، کوئی اوپر کی چادر بھی دے جائے گا۔
تو کوئی بھی شخص خطرے سے خالی نہیں، جو جتنا بڑا ہے اس کے خطرے بھی اتنے ہی زیادہ ہیں، اور جو جتنا چھوٹا ہے، اس کی عافیت بھی اتنی ہی زیادہ ہے، غرض ہر خطرے کے وقت “اعوذ باللہ” پڑھ لینی چاہیے کہ “یااللہ! میں آپ کی بناہ چاہتاہوں” کسی مقصد میں ناکامی کا اندیشہ ہو یا کسی مخالف اور حاسد کی ایذا رسانی سے جانی ومالی خطرہ لاحق ہو یا نفس وشیطان کی شرارت سے کسی ظاہری یا باطنی گناہ میں آلودہ ہوجانے کا یا امور آخرت میں مواخذے کا خدشہ ہویا کوئی ناپاک خواہش دل میں آجائے تو فوراً یا تو “اعوذباللہ” کہیں یا یہ دعا کہیں۔ “اللھم لا ملجا ولامنجا منک الا الیک” اے اللہ، آپ کے سوا نہ کوئی جائے پناہ ہے، نہ کوئی راہ نجات، پریشانی بھی آپ ہی کی بھیجی ہوئی ہے، اس سے بچانا بھی آپ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
ایک بزرگ نے لوگوں سے پوچھا: بتاؤ ایک زبردست نشانے باز ہے جس کا کوئی نشانہ خطا نہیں ہوتا، آسمان اس کی کمان ہے اور کائنات کی تمام مصیبتیں اور رنج والم اس کے تیر ہیں، بتاؤ اس سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ایسے نشانہ باز سے تو بچنا ممکن ہی نہیں۔ بزرگ نے فرمایا: راستہ صرف ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ تیر چلانے والے کے دامن سے چمٹ جاؤ، تو بھائیو! اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈ لو اور اسے تلاش کرلو، جہاں کوئی دھڑکا دل میں پیدا ہوا فوراً کہہ دیا: “الہی میں تیری پناہ مانگنا ہوں اور تیری حفاظت کا طلب گارہوں۔” وہ ایسا داتا ہے کہ صدق دل سے مانگنے والے کو کبھی رد نہیں کرتا، آپ اندازہ کریں کہ اندھیری رات میں موسلادھار بارش ہورہی ہو ایک تنہا بچہ بھاگ رہا ہو کہ مجھے پناہ دو، مجھے بچالو، کیا ایسے بے کس ومجبور کو آپ پناہ نہیں دیں گے؟ ظاہر ہے کہ اگر آپ جھونپڑی میں بھی ہوں گے تو اسے ضرور پناہ دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ تو رب الارباب “اور ارحم الراحمین ہے، جب اس کے بندے مصائب سے گھبرا کر اس سے پناہ مانگتے ہیں تو وہ ضرور حفاظت اور پناہ کے دروازے کھول دیتا ہے۔
“استعاذہ” وہ عمل ہے جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ربوبیت ورحمانیت کا مشاہدہ کرتاہے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت اور اطمینان وسکون عطا ہوتا ہے اور توکل کی دولت نصیب ہوتی ہے، ایسے لوگوں میں کسی کی ایذا رسانی کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا، لہذا اس عمل کو عادت بنالیا جائے کہ جب بھی کوئی خطرہ محسوس ہوتو دل کی گہرائی سے “اعوذباللہ” کہہ دیا، جب اللہ سے پناہ مانگوگے تو خود نظر آجائے گاکہ جوں جوں خطرات آگے بڑھ رہے ہیں، ویسے ہی رحمت خداوندی اس سے بچاؤکے عجیب وغریب راستے کھول رہی ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ مندرجہ ذیل اعمال ہیں: شکر، صبر، توبہ واستغفار اور استعاذہ. ان کی پابندی کرلیں اور عادت ڈال لیں تو انشاء اللہ رفتہ رفتہ پوری زندگی دین کے مطابق ہوتی چلی جائے گی، دین و دنیا بھی محفوظ رہیں گے اور گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے رغبت پیدا ہوگی، اللہ کا قرب بڑھتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق محسوس ہونے لگے گا۔
انسان کی زندگی میں کل تیں زمانے آتے ہیں: ماضی، حال ومستقبل۔ استغفار کے ذریعے ماضی محفوظ ہوا، شکر اور صبر سے حال محفوظ ہوا اور توبہ واستعاذہ سے مستقبل محفوظ ہوگیا، جب تینوں زمانے محفوظ ہوگئے تو پوری زندگی محفوظ ہوگئی، ان چاروں اعمال کی جو شخص عادت ڈال لے گا، وہ انشاء اللہ ہر وقت اللہ کی مدد ونصرت کو محسوس کرے گا۔ انشاء اللہ اس کی پابندی کرنے سے کتنے ہی بے شمار گناہوں اور حادثات ومصائب سے حفاظت ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اعمال کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں