نعروں کا وقت گزر چکاہے، اب عمل کرنے کا وقت ہے، مولانا عبدالحمید

نعروں کا وقت گزر چکاہے، اب عمل کرنے کا وقت ہے، مولانا عبدالحمید
molana28خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اس جمعہ کے خطبے میں جامع مسجد مکی زاہدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد اور حکومت کی جانب سے اعلان شدہ “ہفتہ اتحاد” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اسلام تلوار کے زور پر دنیا میں نہیں پھیلا بلکہ اخلاق اور اچھے کردار کے ذریعہ عالمگیر ہوا۔ جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عرب قبائل آپس کی لڑائیوں میں مصروف تھے، یہ قبائل سخت تعصب وجہالت کا شکار تھے۔ وقت کی طاقتیں ایران اور روم بھی دست وگریبان تھیں۔ ان لڑائیوں میں ہزاروں لوگ قتل وقید ہوجاتے تھے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے متحارب قبائل کو جو صدیوں سے ایک دوسرے سے لڑتے تھے متحد کرکے بغض وعداوت اور نفرت کا خاتمہ کردیا، دنیا میں امن وامان اور لوگوں کا سکون بحال ہوا۔ ایران، افریقا اور روم مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ مختلف زبانوں اور کلچرز کے لوگ دوستی ومحبت کے ساتھ اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہوئے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی خوش اسلوبی اور بے مثال تدبیر وفراخدلی کی بدولت سب کو اسلامی تہذیب وتمدن کے دائرے میں لائے تھے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رسم ورواج، تہذیب وزبان اور رہن سہن کے انداز کو ختم نہیں کیا بلکہ ان کی اصلاح فرمائی۔ کسی کو یہ نہیں کہا گیا کہ عربی زبان میں بات کیا کرو یا عربی کپڑے پہن لیاکرو۔ دیگر مذاہب وادیان کے ماننے والوں کو “ذمی” قرار دیکر ان کی جان ومال کو محفوظ بنایا گیا۔ ان کو پوری آزادی دی گئی کہ جس طرح چاہو خدا کی عبادت کرو۔ یہاں تک کہ شراب جیسی حرام چیزیں ان کے لیے مباح قرار دی گئیں۔ اسلام کی نظر میں سب برابر تھے اور ہر کسی کو عہدہ مل سکتاتھا۔
عہدے ذمہ داریاں اور صلاحیت کی بنیاد پر ملتی تھیں۔ یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تم مہاجر ہو یا انصار، قریشی ہو یا غیر قریشی۔ قرآن نے ساری قومیتوں اور تہذیبوں کو برابر کے حقوق دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا تمام مسلمان فرقوں کو اتحاد واتفاق، ہمدلی اور دوستی کے ساتھ رہنا چاہیے، خوشی اور غم کے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں۔
ایران ایک کثیر القومی ملک ہے جس میں مختلف مذاہب ومسالک کے لوگ آباد ہیں۔ یہ ملک اس وقت کامیاب وسربلند ہوگا جب عوام مفاہمت اور اتحاد کے ساتھ زندگی گزار دیں۔ حکام اور عوام کو وسعت ظرفی، فکری بلوغت اور صحیح ادراک کا مظاہرہ کرکے دوسروں کی مقدسات کی گستاخی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا ہماری اسلامی ریاست میں نبی کریم (ص) کے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی نہیں ہونی چاہیے جو عالم اسلام کے روشن ستارے ہیں۔ حضرات طلحہ وزبیر، عایشہ وعثمان اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سابقین اولین میں سے ہیں جنہوں نے سختیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور یہ سب حق کے معیار ہیں۔ صحابہ کرام کے مشاجرات واختلافات اجتہاد پر مبنی تھے۔ جو صحیح تھا اسے دو اجر ملے جس سے خطا سرزد ہوئی اسے ایک اجر ملا۔
صحابہ کرام کی لڑائیاں قبضہ گیری وکشور گشائی اور نفس کی خواہشات کی تسکین کے لیے نہیں تھیں۔ ان کا مقصد رضائے الہی تھا اور ہم ان عظیم ہستیوں پر طعن وتشنیع اور اعتراض کرنے کے ہرگز اہل نہیں ہیں۔
ایرانی اہل سنت کے عظیم رہ نما نے زور دیتے ہوئے کہا میں سرکاری میڈیا ودیگرملکی ذرائع ابلاغ کو وارننگ دیتاہوں کہ اپنے مخالف فرقوں کے عقائد اور مقدسات کی گستاخی سے بازآئیں اور مذہبی تحقیر سے اجتناب کریں۔
بعض اوقات تعلیمی اداروں، اسکولوں اور کالجوں میں ایسی کتابیں تقسیم کی جاتی ہیں جو مسلک اہل سنت والجماعت کیخلاف زہرآلود مواد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ انتہا پسند عناصر سنی اکثریت شہروں میں گستاخانہ مضامین پر مشتمل کتابیں عوام الناس کو مفت میں فراہم کرتے ہیں۔ ایسی کتابوں کی اشاعت بند ہونی چاہیے۔ علمی مراکز اور متعلقہ وزارتخانوں کو بطور خاص چوکس رہنا چاہیے۔ ایسی کتابوں کی اشاعت کا راستہ بند کرنا چاہیے جو کسی مذہب ومسلک کے عقائد کو نشانہ بناتی ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام نے کہا ایک دوسرا نکتہ جو انتہائی اہم ہے اور حکام وسپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اختیار میں ہے وہ اہل سنت والجماعت کی مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے جو انہیں ملنی چاہیے۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی اور بدامنی کے واقعات میں ملوث پایا گیا تو اسے قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔ لیکن جب سرگرمیاں قانون کے دائرے میں ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہمارا پیچھا کردے اور ہمیں ہراسان کرنے کی کوشش کرے۔ ملکی آئین نے تعلیم و تربیت اور تبلیغ کی آزادی پر زور دیا ہے، اس حوالے سے ہمیں قانونی تحفظ اور آئینی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے انتہا پسند اور تنگ نظر عناصر کو حکومت میں اثر و رسوخ حاصل نہیں ہونا چاہیے جو مختلف حکومتی اداروں اور حکام پر اہل سنت کی آزادی سلب کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا مساجد اللہ کے گھر ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ سنیوں کی بعض بستیوں میں ایک شخص شیعہ ہے اور اس کے لیے مسجد بنائی گئی ہے۔ مساجد کی تعمیر میں ہم بھی حصہ ڈالتے ہیں لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ مسجد تعمیر کرنے کے حوالے سے ہم پر پابندیاں نہ لگائی جائیں۔
دارالحکومت تہران میں اگر اہل سنت کی کوئی مسجد ہو تو یہ حکومت اور شیعیوں کیلیے باعث فخر ہوگا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا اہل سنت والجماعت کی تمنا ہے کہ اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور خود مختاری کا دفاع کرے اور اپنے شیعہ بھائیوں کے شانہ بہ شانہ لڑتے ہوئے مرجائیں۔ اس لیے کار حکومت ومملکت میں انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اہل سنت کے مسائل اور ان پر عائد پابندیوں کے حل کیلیے بذات خود اقدامات اٹھائیں اور 31 سال سے اہل سنت برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ کریں۔ ہم بھائی چارے اور برادری کے سفر کو جاری رکھنے پر عزم کرچکے ہیں اور یہ ہماری اسلامی و اعتقادی ذمہ داری ہے، عارضی پالیسی نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا ہفتہ اتحاد میں منعقد ہونے والے سیمینارز کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اصل عمل ہے۔ نعرہ لگانے کا وقت گزر چکاہے اب نعروں کو جامہ عمل پہنانے کا وقت ہے۔ شدت پسند عناصر کی باتوں اور القاء ات پر توجہ نہیں دینی چاہیے جو سنیوں کو آگے بڑھنے دینے کیخلاف ہیں۔ ایسے لوگ اسلام اور وطن عزیز کے خیرخواہ نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا اگر چہ ہماری قوت محدود ہے پھر بھی ہم نے کسی سنی کو اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اہل تشیع کے عقائد پر حملہ کرے۔ ہم کسی بھی دین ومذہب کی گستاخی وتوہین کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہربات استدلال اور منطق کے دائرے میں کہنی چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام نے آخر میں کہا میں نے اپنے غیرملکی دوروں اور اسفار کے دوران دیگر اسلامی ممالک میں شیعہ اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا ہے کہ ان کا حق پامال نہ ہو۔ حکام بالا سے میری درخواست ہے کہ ملازمتوں کی درخواست کرنے والوں کے لیے بنائے گئے فارمز سے شیعہ سنی کی تفریق کے خانوں کو مٹادیں۔ ان فارمز سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔ اسلام نے دوستی اور بھائی چارے پر زور دیا ہے۔ ہمیں اسی راستے پر چلنا چاہیے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں