ناروے میں توہین رسالت پر مبنی خاکوں کی دوبارہ اشاعت

ناروے میں توہین رسالت پر مبنی خاکوں کی دوبارہ اشاعت
norvej-tazahoratاوسلو ۔ (العربیہ) ناروے کے ایک اخبار کی جانب سے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدترین گستاخی کے خلاف ہزاروں افراد نے زبردست احتجاج کیا۔

تفصیلات کے مطابق روزنامہ ڈگبلادت نے صفحہ اول پر تین فروری کو ایک رپورٹ شائع کی کہ کس طرح حضور اکرم کے خاکوں پر مشتمل صفحات کو ناروے پولیس سیکیورٹی سروس کے فیس بک کے صفحہ سے مربوط کر دیا گیا ہے اور اسے پولیس سیکیورٹی نے ہٹا دیا ہے۔ اس خبر ے ساتھ اخبار میں ایک خاکہ بھی شائع کیا گیا۔ وسطی اوسلو میں مسلمانوں نے اس خبر کی اشاعت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ اپنے ہاتھوں احتجاجی بنیر اٹھائے ہوئے تھے، جن پر تمام مذاہب کا احترام کرنے اور مسلمانوں کی توہین بند کرنے سے متعلق نعرے درج تھے۔
اکتیس سالہ ٹیکسی ڈرائیور کاشف اورنگزیب نے بتایا کہ میں یہاں اس وجہ سے آیا ہوں کہ اخبار نے ہمارے خلاف بدترین کام کیا ہے۔ یہ مسلمانوں پر بہت بڑا حملہ ہے اور یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے۔ مظاہرے میں شریک ایک اور نوجوان کامران نوید کا کہنا تھا کہ ہمارے مذہب کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ اس مظاہرہ میں تین ہزار افراد نے حصہ لیا۔ ناورے کی اصل مسلم تنظیم اس خوف کی وجہ سے اس مظاہرے میں شامل نہیں ہوئی کہیں یہ پرتشدد نہ ہو جائے۔ ڈگبلادت نامی اخبار نے ان خاکوں میں سے جو خاکے شامل کیا ہے وہ 1990ء کی دہائی میں ایک اسرائیلی اخبار نے بنایا تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر انچیف نے کہا کہ صرف کہانی سے مطابقت کی وجہ سے خاکہ شائع کیا گیا جو تنقید کرنا چاہتے ہیں وہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ان کا حق ہے۔ لیکن ہم نے اشتعال دلانے کے لئے ایسا نہیں کیا ہے۔
آٹھ اخبارات کے مدیران نے اخبار ڈگبلادت کی اس گستاخی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے تاہم کئی ایک اخبارات کے مدیران نے اس اخبار کو صحافتی آزادی کا نام دیا ہے۔
یاد رہے کہ ناروے ان ممالک میں اسے ایک ہے جہاں 2005ء اور 2006ء میں توہین رسالت پر مبنی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی تھی، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا اور ناروے کے ایک عیسائی اخبار نے حضرت محمد صلی اللہ وسلم کے بارہ خاک شائع کئے جو ستمبر 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہو چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد دمشق میں ناورے کے سفارتخانوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں