لاہور میں غازی علم دین کی شہادت کے حوالے سے ایک ہندو کی مذموم حرکت اور حرمت رسول کے خلاف زہر افشانی کی ایک شرمناک داستان ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور اس کا بدلہ چکانے والے علم دین شہید کی قربانی کو قوم قیامت تک فراموش نہیں کر سکتی۔ مغربی حلقوں کا اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف یہ رویہ اور طرزِ عمل صرف میڈیا اور بعض دانشوروں تک ہی محدود نہیں بلکہ حکومتیں بھی اس حرکت کے مرتکب افراد کی نہ صرف پوری حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ خود بھی اس جرم میں ان کا ملوث ہونا کوئی راز کی بات نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے رشدی ملعون کو اعزاز سے نوازا اور ایوارڈز تقسیم کرنے کی سرکاری دعوت میں اسے مدعو کیا گیا۔ اگر برطانوی حکمران اس ملعون کے خلاف صرف برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو ہی پیش نظر رکھتے تو اسے اپنی سرزمین پر قیام کی نہ صرف اجازت نہ دیتے بلکہ اسے اعزاز سے نواز کر پوری امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح نہ کرتے۔ ادھر بھارت نے بھی بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کو اپنے یہاں قیام کی اجازت دے کر اسلام دشمنی کاثبوت دیاہے۔بہرحال ڈنمارک اور ناروے میں توہین آمیز خاکوں کی ازسرِ نو اشاعت پر پاکستان کے عوام بالخصوص مذہبی حلقوں میں جو ردعمل سامنے آیا وہ پوری امت مسلمہ کے لئے ایک مثال اور رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہی نہیں باعث تشویش بھی ہے کہ پاکستان کی طرح کسی دوسرے مسلمان ملک میں اتنا شدید ردعمل تو کیا معمولی ردعمل بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
حکومت پاکستان نے عوامی ردعمل اور دباؤ کو دیکھتے ہوئے ہی پارلیمنٹ میں ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف ایک قرارداد پیش کی لیکن مذہبی و سیاسی حلقوں کی طرف سے ان خاکوں کی اشاعت پر دونوں متعلقہ ملکوں کے خلاف جن اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان کی پذیرائی کے حوالے سے حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس کی پذیرائی کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ حرمت رسول کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے اور اس کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا یہ جذبہ ہی مسلمانوں میں شوقِ شہادت کو تقویت دیتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت کوئی قوت کوئی دولت اور تحریص مسلمانوں کے اس جذبے کو ماند نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ اس مذموم حرکت اور دل آزاری پر مہر بلب رہ سکتے ہیں۔
وہ مغربی حلقے اور ممالک جو اس حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ دراصل پیشہ صحافت اور آزادی اظہار خیال کی آڑ میں بدترین دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ ان کی ان حرکات سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ان کی یہ سازش صرف اسلام اور مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ پوری انسانیت کے خلاف ایک ایسا مذموم اقدام ہے جو عالمی امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے کیونکہ اس کے خلاف ہونے والا ردعمل پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس حرکت پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی نے دو مغربی ملکوں کے اخبارات کو دوبارہ ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا حوصلہ بخشا۔ آج تک اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے بھی اس کے خلاف کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
مغربی میڈیا پر صیہونی قوتوں کا مکمل کنٹرول ہے اور ان کی اسلام اور مسلم دشمنی کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ یہ قوتیں عمداً مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی حرکات کی مرتکب ہو رہی ہیں اور وہ اسلام کو غلط رنگ میں پیش کر کے عالمی برادری کو اسلام دشمن قوتوں میں بدلنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے دینی حلقوں اور ممتاز علمائے کرام کا یہ مطالبہ حکومت کی خصوصی توجہ چاہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کے مرتکب افراد کو سزائے موت دینے کا قانون وضع کیا جائے اور توہین آمیز خاکوں کے خلاف اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بلاتاخیر طلب کیا جائے کیونکہ پاکستان اور اسلام کے خلاف دہشت گردی کی الزام تراشی کرنے والے مغربی ملک خودبدترین دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان خاکوں کی اشاعت بلاشبہ پوری امت مسلمہ کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے اور سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں کی تعمیر پر پابندی اور ناروے اور ڈنمارک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکوں کی از سرِ نو اشاعت پر امت مسلمہ کی خاموشی مسلمان حکمرانوں کی بے حسی پر دلالت کرتی ہے جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔
اس حوالے سے کراچی میں تمام مکاتب ِ فکر کے علماء کے کنونشن میں پاس ہونے والی قراردادیں اور کنونشن سے علماء کا خطاب پاکستان کے 17 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اسے نظر انداز کرنا بڑی حماقت ہو گی اس لئے کہ دنیا کی مقدس ترین ہستی کی ذات پر حملہ بدترین دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ دراصل ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف امت مسلمہ اور مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کے بعد ہی سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں کی تعمیر اور بعض یورپی ممالک میں مساجد کی تعمیر پر پابندی کے اقدامات سامنے آنے لگے ہیں کیونکہ ان ملکوں نے ڈنمارک اور ناروے کے اخبارات کی حرکت پر امت مسلمہ کی اجتماعی خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھ لیا ہے اور ابھی ان کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مزید اقدامات بھی غیر متوقع نہیں۔ اگر بین الاقوامی قانون کے تحت ایک عام آدمی کی توہین بھی قابل گرفت اور قابل مواخذہ ہے تو پھر خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کو نظر انداز کرنے کا کیا جواز ہے۔ اس کے مرتکب افراد کو تو موت سے زیادہ سنگین سزا بھی مسلمانوں کو مطمئن نہیں کر سکتی۔اسے اظہار خیال اور مذہبی آزادی کا نام دینا انسانیت کی بدترین دشمنی قرار پاتی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)
آپ کی رائے