
جس کے نتیجے میں لیاقت علی کو ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔
اس کے بعد لیاقت علی نے اس فیصلے کو راجستھان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا لیکن وہاں سے بھی ان کے حق میں فیصلہ نہیں ہو سکا بلکہ راجستھان سول سروس رول سنہ 1971کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے انہیں کوئی راحت دینے سے انکار کر دیا ۔ جس کے نتیجے مےں انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ جانا پڑا ۔ اس پورے معاملے میں 23برس صرف ہو گئے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے کہاہے کہ کوئی مسلمان سرکاری ملازم بھی دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس صورتحال میں اس پر مسلم پرسنل لاء کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ لیاقت علی کے وکیل نے تمام عدالتوں میں اس بات کا حوالہ دیا کہ شریعت مسلمان مرد کو 4 شادیاں کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن عدالتوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس طرح کے معاملات میں شرعی قانون نافذ نہےں ہوتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے مسلمانوں اور شرعی قوانین کے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیاہے اوران کے اندر ایک اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی اس پر کچھ بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ البتہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدرنشیں مولانا رابع حسنی ندوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عائلی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جانے سے گریز کرنا چاہئے۔ عام طور پر مسلمان یہ سوچ کر اپنے شرعی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جاتے ہیں کہ وہاں ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن ایسا کر کے وہ شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جب کہ ا س کے لئے ان کی شرعی عدالتیں موجود ہیں تو عائلی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر مسلمان عملے اپنے معاملات ملک کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں تو وہ شریعت میں مداخلت کے لئے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ایسی صورت میں تو عدالتیں اپنے قوانین کے مطابق ہی فیصلہ دیں گی۔ جن پر اعتراض کرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے مسلمانوں اور شرعی قوانین کے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیاہے اوران کے اندر ایک اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی اس پر کچھ بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ البتہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدرنشیں مولانا رابع حسنی ندوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے عائلی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جانے سے گریز کرنا چاہئے۔ عام طور پر مسلمان یہ سوچ کر اپنے شرعی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جاتے ہیں کہ وہاں ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن ایسا کر کے وہ شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جب کہ ا س کے لئے ان کی شرعی عدالتیں موجود ہیں تو عائلی معاملات قانونی عدالتوں میں لے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر مسلمان عملے اپنے معاملات ملک کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں تو وہ شریعت میں مداخلت کے لئے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ایسی صورت میں تو عدالتیں اپنے قوانین کے مطابق ہی فیصلہ دیں گی۔ جن پر اعتراض کرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے۔
آپ کی رائے