انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کی رائے میں اس منصوبے سے متعلق ایسے معاملات موجود ہیں کہ جن پر تفصیلی بات ہونا چاہئے اور ان کے بارے میں مطالعاتی رپورٹس تیار ہونی چاہیں، خواہ اس مقصد کے لئے بعد میں الگ سے ورکشاپ منعقد کرنا پڑیں۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے متعدد قانونی پہلووں پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ان معاملات پر دوٹوک فیصلہ کئے بغیر کام آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اس لئے یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ فلم پر کام دو برس کی مدت میں ہی مکمل ہو سکے گا۔ اس ضمن میں باقی تفصیلات وہی ہیں کہ جن کا بیان انتظامیہ اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کر چکی ہیں۔
فلم کی تیاری سے متعلق سوال کے جواب میں قانونی و شرعی مشیر کا کہنا تھا کہ فلم کا پروڈیوسر اگرچہ امریکی ہے مگر یاد رہے کہ وہ صرف پروڈکشن ہی کریں گے۔ اس منصوبے کے لئے تمام تر سرمایہ قطری کمپنی “النور” ہی فراہم کرے گی کیونکہ یہ منصوبہ اس کا اپنا منصوبہ ہے۔
شرعی کمیٹی فلم کی نگران
علامہ کساب کے مطابق فلم کے منصوبے سے متعلق ورکشاپ کا آغاز دوحہ میں بدھ بمطابق 3 فروری 2010ء کو ہوا، جس میں صدر بین الاقوامی علماء لیگ علامہ یوسف القرضاوی، شیخ ڈاکٹر سلمان العودۃ، ڈاکٹر طارق السویدان اور متعدد دوسرے نامور اسلامی اسکالرز، دانشور اور ماہرین ذرائع ابلاغ نے شرکت کی۔ ورکشاپ میں انہوں نے فلم کے بینادی پیغام اور متوقع نتائج کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ورکشاپ میں اس بات پر غور کیا گیا کہ فلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اور افعال کو کیسے پیش کیا جائے گا۔
نیز فلم میں نبی آخر الزمان کو نور، سایہ یا کسی دوسرے انداز میں پیش کیا جائے۔ فلم تیار کرنے والی کمپنی نے ورکشاپ میں شریک علماء کرام سے اس ضمن میں خصوصی رہنمائی چاہی کہ حضور کے صحابہ کو فلم میں کیسے پیش کیا جائے۔ اس ضمن میں کن قواعد و ضوابط کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ خاص طور پر خلفائے راشدین، جنت کی بشارت پانے والے عشرۃ مبشرۃ، نبی کریم کی صاحبزادیاں، امھات المومنین، آل بیت کے دوسرے ارکان، صحابیات اور بالخصوص قبل از اسلام کے واقعات کیسے فلم بند کئے جائیں۔
فیصلہ کن دینی ضرورت: نیوز کانفرنس میں موجود علامہ یوسف قرضاوی کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ دراصل مغرب کو اسلام کے آخری نبی کی شخصیت کے بارے میں مستند و حقیقی معلومات بہم پہچنانے کا ذریعہ بنے گا، جو اس وقت تک دنیا کی اس معتبر شخصیت کے بارے میں لاعلمی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو معلوم ہی نہیں کہ حضور کو جنگ سے کتنی نفرت تھی وہ امن کے داعی تھے۔ جنگ سے ان کی نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لئے وہ دوسرے مترادفات استعمال کیا کرتے تھے۔ “دنیا میں لاکھوں لوگ ہمارے نبی کے عالمی پیغام کے بارے میں جانے بغیر اس دنیا سے کوچ کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی خامی ہے۔”
امریکی اسکرپٹ رائٹر رمزی تھامس کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ مسلمان نہیں تاہم یہ امر فلم کی اسکرپٹ رائٹنگ کی راہ میں مانع نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی مذہب قابل قدر ہے، اسی وجہ سے میں اس منصوبے کا اسکرپٹ لکھنا چاہتا ہوں۔ “رسول اسلام” پیش آئند فلم ہالی وڈ میں اپنی نوعیت کا دوسرا تجربہ ہو گی۔ اس سے قبل شام کے ایک پروڈیوسر مصطفی العقاد سنہ 1970ء میں “الرسالۃ” کے عنوان سے سیرت طیبہ پر فلم بنا چکے ہیں۔
آپ کی رائے