
ایران میں سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے راہ حل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس نظام حکومت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے از حد ضروری ہے کہ ایک قومی اور مشترکہ حکومت بنائی جائے جس میں ایران کی ساری قومیتوں اور مذاہب ومکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو فراخدلی سے شامل اقتدارکیا جائے۔
یہ نظام حکومت صرف قدامت پسندوں یا اصلاح پسندوں کے قبضہ میں رہ کر قائم نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ ایران میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ ان سب کو اقتدار کا حصہ بناکر نظام کو بچایا جاسکتاہے۔ اقتدار ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری میں ہو تو انقلابی نظام کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا ملک میں بھی بہت ساری پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات اور احتجاجی مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کے مطالبات کا کوئی سننے والا نہیں ہے۔ عوام کی شکایات کو دور کرکے ان بات سنی جائے اور جن پالیسیوں سے یہ بحران جنم لے رہے ہیں انہیں ترمیم کیا جائے۔
ایران میں بڑھتے ہوئے پھانسی کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کثرت سے رونماہونے والے پھانسی کے واقعات پرلوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا شماران ملکوں میں ہوتاہے جہاں سب سے زیادہ پھانسی کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ خاص طورپر صوبہ سیستان وبلوچستان میں دیگرصوبوں کی بہ نسبت زیادہ لوگوں کوتختہ دارپرلٹکایاجاتاہے۔ معاشرے کے مسائل کاحل پھانسی نہیں ہے۔اس سے مسائل میں اضافہ ہوگاکمی نہیں.پھانسی دیکر یکجہتی، ہمدلی اور امن وامان میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
خطیب اہل سنت نے کہا ایک دوسرا مسئلہ جو لوگوں کے لیے باعث تشویش ہے وہ تشدد اور ایذا رسانی کے زور پرملزمان سے اعتراف لینے کا مذموم عمل ہے۔ یہ حرکت اسلام اور ملکی آئین دونوں کی خلاف ورزی ہے۔مولانا عبدالحمید نے عوام کے معاشی مسائل اور پاک ایران بارڈر کی بندش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا صوبہ بلوچستان میں کاشتاری، جانوروں کو پالنے اور صنعتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگوں کا انحصار کاروبار پر ہے جو مشترکہ بارڈر کے ذریعہ ہوتاہے۔ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں گئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری کی شرح خطرناک حدتک بڑھ چکی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ روٹی خرید نے سے بھی عاجز ہیں۔ جتنا غربت کی شرح میں اضافہ ہو اتناہی بدامنی اور فساد معاشرے میں عام ہوجاتاہے۔ حکام کو چاہیے عقلمندی کا مظاہرہ کر کے بارڈر کھول دیں تاکہ لوگ بآسانی زندگی گزار سکیں۔
یہ نظام حکومت صرف قدامت پسندوں یا اصلاح پسندوں کے قبضہ میں رہ کر قائم نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ ایران میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ ان سب کو اقتدار کا حصہ بناکر نظام کو بچایا جاسکتاہے۔ اقتدار ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری میں ہو تو انقلابی نظام کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا ملک میں بھی بہت ساری پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات اور احتجاجی مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کے مطالبات کا کوئی سننے والا نہیں ہے۔ عوام کی شکایات کو دور کرکے ان بات سنی جائے اور جن پالیسیوں سے یہ بحران جنم لے رہے ہیں انہیں ترمیم کیا جائے۔
ایران میں بڑھتے ہوئے پھانسی کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کثرت سے رونماہونے والے پھانسی کے واقعات پرلوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا شماران ملکوں میں ہوتاہے جہاں سب سے زیادہ پھانسی کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ خاص طورپر صوبہ سیستان وبلوچستان میں دیگرصوبوں کی بہ نسبت زیادہ لوگوں کوتختہ دارپرلٹکایاجاتاہے۔ معاشرے کے مسائل کاحل پھانسی نہیں ہے۔اس سے مسائل میں اضافہ ہوگاکمی نہیں.پھانسی دیکر یکجہتی، ہمدلی اور امن وامان میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
خطیب اہل سنت نے کہا ایک دوسرا مسئلہ جو لوگوں کے لیے باعث تشویش ہے وہ تشدد اور ایذا رسانی کے زور پرملزمان سے اعتراف لینے کا مذموم عمل ہے۔ یہ حرکت اسلام اور ملکی آئین دونوں کی خلاف ورزی ہے۔مولانا عبدالحمید نے عوام کے معاشی مسائل اور پاک ایران بارڈر کی بندش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا صوبہ بلوچستان میں کاشتاری، جانوروں کو پالنے اور صنعتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگوں کا انحصار کاروبار پر ہے جو مشترکہ بارڈر کے ذریعہ ہوتاہے۔ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں گئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری کی شرح خطرناک حدتک بڑھ چکی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ روٹی خرید نے سے بھی عاجز ہیں۔ جتنا غربت کی شرح میں اضافہ ہو اتناہی بدامنی اور فساد معاشرے میں عام ہوجاتاہے۔ حکام کو چاہیے عقلمندی کا مظاہرہ کر کے بارڈر کھول دیں تاکہ لوگ بآسانی زندگی گزار سکیں۔
آپ کی رائے