امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ بلیک واٹر کے پانچ ملازمین کی قتل کے مقدمے میں بریت سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
انہوں نے یہ بات عراق کے دارالحکومت بغداد میں کہاں وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل امیدواروں کی انتخابی نااہلیت سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو حل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔
امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ بات سکیورٹی گارڈ امریکی سکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کے ملازمین تھے اور ان کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار سات میں سترہ عراقی شہریوں کو قتل کیا ہے۔
تاہم امریکی عدالت کے ایک جج نے بلیک واٹر کے ملازمین کے خلاف مقدمہ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ استغاثہ نے ان کے خلاف شہادتوں کا غلط استعمال کیا تھا۔
امریکی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عراق میں زبردست ردِ عمل سامنے آیا جہاں حکومت ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں سے ملک کے بلیک واٹر کے خلاف ہرجانے کے مقدمے دائر کرنے والی ہے۔
عراق میں رواں سال مارچ میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں لیکن انتخابات سے قبل ہی سابق صدر صدام حسین کی غیر قانونی قرار دی جانے والی بعث پارٹی سے تعلق کے شبہ میں پانچ سو امیدواروں کو انتخاب کے لیے نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
نائب امریکی صدر نے بغداد میں ناشتہ کی میز پر عراق میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے خصوصی نمائندے کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں عراقی صدر ، وزیراعظم اور نمایاں سیاست دان شریک تھے۔
بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار جم موئیر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ میں یہ پریشانی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ مارچ میں ہونے والے عام انتخابات بد نامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ جم موئیر کے مطابق ہو سکتا ہے کہ امریکی نائب صدر کو کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہو لیکن امریکیوں کی خواہش ہے کہ عام انتخابات سے قومی مصالحت کو فروغ حاصل ہو گا اور امریکی فوج کے انخلاء کے بعد عراق میں حالات پر سکون رہیں گے۔
نائب صدر جوزف بائیڈن کے سکیورٹی مشیر ٹونی بلینکن کا کہنا ہے کہ دورے میں نائب صدر سخت رویہ نہیں اپنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’ میرا نہیں خیال کہ امریکہ یا دوسرے ممالک عراق کے اس طرح کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اگر عراق مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے سے مدد مانگتا ہے تو ہم وہ فراہم کر سکتے ہیں۔ انھوں نے امریکی فوج کے انخلاء کے بارے میں کہا کہ منصوبے کے مطابق فوجیوں کا انخلاء رواں سال اگست سے شروع ہو جائے گا اور اگلے برس تک ساری فوج کو نکال لیا جائے گا۔
جوزف بائیڈن دورے کے دوران یہ تجویز دیں گے کہ مارچ میں انتخابات کے بعد انتخابی نا اہلیت کے کیسوں کا دوبارہ سے جائزہ لیا جا سکے گا اور امیدواروں سے کہا جائے گا کہ وہ بعث پارٹی سے خود کو الگ کر لیں۔
امریکی نائب صدر تنازع کے متفقہ حل کے لیے دونوں فریقن کو یکساں مواقع فراہم کریں گے لیکن عراق کے وزیراعظم نوری المالکی سمیت کچھ شیعہ رہنماوں نے اس معاملے میں بیرونی مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق نائب امریکی صدر کو دورے کے دوران محتاط رویہ اپنانا ہو گا کیونکہ خاص طور پر شعیہ حلقوں میں، سیاسی معاملات میں مداخلت اور امریکہ کی جانب سے دباؤ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔
اس تنازعے کی وجہ سے عراقی سیاستدانوں کی تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ آئندہ انتخابات جتنا ممکن ہو سکے پر سکون ماحول میں ہوں، جس کے بعد وہ عراق سے اپنی فوج کا انخلاء شروع کر سکے۔لیکن امیدواروں پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے سے عراق میں قومی مصالحت اس عمل کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس پر امریکہ ہر ممکن طریقہ سے عمل کرانا چاہتا ہے۔
عراق میں خاص طور پر اکثریتی شیعہ رہنما بعث پارٹی کے امیدواروں کو دوبارہ منظم کرنے کے خلاف ہیں جبکہ بہت سارے سنی لوگوں کی ہمدردیاں بعث پارٹی کے ساتھ ہیں۔
معروف سنی سیاست دان صالح المطلق کے نام بھی ان پانچ سو گیارہ لوگوں میں شامل ہیں جنہیں سات مارچ کے پارلیمانی انتخاب میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے، حالانکہ صالح المطلق اس وقت پارلیمان کے ممبر اور پارلیمانی بلاک کے سربراہ ہیں۔
عراق کے وزیر اعظم اور شعیہ برادری امیدواروں کی نا اہلی کے حق میں ہیں جبکہ صدر نے اس کمیشن کی قانونی حثیت پر سوال اٹھایا ہے اور اس معاملے پر سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔
امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ بات سکیورٹی گارڈ امریکی سکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کے ملازمین تھے اور ان کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار سات میں سترہ عراقی شہریوں کو قتل کیا ہے۔
تاہم امریکی عدالت کے ایک جج نے بلیک واٹر کے ملازمین کے خلاف مقدمہ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ استغاثہ نے ان کے خلاف شہادتوں کا غلط استعمال کیا تھا۔
امریکی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عراق میں زبردست ردِ عمل سامنے آیا جہاں حکومت ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں سے ملک کے بلیک واٹر کے خلاف ہرجانے کے مقدمے دائر کرنے والی ہے۔
عراق میں رواں سال مارچ میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں لیکن انتخابات سے قبل ہی سابق صدر صدام حسین کی غیر قانونی قرار دی جانے والی بعث پارٹی سے تعلق کے شبہ میں پانچ سو امیدواروں کو انتخاب کے لیے نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
نائب امریکی صدر نے بغداد میں ناشتہ کی میز پر عراق میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے خصوصی نمائندے کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں عراقی صدر ، وزیراعظم اور نمایاں سیاست دان شریک تھے۔
بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار جم موئیر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ میں یہ پریشانی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ مارچ میں ہونے والے عام انتخابات بد نامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ جم موئیر کے مطابق ہو سکتا ہے کہ امریکی نائب صدر کو کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہو لیکن امریکیوں کی خواہش ہے کہ عام انتخابات سے قومی مصالحت کو فروغ حاصل ہو گا اور امریکی فوج کے انخلاء کے بعد عراق میں حالات پر سکون رہیں گے۔
نائب صدر جوزف بائیڈن کے سکیورٹی مشیر ٹونی بلینکن کا کہنا ہے کہ دورے میں نائب صدر سخت رویہ نہیں اپنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’ میرا نہیں خیال کہ امریکہ یا دوسرے ممالک عراق کے اس طرح کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اگر عراق مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے سے مدد مانگتا ہے تو ہم وہ فراہم کر سکتے ہیں۔ انھوں نے امریکی فوج کے انخلاء کے بارے میں کہا کہ منصوبے کے مطابق فوجیوں کا انخلاء رواں سال اگست سے شروع ہو جائے گا اور اگلے برس تک ساری فوج کو نکال لیا جائے گا۔
جوزف بائیڈن دورے کے دوران یہ تجویز دیں گے کہ مارچ میں انتخابات کے بعد انتخابی نا اہلیت کے کیسوں کا دوبارہ سے جائزہ لیا جا سکے گا اور امیدواروں سے کہا جائے گا کہ وہ بعث پارٹی سے خود کو الگ کر لیں۔
امریکی نائب صدر تنازع کے متفقہ حل کے لیے دونوں فریقن کو یکساں مواقع فراہم کریں گے لیکن عراق کے وزیراعظم نوری المالکی سمیت کچھ شیعہ رہنماوں نے اس معاملے میں بیرونی مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق نائب امریکی صدر کو دورے کے دوران محتاط رویہ اپنانا ہو گا کیونکہ خاص طور پر شعیہ حلقوں میں، سیاسی معاملات میں مداخلت اور امریکہ کی جانب سے دباؤ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔
اس تنازعے کی وجہ سے عراقی سیاستدانوں کی تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ آئندہ انتخابات جتنا ممکن ہو سکے پر سکون ماحول میں ہوں، جس کے بعد وہ عراق سے اپنی فوج کا انخلاء شروع کر سکے۔لیکن امیدواروں پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے سے عراق میں قومی مصالحت اس عمل کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس پر امریکہ ہر ممکن طریقہ سے عمل کرانا چاہتا ہے۔
عراق میں خاص طور پر اکثریتی شیعہ رہنما بعث پارٹی کے امیدواروں کو دوبارہ منظم کرنے کے خلاف ہیں جبکہ بہت سارے سنی لوگوں کی ہمدردیاں بعث پارٹی کے ساتھ ہیں۔
معروف سنی سیاست دان صالح المطلق کے نام بھی ان پانچ سو گیارہ لوگوں میں شامل ہیں جنہیں سات مارچ کے پارلیمانی انتخاب میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے، حالانکہ صالح المطلق اس وقت پارلیمان کے ممبر اور پارلیمانی بلاک کے سربراہ ہیں۔
عراق کے وزیر اعظم اور شعیہ برادری امیدواروں کی نا اہلی کے حق میں ہیں جبکہ صدر نے اس کمیشن کی قانونی حثیت پر سوال اٹھایا ہے اور اس معاملے پر سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔
آپ کی رائے