کراچی(خبررساں ادارے) بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے بلوچ کارکنوں کی عدم بازیابی کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال کیمپ لگایا گیا ہے جس کا اہتمام وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم نے کیا ہے۔
کیمپ میں عبدالودود رئیسانی کی والدہ، علی اصغر بنگلزئی، جلیل ریکی، نجیب قمبرانی، ڈاکٹر دین محمد، ذاکر مجید، سنگت ثنا، ماسٹر یحیٰ عبدالحئی بنگلزئی، سمیع اللہ مینگل، مجیب بلوچ، مشتاق بلوچ، غفار لانگو، لیاقت بگٹی اور عبدالکریم کے رشتے دار شریک ہیں۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما عبدالودد کی ماں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو گزشتہ دس سالوں سے مسلسل قید میں رکھا گیا ہے حالانکہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا جس کے بعد انہیں رہا کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ودود کو بیس روز قبل مستونگ سے دوبارہ اٹھاکر لے گئے ہیں اور ان کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔گرفتاری کے وقت ودود نے اہلکاروں سے مقدمے کی تفصیلات اور وارنٹ کے بارے میں دریافت کیا تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
عبدالودود رئیسانی کی والدہ کا کہنا تھا کہ جو بھی حکومت آتی ہے بلوچوں پر ظلم و ستم کرتی ہے کیونکہ بلوچ حق کی آواز بلند کرتے ہیں اس لیے وہ گلا دباتے ہیں۔ ’اہلکار گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں بچوں پر ظلم کرتے ہیں سامان پھینکتے ہیں خوامخواہ بلوچوں کو تنگ کرتے ہیں۔
گزشتہ سال لاپتہ ہونے والے جلیل ریکی کے والد عبدالقدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان پیکیج ڈھونگ ہے اور حکومت نے لاپتہ افراد کے خاندانوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ’صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ سب ایجسنیوں کے سامنے بے بس ہیں‘۔
ان کے مطابق پیکیج کے اعلان کے بعد ماں، بیٹیاں اور بہنیں اپنے پیاروں کے انتظار میں اس امید پر رات بھر جاگتی رہیں کہ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کوئی نتیجہ ضرور نکلے گامگر کچھ نہیں ہوا۔
قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے خود کہا تھا کہ لاپتہ لوگوں کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے مگر بعد میں ہائی کورٹ میں انہوں نے تحریری بیان دیا کہ انہوں نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
یاد رہے کہ چوبیس نومبر کو پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا گیا تھا، جس میں سفارش کی گئی تھی کہ تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کردیا جائے سوائے ان افراد کے جن کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمات درج ہوئے ہیں۔
وائس فار بلوچ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بار بار کہتے رہیں کہ اگر لاپتہ بلوچوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں سامنے لایا جائے اور ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ان کے مطابق وہ عالمی دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ کے دعویداروں کی موجودگی میں بھی بلوچوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان پیکیج کے تحت لوگوں رہا تو نہیں ہوئے مگر لاپتہ ہونے کا سلسلہ تک نہیں رکا۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما عبدالودد کی ماں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو گزشتہ دس سالوں سے مسلسل قید میں رکھا گیا ہے حالانکہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا جس کے بعد انہیں رہا کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ودود کو بیس روز قبل مستونگ سے دوبارہ اٹھاکر لے گئے ہیں اور ان کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔گرفتاری کے وقت ودود نے اہلکاروں سے مقدمے کی تفصیلات اور وارنٹ کے بارے میں دریافت کیا تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
عبدالودود رئیسانی کی والدہ کا کہنا تھا کہ جو بھی حکومت آتی ہے بلوچوں پر ظلم و ستم کرتی ہے کیونکہ بلوچ حق کی آواز بلند کرتے ہیں اس لیے وہ گلا دباتے ہیں۔ ’اہلکار گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں بچوں پر ظلم کرتے ہیں سامان پھینکتے ہیں خوامخواہ بلوچوں کو تنگ کرتے ہیں۔
گزشتہ سال لاپتہ ہونے والے جلیل ریکی کے والد عبدالقدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان پیکیج ڈھونگ ہے اور حکومت نے لاپتہ افراد کے خاندانوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ’صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ سب ایجسنیوں کے سامنے بے بس ہیں‘۔
ان کے مطابق پیکیج کے اعلان کے بعد ماں، بیٹیاں اور بہنیں اپنے پیاروں کے انتظار میں اس امید پر رات بھر جاگتی رہیں کہ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کوئی نتیجہ ضرور نکلے گامگر کچھ نہیں ہوا۔
قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے خود کہا تھا کہ لاپتہ لوگوں کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے مگر بعد میں ہائی کورٹ میں انہوں نے تحریری بیان دیا کہ انہوں نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
یاد رہے کہ چوبیس نومبر کو پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا گیا تھا، جس میں سفارش کی گئی تھی کہ تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کردیا جائے سوائے ان افراد کے جن کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمات درج ہوئے ہیں۔
وائس فار بلوچ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بار بار کہتے رہیں کہ اگر لاپتہ بلوچوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں سامنے لایا جائے اور ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ان کے مطابق وہ عالمی دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ کے دعویداروں کی موجودگی میں بھی بلوچوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان پیکیج کے تحت لوگوں رہا تو نہیں ہوئے مگر لاپتہ ہونے کا سلسلہ تک نہیں رکا۔
آپ کی رائے