گزشتہ سال ستمبرمیں چترال کی وادی کالاش سے اغواء ہونے والا یونانی باشندہ اپنے اغواء کاروں کے مہمان کے طور پر افغان صوبے نورستان میں موجود ہے۔ یہ انکشاف ایک مقامی وفد کے اراکین نے کیا ہے جس نے حال ہی میں افغانستان جاکر مغوی اور اس کے اغواء کاروں سے ملاقات کی۔
انگریزی روزنامہ ”ڈان“ میں شائع شدہ خبر کے مطابق سابق ناظم ایون کی سربراہی میں نورستان جانے والے اس وفد نے بتایا ہے کہ یونانی شہری اتھاناسیوس لرونسAthanasius Lerounisنے طالبان کی طرح داڑھی بڑھا رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ خیریت سے ہے اور صحت مندزندگی گزار رہا ہے۔وفد کے ایک رکن کے مطابق اغواء کار اس سے”قابل عزت مہمان“ کے طور پر برتاؤ کررہے ہیں اوراتھاناسیوس کے دل میں اپنے اغواء کاروں کے لیے ”خصوصی لگاؤ“ پیدا ہوچکا ہے۔
وفد کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام کے دوران انھیں اتھاناسیوس سے متعدد بار ملوایا گیا جن میں وہ اس سے علیحدگی میں بھی ملے اوراسے ایک خودکار ہتھیار تھام کر ان کے ہمراہ تصویر بھی بنانے کی اجازت دی گئی۔
یاد رہے کہ اتھاناسیوس گزشتہ 15سال سے کالاش میں مقیم تھا اور اس دوران اس نے وادی کی منفرد ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک عجائب گھر کے علاوہ یہاں سکول سمیت کئی فلاحی منصوبے بھی شروع کررکھے تھے ۔ گزشتہ سال ستمبر میں چند مسلح افراد نے اس یونانی شہری کے محافظ کو ہلاک کرکے اسے اغواء کرلیا تھا۔ بعد ازاں اغواء کاروں نے اس کی رہائی کے بدلے پاکستانی حکام کی زیرحراست استاد یاسر سمیت اپنے تین طالبان ساتھیوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی۔
کالاش سے ملحقہ افغان صوبے نورستان میں طالبان کے علاوہ سابق افغان مجاہد ین لیڈر گلبدین حکمت یار کا حزب اسلامی نامی گروپ بھی سرگرم ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے حال ہی میں اپنی چیک پوسٹیں خالی کردی تھیں۔
وفد کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام کے دوران انھیں اتھاناسیوس سے متعدد بار ملوایا گیا جن میں وہ اس سے علیحدگی میں بھی ملے اوراسے ایک خودکار ہتھیار تھام کر ان کے ہمراہ تصویر بھی بنانے کی اجازت دی گئی۔
یاد رہے کہ اتھاناسیوس گزشتہ 15سال سے کالاش میں مقیم تھا اور اس دوران اس نے وادی کی منفرد ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک عجائب گھر کے علاوہ یہاں سکول سمیت کئی فلاحی منصوبے بھی شروع کررکھے تھے ۔ گزشتہ سال ستمبر میں چند مسلح افراد نے اس یونانی شہری کے محافظ کو ہلاک کرکے اسے اغواء کرلیا تھا۔ بعد ازاں اغواء کاروں نے اس کی رہائی کے بدلے پاکستانی حکام کی زیرحراست استاد یاسر سمیت اپنے تین طالبان ساتھیوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی۔
کالاش سے ملحقہ افغان صوبے نورستان میں طالبان کے علاوہ سابق افغان مجاہد ین لیڈر گلبدین حکمت یار کا حزب اسلامی نامی گروپ بھی سرگرم ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے حال ہی میں اپنی چیک پوسٹیں خالی کردی تھیں۔
آپ کی رائے