کراچی(خبررساں ادارے): پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ کراچی کے علاقے لیاری میں آپریشن بلوچوں کے خلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے اور ان کے خاتمے اور حکومتی رٹ کی بحالی تک کارروائی جاری رہے گی۔ یہ بات انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہی۔
رحمان ملک کا کہنا تھا کہ لیاری میں امن کمیٹی کے نام پر جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہے جو بھتہ بھی لیتا ہے اور تاوان کے لیے اغوا کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے۔
خیال رہے کہ لیاری کی پیپلز امن کمیٹی نے پیر کو کراچی میں لیاری آپریشن کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی جس میں ہزاروں مرد و خواتین شریک ہوئے تھے۔ اس ریلی کے شرکاء نے وزیرِ داخلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت سے ان کی فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
اجلاس کے دوران وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ کراچی کی صورتحال کے بارے میں وہ تفصیل سے بیان بدھ کو قومی اسمبلی میں اس بارے میں بحث کے دوران دیں گے۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے رکن یوسف تالپور نے کہا کہ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور وہ آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم اس معاملے کا نوٹس لیں اور خود نگرانی کریں۔انھوں نے کہا کہ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ کہیں پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لیے کوئی غلط لوگ اس میں شامل تو نہیں ہوگئے۔
خیال رہے کہ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران لیاری میں آپریشن کے حوالے سے رضاربانی سمیت بعض حکومتی ارکانِ اسمبلی نے وزیرِ داخلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا۔
پی پی پی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے وزیرِ داخلہ رحمان ملک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں رحمان ملک کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ کراچی میں بلوچوں کے خلاف آپریشن بند کریں۔ آپ کو کراچی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے‘۔ قادر پٹیل نے کہا کہ ’تمام گھنگریالے بالوں والے بلوچ گینگ وار میں ملوث نہیں ہیں اور یہ سوچ ترک کرنی ہوگی کہ سارے بلوچ مجرم ہیں‘۔
انہوں نے ایم کیو ایم کا نام لیے بنا کہا کہ پتلون پہننے والے تمام لوگ شریف نہیں ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ ہر علاقے میں ہیں اور ہر لباس پہننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’رحمٰن ملک تم کوئی پیپلز پارٹی کے چیئرمین نہیں ہو کہ یہ کہتے پھرو کہ یہ پیپلز پارٹی کا ہے یا نہیں ہے‘۔
منگل کو قومی اسمبلی میں نجی کارروائی کا دن ہوتا ہے۔ ایوان میں حکومت اور حزب مخالف کے اراکین کی جانب سے مختلف معاملات کے بارے میں قانون سازی کے بل پیش کیے گئے۔ یاسمین رحمٰن نے تحریک پیش کی کہ گھریلو تشدد کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے مقررہ مدت میں منظور نہیں ہوا اس لیے اُسے ثالثی کمیٹی کو بھیجا جائے۔ ان کی تحریک منظور کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن خرم دستگیر نے پاکستان میں غیر ملکی سیکورٹی ایجنسیز کی نگہداشت یا ریگولیٹ کرنے کا بل پیش کیا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی امریکی کمپنی سرگرم ہے۔ جس کے جواب میں وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ بلیک واٹر پاکستان میں نہیں ہے لیکن زی سیکورٹی کمپنی کے کچھ اہلکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں چار سو گیارہ امریکی شہری رہائش پذیر ہیں جس میں سے 289 سفارتکار ہیں۔
منگل کو ایوان میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کا بل بھی پیش کیا جو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ بعض دیگر بلوں سمیت پاکستان سے بے روزگاری ختم کرنے کے بارے میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کی مزید کارروائی بدھ کی شام تک ملتوی کردی گئی۔ بدھ کو کراچی میں بدامنی کے بارے میں تفصیلی بحث ہوگی۔
دوسری جانب کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں منگل کو دوسرے روز بھی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کی اپیل پر کراچی کے علاقے لیاری میں مبینہ طور پر شروع کیے گئے سیکیورٹی آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔
یہ ہڑتال منگل کو گوادر اور مکران ڈویژن کے دوسرے اضلاع میں بھی کی گئی جِس کے نتیجے میں تمام کاروباری ادارے اور بازار بند رہے۔
اِسی طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی اپیل پر ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جِس کے شرکا نے کراچی کے علاقے لیاری میں سرچ آپریشن اور ٹارگٹ کِلنگ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ لیاری کی پیپلز امن کمیٹی نے پیر کو کراچی میں لیاری آپریشن کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی جس میں ہزاروں مرد و خواتین شریک ہوئے تھے۔ اس ریلی کے شرکاء نے وزیرِ داخلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت سے ان کی فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
اجلاس کے دوران وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ کراچی کی صورتحال کے بارے میں وہ تفصیل سے بیان بدھ کو قومی اسمبلی میں اس بارے میں بحث کے دوران دیں گے۔
اس دوران پیپلز پارٹی کے رکن یوسف تالپور نے کہا کہ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور وہ آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم اس معاملے کا نوٹس لیں اور خود نگرانی کریں۔انھوں نے کہا کہ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ کہیں پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لیے کوئی غلط لوگ اس میں شامل تو نہیں ہوگئے۔
خیال رہے کہ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران لیاری میں آپریشن کے حوالے سے رضاربانی سمیت بعض حکومتی ارکانِ اسمبلی نے وزیرِ داخلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا۔
پی پی پی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل نے وزیرِ داخلہ رحمان ملک پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں رحمان ملک کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ کراچی میں بلوچوں کے خلاف آپریشن بند کریں۔ آپ کو کراچی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کیا ہے‘۔ قادر پٹیل نے کہا کہ ’تمام گھنگریالے بالوں والے بلوچ گینگ وار میں ملوث نہیں ہیں اور یہ سوچ ترک کرنی ہوگی کہ سارے بلوچ مجرم ہیں‘۔
انہوں نے ایم کیو ایم کا نام لیے بنا کہا کہ پتلون پہننے والے تمام لوگ شریف نہیں ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ ہر علاقے میں ہیں اور ہر لباس پہننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’رحمٰن ملک تم کوئی پیپلز پارٹی کے چیئرمین نہیں ہو کہ یہ کہتے پھرو کہ یہ پیپلز پارٹی کا ہے یا نہیں ہے‘۔
منگل کو قومی اسمبلی میں نجی کارروائی کا دن ہوتا ہے۔ ایوان میں حکومت اور حزب مخالف کے اراکین کی جانب سے مختلف معاملات کے بارے میں قانون سازی کے بل پیش کیے گئے۔ یاسمین رحمٰن نے تحریک پیش کی کہ گھریلو تشدد کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے مقررہ مدت میں منظور نہیں ہوا اس لیے اُسے ثالثی کمیٹی کو بھیجا جائے۔ ان کی تحریک منظور کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن خرم دستگیر نے پاکستان میں غیر ملکی سیکورٹی ایجنسیز کی نگہداشت یا ریگولیٹ کرنے کا بل پیش کیا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی امریکی کمپنی سرگرم ہے۔ جس کے جواب میں وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ بلیک واٹر پاکستان میں نہیں ہے لیکن زی سیکورٹی کمپنی کے کچھ اہلکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں چار سو گیارہ امریکی شہری رہائش پذیر ہیں جس میں سے 289 سفارتکار ہیں۔
منگل کو ایوان میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کا بل بھی پیش کیا جو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ بعض دیگر بلوں سمیت پاکستان سے بے روزگاری ختم کرنے کے بارے میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کی مزید کارروائی بدھ کی شام تک ملتوی کردی گئی۔ بدھ کو کراچی میں بدامنی کے بارے میں تفصیلی بحث ہوگی۔
دوسری جانب کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں منگل کو دوسرے روز بھی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کی اپیل پر کراچی کے علاقے لیاری میں مبینہ طور پر شروع کیے گئے سیکیورٹی آپریشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔
یہ ہڑتال منگل کو گوادر اور مکران ڈویژن کے دوسرے اضلاع میں بھی کی گئی جِس کے نتیجے میں تمام کاروباری ادارے اور بازار بند رہے۔
اِسی طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی اپیل پر ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جِس کے شرکا نے کراچی کے علاقے لیاری میں سرچ آپریشن اور ٹارگٹ کِلنگ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
آپ کی رائے