لندن(خبررساں ادارے): برطانوی وزیر داخلہ ایلن جانسن نے کہا ہے کہ حکومت نے انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی تنظیم “اسلام فار یو کے” پر جمعرات سے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزارات داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق یہ پابندی “اسلام فار یو کے” پر عائد کی جائے گی جو مختلف ناموں سے سرگرم ہے۔ اس تنظیم کے دیگر ناموں میں المہاجرون، ’الغربا‘ اور ’دی سیوڈ سیکٹ‘ شامل ہیں۔
حکومت نے یہ فیصلہ اس وقت کیا ہے جب یہ تنظیم ولٹشائر کے شہر ووٹن بیسٹ میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اتوار کو مارچ کرنے والی تھی۔ میڈیا کی جانب سے زبردست تشہیر پانے کے بعد اس مارچ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
برطانوی حکومت کچھ عرصے سے اس تنظیم پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
ایلن جانسن نے کہا ’میں نے آج “المہاجرون”، “اسلام فور یو کے” اور اس تنظیم کے دیگر ناموں پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس تنظیم کے دیگر دو نام الغربا اور دی سیوڈ سیکٹ پر پہلے ہی سے پابندی عائد ہے۔‘
برطانیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ گروپ پر پابندی لگانا یا اسے غیر قانونی قرار دینا ایک مشکل کام تھا لیکن شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے یہ اہم تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔
المہاجروں کے بانی رہنما شیخ عمر بکری محمد جنہیں برطانیہ سے نکال دیا گیا تھا نے لبنان سے ایک بیان میں کہا ہے کہ گروپ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ایک بڑی غلطی ہے اور اس سے ان کی تنظیم بھلے ہی منظر عام پر نہ رہے لیکن اس سے گروپ مزید بڑا اور مضبوط ہوگا۔
اسلام فار یو کے کے ترجمان انجم چوہدری نے بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا ’لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اگر آپ حکومت سے متفق نہیں ہیں اور حکومت کی خارجہ پالیسی پر آواز اٹھاتے ہیں تو آزادی فوراً ختم ہو جاتی ہے اور آمرانہ حکومت سامنے آتی ہے۔‘
جمعرات سے اس پابندی کے عائد ہونے کے بعد سے اس تنظیم کا ممبر ہونا ایک جرم ہو گا جس میں دس سال قید بھی ہو سکتی ہے۔
حکومت نے یہ فیصلہ اس وقت کیا ہے جب یہ تنظیم ولٹشائر کے شہر ووٹن بیسٹ میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اتوار کو مارچ کرنے والی تھی۔ میڈیا کی جانب سے زبردست تشہیر پانے کے بعد اس مارچ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
برطانوی حکومت کچھ عرصے سے اس تنظیم پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
ایلن جانسن نے کہا ’میں نے آج “المہاجرون”، “اسلام فور یو کے” اور اس تنظیم کے دیگر ناموں پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس تنظیم کے دیگر دو نام الغربا اور دی سیوڈ سیکٹ پر پہلے ہی سے پابندی عائد ہے۔‘
برطانیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ گروپ پر پابندی لگانا یا اسے غیر قانونی قرار دینا ایک مشکل کام تھا لیکن شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے یہ اہم تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔
المہاجروں کے بانی رہنما شیخ عمر بکری محمد جنہیں برطانیہ سے نکال دیا گیا تھا نے لبنان سے ایک بیان میں کہا ہے کہ گروپ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ایک بڑی غلطی ہے اور اس سے ان کی تنظیم بھلے ہی منظر عام پر نہ رہے لیکن اس سے گروپ مزید بڑا اور مضبوط ہوگا۔
اسلام فار یو کے کے ترجمان انجم چوہدری نے بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا ’لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اگر آپ حکومت سے متفق نہیں ہیں اور حکومت کی خارجہ پالیسی پر آواز اٹھاتے ہیں تو آزادی فوراً ختم ہو جاتی ہے اور آمرانہ حکومت سامنے آتی ہے۔‘
جمعرات سے اس پابندی کے عائد ہونے کے بعد سے اس تنظیم کا ممبر ہونا ایک جرم ہو گا جس میں دس سال قید بھی ہو سکتی ہے۔
آپ کی رائے