ایران کےسنی اکثریت علاقے

ایران کےسنی اکثریت علاقے
sunniظہور اسلام سے پہلے ایران میں حکومت اور اقتدار کے تخت پر آتش پرست فارسی براجماں تھے جو سلطنت ساسانیہ کی نمائندگی کررہے تھے۔ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سنہری دور میں ایران فتح ہوا اور ایرانی باشندے مشرف بہ اسلام ہوئے اور ساسانی بادشاہوں کے ظلم و جبرسے نجات پاگئے۔خلافت امویہ اور عباسیہ کے دوران ایران میں شیعوں کی تعداد بہت کم تھی جو کاشان، سبزوار، قم اور ساوہ میں رہتے تھے۔لیکن پانچ صدی پہلے ۹۰۶ ھ ق سے جب صفویوں نے ایران میں سراٹھا یا اور تحریک چلانے لگے تو تاریخ میں پہلی مرتبہ اہل تشیع کی حکومت منظر عام پر آئی۔ جب شاہ اسماعیل صفوی نے زمام حکومت اپنے ہاتھ لیا تو تبریز کو اپنا دارالحکومت بناتے ہوئے شیعہ امامیہ کو اپنی حکومت کا مذہب قرار دیا۔

سنہ ۹۰۷ ھ ق میں اہل سنت کو شدید مشکلات سے دوچار کردیاگیا۔ سنیوں کے قتل عام، جبری جلاوطنی اور ہرطرح کے تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ شہروں کی ندی نالیوں میں صفوی حکمرانوں کی سفاکیت کانشانہ بننے والے سنی مسلمانوں کا لہو بہتارہا اور بازاروں میں موت رقص کرنے لگی۔اس وقت سے اب تک ایران میں حکومت اور اقتدار پوری طرح اہل تشیع حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ سیاسی، معیشتی اور سارے عوامی شعبہ ان کے قبضہ میں چلے آرہے ہیں۔ دوسری طرف سنی مسلمان بالکل بے بال وپر چلے آرہے ہیں جن کا ملک کے اہم شعبوں اور قانون ساز اداروں میں کوئی کردار نہیں۔ بلکہ الٹا انہیں ظلم وستم کا تختہ مشق بنایا جاتاہے۔

ایران میں سنی مسلمانوں کی تعداد اور آبادی کا فی صد حصہ کیا ہے؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ وجہ یہ ہے کہ کسی معتبر اور غیرجانبدار ادارے کو قومی اور مذہبی اقلیتوں کی آبادی اور صحیح تعداد معلوم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بہرحال پورے یقین کے ساتھ ہم دعویٰ کرسکتے ہیں ایران کی ۷ کروڑ آبادی کے تناسب سے اہل سنت کی آبادی ۱۸ ملین (ایک کروڑ اسی لاکھ) سے زیادہ ہے۔ اس حساب سے ایران میں اہل سنت کی تعداد ملک کی آبادی کی ۲۵ فی صد بنتی ہے۔ ایرانی اہل سنت کی نصف تعداد کرد قوم کی ہے جن کی تعداد ایران میں اسی لاکھ ہے۔ کردوں کی ۹۸ فی صد مسلمان ہے اور ان میں ۵۹ فی صد سنی مسلمانوں کی ہے۔ بلوچ قوم ایرانی اہل سنت والجماعت کی دوسری بڑی قوم ہے۔ جغرافیا کے لحاظ سے ایران کے سنی مسلمان زیادہ تر سرحدی علاقوں میں آباد ہیں یا دوردراز شہروں اور علاقوں میں ایک دوسرے سے بہت دور رہائش پذیر ہیں۔

جن علاقوں میں اہل سنت برادری آباد ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
۱۔ صوبہ کردستان: یہ صوبہ ایران کے مغرب میں عراقی بارڈر کے ساتھ واقع ہے جس کا دارالحکومت سنندج ہے۔ اس صوبے میں سو فیصد آبادی کردوں کی ہے۔
۲۔ صوبہ مغربی آذربائیجان : ایران کے شمال مغرب میں واقع اس صوبے کی اکثریت کرد سنیوں کی ہے۔
۳۔ صوبہ کرمانشاہ: یہ صوبہ ایران کے جنوب مغرب میں واقع ہے جس کی اکثریت کردوں اور سنیوں کی ہے۔ اس صوبہ کا دارالحکومت کرمانشاہ کا شہر ہے۔
۴۔ ترکمن صحرا کا علاقہ: ایران کے شمال میں واقع بحرخزر کے ساحلی علاقوں سے لیکر جمہوریہ ترکمنستان کی جنوبی سرحدوں تک کا علاقہ ترکمن صحرا کہلاتا ہے جس اکثر آبادی سنی ترکمانوں اور بلوچوں پر مشتمل ہے۔
۵۔ صوبہ خراسان: ایران کے شمال مشرق سے لیکر جنوب مشرقی صوبہ بلوچستان تک کا علاقہ خراسان کہلاتاہے۔ اس صوبے کی سرحدیں افغانستان سے لگتی ہیں جہاں فارسی اور بلوچ سنی اکثریت میں ہیں۔
۶۔ صوبہ سیستان وبلوچستان: ایران کے جنوب مشرق میں واقع اس صوبے میں اکثریت بلوچ مسلمانوں کی ہے۔ مشرق سے یہ صوبہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ واقع ہے جبکہ جنوبی خراسان سے لیکر بحرعمان تک بلوچستان کی سرحدیں پھیلی ہوئی ہیں۔
۷۔ صوبہ ہرمزگان: خاص طور پر اس صوبے کے دارالحکومت بندرعباس، جزیرہ قشم اور دیگر ساحلی شہروں میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جو فارسی، عربی اور بلوچی بولتے ہیں۔
۸۔ صوبہ فارس: اس صوبہ کے شہر لارستان اور اس کے اردگرد کے علاقے اور بستیاں اہل سنت کے علاقے ہیں۔ نیز اس صوبہ کے شہر طلہ دار، خور، اوز، خنج، بستک، فیشور، جناح وغیرہ میں سنیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
۹۔ صوبہ بوشہر: صوبے کے دارالحکومت بوشہر اور آس پاس کے علاقے سنیوں کے ہیں۔
نیز بندر مقام، طاوبندی، کشکنار اورایران کے جنوب مغرب کے دیگر علاقے۔
۱۰۔ صوبہ اردبیل کے شہر خلخال اور آس پاس کے علاقے۔
۱۱۔ تالش اور عنبران جو ایران کے شمال میں بحر خزر کے ساتھ واقع ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں