ایران کے اعلی حکام سے ملاقات ومذاکرات کے بعد مولاناعبدالحمید کی’’سنی آن لائن‘‘سے خصوصی گفتگو

ایران کے اعلی حکام سے ملاقات ومذاکرات کے بعد مولاناعبدالحمید کی’’سنی آن لائن‘‘سے خصوصی گفتگو
hewarگزشتہ دنوں خبرشائع ہوئی ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متعددعلمائے کرام کوایک خصوصی عدالت نے جیل بھیج دیاہے۔ سنی علمائے کرام پردباؤہے کہ حکومتی ایکٹ برائے دینی مدارس کوتسلیم کرکے اپنے مدارس ومساجدکوحکومت کے حوالے کریں۔ ان واقعات کے بعدصوبہ سیستان وبلوچستان کے چوٹی کے علماء،بعض اراکین پارلیمنٹ اورعمائدین پرمشتمل ایک وفداعلی سیاسی ومذہبی رہنماؤں سمیت حکام بالاسے ملاقات ومذاکرات کیلئے دارالحکومت تہران اورمذہبی شہرقم کارخ کیا۔ وفدکی صدارت ایران کی سنی کونسل کے سربراہ اوردارالعلوم زاہدان کے سرپرست اعلی  شیخ السلام مولاناعبدالحمیددامت برکاتهم کررہے تھے۔

دس دنوں کے بعدجب مذکورہ وفدواپس زاہدان آگیاتو “سنی آن لائن” کے رپورٹرنے وفدکے سربراہ مولاناعبدالحمیدکا انٹرویوکیا۔ گفت وگوکاموضوع، اعلی حکام ومذہبی رہنماؤں سے ملاقات کے بارے میں ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے اس انٹرویو کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں۔
سنی آن لاین: سیستان وبلوچستان کے چوٹی کے علمائے کرام اورسماجی رہنماؤں کے ایک وفدجب قم اورتہران داخل ہواتو بعض خبررساں اداروں اورمتعصب ویب سائٹس نے ملاقاتوں کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں کیں اورنتائج کے بارے میں بددیانتی کامظاہرہ کرتے ہوئے تعصب کادامن تھامے رکھا۔ اس سفرکی حقیقت کیاہے اوریہ مذاکرات سنی مسلمانوں کیلئے کتنے امیدافزا ثابت ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے شیخ الاسلام مولاناعبدالحمیدسے اس سفرکے مقاصداورمحرکات سے پوچھا۔
مولاناعبدالحمید:ایک عرصے سے خطے کے علمائے کرام اوردینی مدارس کے ذمہ داروں پردباؤڈالاجارہاہے غیرملکی طلباٰء جن کاتعلق افغانستان وتاجسکتان سے ہے کومدارس سے بیدخل کیاجائے نیزایک ایکٹ پاس کیاگیاہے جس کاعنوان’’اصلاح مدارس اہل سنت‘‘ رکھاگیاہے۔ اسی ایکٹ کے تحت سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای کے صوبائی نمایندے کے دفترکی طرف سے تمام سنی دینی مدارس کومرتب شدہ درسی نصاب بمعہ دھمکی آمیزخط موصول ہواتھا۔ خط میں لکھاگیاہے جن اصحاب مدارس نے اب تک مذکورہ ایکٹ کے تحت بننے والی کمیٹی کوفارم بھرکرمدرسے کے نیورجسٹریشن نہیں کرایاہے بلاتاخیررجسٹریشن کرائیں ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس’’پیکج‘‘سے ہم حیران رہ گئے۔ اس کے بعدبلوچستان کے12ممتازعلمائے کرام کوخصوصی عدالت برائے علماء طلب کیاگیا جن میں سے بعض کو عدالت سے جیل منتقل کیاگیا۔ انقلاب کے بعدیہ پہلی مرتبہ ایساہواہے کہ بیک وقت ایک کشیدہ ماحول میں اہل سنت کی اتنی بڑی تعداد کے علماء کوعدالت طلب کیاگیاہے۔
بلوچستان کے تقریبا ایک سوعلمائے کرام نے نمایندہ سپریم لیڈربرائے اہل سنت آیت اللہ سلیمانی سے ملاقات کی جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مجبورہوکر ممتازعلمائے کرام پرمشتمل وفدکی شکل میں ہمیں قم اورتہران جاناپڑا۔ قم میں رہائش پذیر نامورشیعہ علماء سے جنہیں مرجع کہاجاتاہے ہماری ملاقات ہوئی۔ تہران میں صدرمملکت ڈاکٹراحمدی نژاد، سپیکرپارلیمنٹ علی لاریجانی،مجمع تقریب بین المسالک آیت اللہ تسخیری سمیت بعض اعلی حکام سے گفت وشنیدہوئی۔
بعض ویب سائٹس نے ہمارے حوالے سے لکھاہے  که آیت اللہ یزدی سے علمائے اہل سنت کی ملاقات ہوئی ہے اورانہوں نے اپنی طرف سے بعض غلط باتیں بھی درج کرکے غلط بیانی اورجھوٹ سے کام لیاہے حالانکہ یزدی سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔میں اس حوالے سے تمام رپورٹوں کی تردیدکرتاہوں۔

سنی آن لاین:ان ملاقاتوں میں کون سے مسائل زیربحث آئے؟
مہتمم دارالعلوم زاہدان:سنیوں کے ساتھ30سالوں سے روارکھاجانے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے بات ہوئی جنہیں ملک کے اعلی مناصب اورعہدوں سے محروم رکھاجاتاہے،ان کے اپنے علاقوں میں عہدوں اورملازمتوں کوان کے لیے شجرہ ممنوعہ قراردیاگیاہے اورمسلح اداروں سے سنی مسلمانوں کوچن چن کربیدخل کیاجارہاہے۔ اس کے علاوہ دینی مدارس او اس حوالے سے ریفارم ایکٹ کے بارے خدشات حکام اورمذہبی رہنماؤں کے سامنے پیش کیے گیے۔ اصلاح مدارس ایکٹ کاعنوان بظاہر بڑاخوشنماہے مگرحقیقت میں یہ اصلاح نہیں مدارس پر قبضے کی کوشش ہے۔ غیرملکی طلباء کے حوالے سے بھی چندگزارشات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دیے گئے۔ یہ طلبہ کافی عرصے سے ہمارے مدارس میں زیرتعلیم ہیں۔ سابق سوویت یونین کے افغانستان پرحملے کے بعدبہت سارے افغان مہاجرین نے ایران کارخ کیا۔تعلیم کیلئے ان کے بچے سرکاری اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں اوراسی طرح دینی مدارس میں داخل ہوئے اوراب بھی بعض افغانی لڑکے ایران کے مختلف علاقوں کے دینی مدارس میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے بعدتاجکستانی نوجوان تعلیم کیلئے ایران سمیت مختلف اسلامی ملکوں کاانتخاب کرتے ہیں۔ بہت سارے تاجک طالب علم قم،گرگان ودیگرشہروں میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جبکہ کچھ تاجکستانی سیستان وبلوچستان کے دینی مدارس میں فقہ حنفی اورقرآن پاک کی تعلیمات سے آشناہورہے ہیں۔
اس پورے عرصے میں ہمارے مدارس کے ذمہ داروں نے تعلیمی ویزاکے حصول کیلئے کوششیں کرتے چلے آرہے ہی۔ان افرادکی مکمل فہرست جامعہ مصطفی کے حوالے کیاجاچکاہے(یہ شیعہ مدرسہ سنی طلباء کیلئے ہے)۔حتی کہ ہم نے اپنے مدارس کے نصاب میں شامل درسی کتب کی فہرست تحقیق کیلئے انہیں دیاہے۔ جامعہ مصطفی نے اپنے موقف کااعلان کیاہے کہ غیرملکی طلبہ ہمارے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے مجازہیں اورحکومت کوقانونی اجازت فراہم کرنی چاہیے۔ ہم اجازت کے انتظارمیں تھے کہ گرفتاریاں شروع ہوئیں اوراہل مدارس پردباؤمیں شدت لائی گئی۔
مذکورہ ملاقاتوں اورگفت وشنیدکی خصوصیت یہ تھی کہ دونوں اطراف سے واضح اور دوٹوک اندازمیں مسائل اورخدشات بیان ہوئے۔ ہم نے کوشش کی شفاف اندازمیں غلط اطلاعات جوحکام تک پہنچائے گئے تھے کی اصل حقیقت ان پرواضح کریں۔ بعض قوتیں اہل سنت اوران کے دینی مدارس کے بارے میں تعصب سے کام لیتی ہیں اورتہران وقم میں بیٹھے حکام اوررہنماؤں کوگمراہ کرتی ہیں۔ چنانچہ کہاگیاہے ہمارے دینی مدارس میں انتہاپسندانہ سوچ اورخیالات پائے جاتے ہیں اور”اصلاح مدارس اہلسنت ایکٹ” ایسے خیالات کی روک تھام کیلئے پاس ہواہے۔ ہم نے دلائل کے ساتھ وضاحت کی پورے ایران کے کسی بھی دینی مدرسے میں انتہاپسندانہ افکارہرگزنہیں پائے جاتے۔
علمائے کرام اورطلباء معاشرے کے بہترین افراد میں سے ہیں، سنی اکثریت علاقوں میں محسوس ہونے والا امن وامان،رواداری اوربرادرانہ تعلقات کاسہرا علمائے کرام اور طلبہ کے سرپرہے۔ ان علاقوں کی خیروبرکت اس شریف طبقے کی قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں کانتیجہ ہے۔ ہمارے طلبہ بشمول ملکی وغیرملکی انتہاپسندی سے کوسوں دورہیں۔ اہل سنت کے مدارس میں اینٹی شیعہ موادنہیں پڑھائے جارہے ہیں۔ اہل سنت کا اس بات پراتفاق ہے اگرانہیں آزادی دی جائے اورمذہبی مسائل میں ان پردباؤنہ ڈالاجائے تو پرامن اوردوستانہ تعلقات کی بنیادپر وہ اہل تشیع کے ساتھ رہیں گے اوردوستانہ تعلقات کوفروغ دیں گے۔ ہم فرقہ واریت اورمسلکی چپقلش کی شدیدمخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ تیس سالوں کے دوران جب سے آیت اللہ خمینی کاانقلاب آیاہے ہمارے دینی مراکزنے انہی اصولوں کی پیروی کی ہے اوریہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہمارے دینی اداروں پرقبضہ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم خودشیعہ اور اسی طرح سنی انتہاپسندوں کے متاثرین سے ہیں۔
ہم مکمل مذہبی آزادی اور استقلال چاہتے ہیں اور اہل سنت والجماعت برادری اپنے اس مطالبہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ مدارس کی نگرانی حکومتوں کاحق ہے مگرمداخلت کسی بھی مذہب ومسلک کے امورمیں قانونی،شرعی،عقلی اورعرف عام کی روسے ناجائزہے۔ اہل سنت کے مدارس میں مداخلت کانتیجہ افتراق واختلاف اورمشترک دشمنوں کی خوشی کا باعث ہوگا۔ اس وقت ہزاروں غیرملکی شیعہ وسنی طالبعلم قم،اصفہان،مشہد،گرگان ودیگرشہروں میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ سنی طلبہ کے اکثراساتذہ شیعہ اوران کے درسی نصاب زیادہ تراہل تشیع کی کتابوں پرمشتمل ہے حالانکہ سنی طلبہ ہم سے عقیدہ وفقہ کے اعتبارسے قریب ترہیں،توانہیں ہمارے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کیوں نہیں؟یہ جانبدارانہ رویہ انتہائی پریشان کن ہے۔ جامعہ مصطفی کی انتظامیہ سے بات ہوئی کہ کم ازکم اس کے زیراہتمام چارجامعات میں سے دوکوہمارے حوالے کریں۔ ہم چاہتے ہیں قانون سب کیلئے برابراوریکسان نافذہو۔

انٹرویوکے آخرمیں مولاناعبدالحمیدنے حکام بالا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اہل سنت برادری کامطالبہ ہے قانون کے نفاذمیں مساوات سے کام لیاجائے۔ مناصب وعہدوں کی تقسیم میں شیعہ سنی کی تفریق ختم کریں۔ ہماری کرامت،حرمت اورآزادی کاخیال رکھیں۔ ہم نماز و دیگرعبادات اپنی فقہ کے مطابق اداکرناچاہتے ہیں۔ ہم اپنی تعلیم میں آزادہیں اوراس حوالے سے دباؤنہ ڈالاجائے۔ مذہبی آزادی آئین،بین الاقوامی قوانین اوراقوام متحدہ کے منشورکی روسے ہمارابلاچون وچراحق ہے۔ ایران نے اس منشورپردستخط کرکے اس کی تصدیق کی ہے۔ انقلاب کے ذمہ داروں کو چاہیے اہل سنت والجماعت کی آزادی کی نگرانی کریں۔ جو بهی محکمے یابااثرمذہبی رہنما سنیوں کے حقوق پرڈاکہ ڈالناچاہتے ہیں ان کوروکیں۔

سنی آن لاین:آپ کابہت بہت شکریہ۔آخرمیں اگرکوئی پیغام دیناچاہیں؟
مولاناعبدالحمید:بلاشبہ کوئی بھی طاقت جتنی طاقتورہو عدل وانصاف کے بغیردنیا میں قائم نہیں رہ سکے گی۔ کفرکے ساتھ حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کے ساتھ ہرگزنہیں۔ ایران عالم اسلام تعلقات کے فروغ میں اہل سنت کا اہم کردارہوسکتاہے اگرحکمران چاہیں۔ ہم کسی بھی ابہام وشکوک کودورکرنے اورگفت وشنید ومذاکرات کے لیے تیارہیں۔ درحقیقت مذاکرات وگفت وگوہی بہترین حل ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں