طالبان نے لندن کانفرنس کا اصل مقصد افغانستان پر جارح افواج کے ناجائز قبضہ کو طول دینے کی کوشش قرار دیا۔
ایک طرف امریکی صدر باراک اوباما نے کانگریس کی اس درخواست کی توثیق کردی ہے جس کی روسے افغان آرمی اور پولیس کو مزید فوجی تربیت دینے کیلیے دو سال تک 14.2 ارب ڈالر مختص کیے جائیں گے۔ دوسری طرف فرانس پریس نے ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے افغانستان میں تحریک طالبان اور اس کے اتحادیوں کی سرگرمیاں اور اثر و رسوخ حیران کن حدتک بڑھ چکی ہیں۔
مکمل انخلاء تک بات چیت نہیں ہوسکتی
افغان حکومت اور اس کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے حوالے سے طالبان نے رد عمل ظاہر کیا ہے کہ افغانستان سے قابض افواج کے مکمل انخلاء تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
بیان کے آخر میں کہا گیا ہے طالبان کا موقف ہے افغان مسئلہ کا واحد حل ساری قابض طاقتوں کا افغانستان سے فوری انخلاء ہے۔
اس سے قبل پاکستان کی ایک دینی جماعت کے سربراہ جو طالبان قیادت سے قریب اور مذاکرات کیلیے امریکی کوششوں سے آگاہ سمجھے جاتے ہیں، نے کہا ہے طالبان کو سیاسی حل میں شامل کرنے کی واشنگٹن کوششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔
پاکستانی رہ نما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ گزشتہ سال کی گرمیوں میں افغان طالبان کی شدید مزاحمت کو دیکھ کر اقوام متحدہ اس نتیجے پرپہنچ چکی ہے کہ افغان طالبان کو عسکری مقابلے میں کبھی بھی زیر نہیں کیا جاسکتا۔
اسی وجہ سے امریکی حکام نے طالبان کو پیش کش کی ہے غیرملکی افواج افغانستان سے انخلاء کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کریں گی، اس کے بدلے میں افغان مزاحمت کار اپنی کار روائیاں بند کرکے افغان حکومت کا حصہ بنیں گے۔ مگر طالبان قیادت نے امریکی پیش کش مسترد کرکے اپنی راہ حل پیش کی ہے جو امریکیوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
پاکستانی رہ نما نے انکشاف کیا ہے امریکی پیش کش کے مطابق نئی افغان حکومت کی تین چوتھائی طالبان کو دی جائے گی اس وعدے کے ساتھ کہ غیرملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی جبکہ ایک چوتھائی میں آنے والی وزارتوں اور عہدوں کی تقسیم اور نامزد کرنے کا حق امریکا کے پاس ہوگا۔
تحریک طالبان افغانستان نے سیاسی پارٹیوں کی طرز سیاست وحکومت اور جمہوری سسٹم میں شرکت کی شدید مخالفت کی ہے۔
آپ کی رائے