’پاکستان بات چیت میں مسائل پیدا کرے گا‘

’پاکستان بات چیت میں مسائل پیدا کرے گا‘
zaeefاسلام آباد (ایجنسیاں): سابق طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا ہے کہ افغان طالبان سے بات چیت میں اگر پاکستان کو شامل کیا گیا تو اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

طالبان دورِ حکومت میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر رہنے والے ملا ضعیف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ملک میں صلح کے عمل میں شریک ہونے سے پہلے اپنے مسائل حل کرنے چاہیئیں۔
ملا ضعیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اپنے ایک انٹرویو میں افغان طالبان سے پاکستانی رابطوں کی تصدیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں صلح کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان افغان طالبان کے ساتھ ہر سطح پر رابطے کر رہا ہے۔
انہوں نے رابطوں سے متعلق زیادہ تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پالیسی کی کامیابی سے متعلق اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ملا ضعیف سے جب پاکستان کے افغان طالبان سے رابطوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان اس حالت میں نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ ان کے بقول ’اگر پاکستان بات چیت کے عمل میں شامل ہوگیا تو وہ مزید مسائل پیدا کرے گا اور پاکستان کو بات چیت کے عمل میں شامل کرنا ایک بے وقوفانہ سوچ ہو گی‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان غیر ملکی افواج کی موجودگی میں حکومت سے بات چیت نہ کرنے کی پالیسی تبدیل کر لیں گے تو ملا ضعیف نے کہا کہ ’جب دن رات تبدیل ہوتے ہیں، وقت بھی تبدیل ہوتا ہے اور دنیا تبدیل ہوتی ہے تو لوگوں کے نظریات بھی تبدیل ہوتے ہیں لیکن اگر تبدیلی ہو بھی تو وہ اصولوں پر ہو گی‘۔
کرزئی حکومت کے چیلنجز کے حوالے سے سوال پر سابق طالبان سفیر نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ ان کا اقتدار میں رہنا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’طالبان سے بات چیت کے لیے ایجنڈا کہاں ہے اور یہ کہ بات چیت کس نکتے پر مرکوز ہو گی‘۔
یاد رہے کہ حال ہی میں جہاں امریکی فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل سٹینلے میکرسٹل نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال میں پیش رفت کے لیے طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے وہیں ترکی کے شہر استنبول میں سہ فریقی سربراہی ملاقات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے صدور نے خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے شدت پسندی سے تائب طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ضروری شرط قرار دیا ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں