مولانا نذر الحفیظ ندوی رحمۃ اللہ علیہ ابھی مجال سخن نہیں ہے

مولانا نذر الحفیظ ندوی رحمۃ اللہ علیہ ابھی مجال سخن نہیں ہے

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مؤقر استاذ؛ بلکہ استاذ الاساتذہ، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن، عربی اور اردو زبان کے نامور مصنف، پندرہ روزہ تعمیر حیات کےسابق مدیر مسؤل حضرت مولانا نذر الحفیظ ندوی بن قاری عبد الحفیظ (ولادت ١٩٣٩ء) آبائی وطن ململ ضلع مدھوبنی کا آج ٢٨/مئی ٢٠٢١ء مطابق ١٥/شوال ١٤٤٢ھ بروز جمعہ بوقت ساڑھے گیارہ بجے دن انتقال ہوگیا. ضعف و نقاہت اور مختلف امراض کے شکار تو وہ پہلےہی سے تھے آج ان کی طبیعت انتقال سے صرف آدھ گھنٹے پہلےزیادہ بگڑی، فوری اسپتال لے جایا گیا؛لیکن قضاء و قدر نے اپنا کام کرڈالا،ان کی عمر براسی (٨٢)برس تھی، تدفین بعد نماز عشاء ڈالی گنج لکھنؤ کے قبرستان میں ہوئی، اس طرح علم و فضل کا ایک اور آفتاب غروب ہوگیا، مولانا حمزہ حسنی ندوی ، مولانا شاکری رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد علمی دنیا کا عموماً اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کا خصوصاً یہ بڑا نقصان ہے، جس کی تلافی مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آتی، اللہ ربّ العزت غیب سے تلافی مافات کی کوئی شکل پیدا کردیں تو دوسری بات ہے
،مولانا نذر الحفیظ ندوی کی ابتدائی تعلیم ان کے والد گرامی قدر قاری عبد الحفیظ صاحب کے ذریعہ ہوئی، قاری صاحب اردو کے بہترین شاعر تھے، ان کا مجموعہ کلام مولانا کی نگرانی میں طبع ہوکر معروف و مقبول ہے،، والد صاحب سے ہی انہوں نے حفظ قرآن کی تکمیل مدرسہ کافیۃ العلوم پرتاب گڑھ یوپی سے کیا، مولانا کے والد اس مدرسہ کے مہتمم تھے، فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے چچا محمد عاقل سے پائی،١٩٥٥ء میں وہ ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور ابتدائی عربی سے فضیلت تک کی تعلیم یہیں سے حاصل کی، اکابر اساتذہ خصوصاً مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رح کی توجہ کا مرکز رہے، وہ حضرت مولانا کے مرید خاص اور معتمد تھے، فراغت کے بعد ایک سال جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ میں پڑھایااور پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس کے کام سے لگ گئے، ١٩٦٤ء میں اس منصب پر تقرری عمل میں آئی اور پورے دس سال انتہائی دلجمعی سے اس خدمت کو انجام دینے کے بعد ١٩٧٥ء میں مصر چلے گئے، جہاں عین شمس یونیورسٹی سے ایم اے اور جامعہ ازہر مصر سے عربی تنقیدکے حوالہ سے اہم مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ١٩٧٢ء میں مصر سے واپسی کے بعد پھر سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں استاذ مقرر ہوئے اور تازندگی مادر علمی کی خدمت انجام دیتے رہے، اس درمیان ایک زمانہ میں وہ تعمیر حیات کے مدیر مسؤل رہے، ان کی سب سے مشہور کتاب “مغربی میڈیا اور اس کے اثرات” ہے، جس کا انگریزی، عربی، ملیالم، ہندی، اور بنگالی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے، عرب دنیا میں اہل علم کے نزدیک یہ کتاب کافی معروف و مقبول ہے، ان کی عربی زبان میں بھی دو اہم کتابیں ہیں”الزمخشری کاتبا و شاعرا” یہ آپ کا ام اے کا سندی مقالہ ہے، اور “ابوالحسن علی ندوی کاتبا و مفکرا” یہ دوسری کتاب ہےمولانا دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کی کتابوں کا اسلوب دل پزیر ہے، سادہ، شگفتہ نثر میں جو کچھ انہوں نے لکھ دیاہے وہ ان کے وسیع المطالعہ ہونے کی واضح اور بین دلیل ہے،
مصر کے زمانہ قیام میں آپ کی وابستگی قاہرہ ریڈیو سے بھی رہی، جس نے آپ کی صحافتی مہارت اور نظریاتی تشکیل میں اہم رول ادا کیا۔کتابوں کے علاوہ مولانا کے بہت سارے مضامین و مقالات ہیں جو مختلف سیمیناروں میں پڑھے گئے اور مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوۓ۔
ان کو یک جا کرکے کتابی شکل دینا اور اہل علم کے استفادے کے لئے پیش کرنا، حضرت کے تلامذہ پر ایک بڑا قرض ہے، یہ قرض اگر اتر جائے تو علمی دنیا میں اضافہ درج کیا جائے گا، حال ہی میں مولانا کی ایک کتاب”مجالس علم و عرفاں”بھی شائع ہوئی تھی۔
مولانا کی علمی وادبی خدمات کی عند الناس بھی اچھی خاصی پذیرائی ہوئی، مصر کے زمانہ قیام میں مسابقۃ القرآن میں شرکت کرکے اول پوزیشن حاصل کرنے پر انعام کے طور پر حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی، ٢٠٠٢ء میں عربی زبان وادب میں مہارت کے اعتراف کے دور پر اس وقت کے صدر جمہوریہ اے پی جےعبدالکلام نے صدارتی ایوارڈ سے سرفراز کیا، ٢٠٠٥ء میں ان کے وطن کے نوجوان، علماء اور دانشوروں کی طرف سے مجاہد آزادی محمد شفیع بیرسٹر کے نام سے موسوم “شفیع بیرسٹر ایوارڈ”سے نوازا گیا، حج بیت اللہ کی سعادت کو چھوڑ کر مولانا کے قبول کرلینے کی وجہ سے یہ سارے ایوارڈ عزت پاگیے، اصل ایوارڈ تو اللہ ربّ العزت کی جانب سے دیا گیا ہوگا جنت کی کھڑکیاں کھول کر فرشتوں نے کہا ہوگا”نم کنومۃ العروس” دلہن کی طرح اطمینان سے سوجا۔
مولانا سے میری ملاقات کا دورانیہ کم و بیش پینتیس(٣٥) سال کا ہے، جمعیت شباب اسلام کے جنرل سیکرٹری ہونے کی وجہ سے میرا آنا جانا جمعیت کے مرکزی دفتر لکھنؤ ہوتا رہتا تھا، مولانا کی عبقریت و عظمت اور خوردوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہر سفر میں کبھی درسگاہ میں اور کبھی ان کی رہائش گاہ پر حاضری ہوتی اور ملاقات کی سعادت ملتی، بہار ان کا وطن اصلی تھا، اس لیے یہاں کے احوال و کوائف ، تعلیمی، سماجی، معاشی اور معاشرتی ترقی و تنزلی پر گفتگو ہوتی؛پھر کام کے حوالہ سے ضروری مشورے دیتے، ایک بار ہم لوگوں نے حضرت قاری مشتاق احمد صاحب بانی و ناظم مدرسہ عرفانیہ لکھنؤ کا سفر شمالی بہار کا طے کیا، انہیں خاص طور سے ویشالی اور مدھوبنی جانا تھا، جب ہم لوگ ان کے گاؤں ململ پہونچے تو وہاں مولانا پہلے سے تشریف فرما تھے، غالباً مولانا وصی احمد صدیقی رح سابق ناظم مدرسہ چشمۂ فیض ململ نے انہیں پہلے سے مدعو کررکھا تھا، اس موقع سے حضرت کی توجہ اور لطف و عنایات اس احقر پر بھی رہی، حضرت کے در دولت پر بھی حاضری ہوئی، ادھردوسال سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی، لاک ڈاؤن نے میرے پاؤں میں بیڑیاں لگا دیں، سفر موقوف رہا؛لیکن جب بھی ادھر سے کوئی جاتا تو خیریت دریافت کرتے رہتے، یہ ان کا بڑپن تھا، اس سے زیادہ لکھنے کی اب مجال نہیں ہے۔
بہت سخن ہائے گفتنی ہیں لیکن
ابھی مجال سخن نہیں ہے


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں