دعاؤں کا موسم

دعاؤں کا موسم

دعا کو مومن کے ہتھیار کہا گیا ہے، حقیقت میں ایک مجبور اور مظلوم انسان کے لیے دعا سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیں ہوتا، ہر طرف سے مایوس ہوکر بندہئ مومن اپنے خالق حقیقی کی طرف ہی دوڑتا ہے، اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے، اسی سے مدد مانگتا ہے، اسی کے در پر سر عجز و نیاز جھکاتا ہے، دعا کی اپنی انفرادیت ہے، اپنی شان ہے، اپنی اہمیت ہے، حدیث شریف میں اسے عبادت بھی کہا گیا ہے، فرمایا: ”الدعاء ھو العبادۃ“ (ابوداؤد) دعا ہی عبادت ہے۔ ایک حدیث میں اسے تمام عبادتوں کا جوہر، خلاصہ اور نچوڑ بھی فرمایا گیا: ”الدعاء مخ العبادۃ“ (سنن الترمذی) دعا عبادت کا مغز ہے۔
دیکھا جائے تو اصل دین دعا ہی ہے، اس میں توحید اپنی تمام حقیقتوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے، ایک بندے کا اپنے معبود حقیقی کے ساتھ جو رشتہئ احتیاج ہے، وہ فی الحقیقت دعا میں جھلکتا ہے، عاجزی اور انکساری، محتاجگی، اور بندگی جیسے الفاظ دعا کے سانچے میں ڈھل کر اپنا صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں، اسی لیے اللہ کو دعا کی عبادت بہت زیادہ پسند ہے، حدیث شریف میں ہے: لیس شیء اکرم علی اللہ تعالی من الدعاء۔ (کنز العمال: ۶۶۲، مجمع الزوائد: ۸۱۱) اللہ رب العزت کو دعا سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔
اللہ اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے مانگیں، اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائیں، اس کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں کا اظہار کریں، اپنی تمنائیں اور آرزوئیں اس کے سامنے رکھیں تا کہ وہ عطا کرے، وہ بغیر مانگے اتنا کچھ دیتا ہے، بلاطلب اس قدر نوازتا ہے، مانگنے پر کتنا دے گا، جب کوئی اس کے سامنے دست طلب دراز کرتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے، اور وہ بندے کو اس کی حیثیت سے زیادہ عطا کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے: ”تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے منھ پھیرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“ (المؤمن: ۶۰) اس آیت میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالی سے دعا مونگو، یہ صیغہئ امر ہے جو حکم دینے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اگر تم دعا مانگو گے تو میں قبول کروں گا، ایسا نہیں کہ تمہاری دعا رائیگاں جائے گی، بلکہ تمہیں اس در سے کچھ نہ کچھ ملے گا ضرور، ابھی یا کچھ وقت کے بعد، اسی دعاکی صورت میں جو تم نے مانگی ہے یا اس سے بھی بہتر شکل میں، بہ ہر حال تمہاری دعا قبول ضرور ہوگی، اگر تم نے مانگنے کے طریقے پر مانگی، تیسری بات یہ ہے کہ جو لوگ گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا ہیں، خود کو بڑا سمجھ کر دعا سے اعراض کرتے ہیں، میری عبادت نہیں کرتے وہ بہت جلد جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں، ذلیل و خوار ہو کر دوزخ میں جانے والے ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا مانگو تو اس یقین و اذعان کے ساتھ مانگو کہ وہ کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا، ہر ایک کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈالتا ضرور ہے، ”تمہارا پروردگار صاحب عزت و تکریم اور پیکر شرم و حیاء ہے، جب کوئی بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ وہ انھیں خالی اور نامراد لوٹا دے“ (ابوداؤد: ۲۸۷۴، رقم الحدیث: ۱۲۷۳) اللہ تعالی کو بندے کی یہ ادا بڑی پسند ہے کہ وہ اس سے مانگتا ہے، اسی کو منعم حقیقی سمجھ کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، ایسے بندوح کو یہ بتلا بھی دیا گیا ہے کہ اللہ ان سے بے حد قریب ہے، ان کی سن رہا ہے، ان کی دعائیں قبول بھی کر رہا ہے، مگر صرف دعائیں مانگنا ہی کافی نہیں ہے، کچھ اور تقاضے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے، قرآن کریم میں ہے: ”جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں (تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ) میں ان سے قریب ہوں، دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انھیں چاہیے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں، اور مجھ پر (پختہ) ایمان لائیں تا کہ وہ سیدھی راہ چل سکیں“ (البقرہ: ۱۸۶) یہ کتنا پیار بھرا انداز ہے رب کریم کا کہ اگر میرا کوئی بندہ میرے متعلق یہ پوچھتا ہے کہ میرا رب میری دعائیں سن رہا ہے یا نہیں تو آپ اس سے کہدیجئے کہ وہ تجھ سے بے حد قریب ہے، تیری دعائیں سنتا بھی ہے اور انھیں قبول بھی کرتا ہے، تیرا کام تو بس ایمان لانا اور اطاعت کرنا ہے۔
دوسری طرف جو لوگ اللہ سے مانگنے کو عار سمجھتے ہیں، اور اس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اللہ ان پر ناراض بھی ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے: ”جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔“ (سنن الترمذی: رقم الحدیث: ۳۲۹۵)
بعض اوقات ہم دعا مانگتے ہیں مگر دعا قبول نہیں ہوتی، اس سے مایوس نہ ہونا چاہئے، ہوسکتا ہے دعا قبول نہ ہونے ہی میں ہمارے لیے خیر ہو، یہ بھی ممکن ہے جو چیز ہم مانگ رہے ہوں، اس سے بھی بہتر چیز ہمیں دنیا یا آخرت میں ملنے والی ہو۔
رمضان کے ساتھ دعا کو خاص مناسبت ہے، ایک کو پورا ماحول ہی رمضان میں نور ایمان سے جگمگاتا رہتا ہے، دل گناہوں سے دور ہونے کی بنا پر نیکیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں، ان حالات میں آدمی خود بہ خود اپنے پروردگار کی طرف متوجہ رہتا ہے، کبھی نماز کے ذریعے، کبھی تلاوت کے ذریعے، کبھی ذکر کے ذریعے، کبھی صدقہ و خیرات کے ذریعے اور کبھی دعا کے ذریعے وہ اپنے رب کے حضور حاضر رہتا ہے، دعا کے لیے رمضان سے بہتر زمانہ کوئی دوسرا نہیں، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ سورہئ بقرہ کی جن آیات میں روزے کے احکام بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک آیت: ”وَ اذا سالَکَ عبادی“ بھی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے روزوں کے احکام پر عمل کے ساتھ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ دعا مانگیں، اس وقت جب خیر و خوبی کے ساتھ روزے مکمل ہوجائیں، یا ہر دن اس وقت جب روزہ تکمیل کو پہنچ رہا ہو، بلکہ یہ دوسری صورت زیادہ قرین قیاس ہے، کیوں کہ اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔
دعا مانگنے کے کچھ اداب ہیں، کچھ شرائط ہیں، کچھ اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے دعا قبول کرلی جاتی ہے، اور کچھ ایسے ہیں جن کی وجہ سے دعا رد کردی جاتی ہے، دعا مانگنے والے کو آداب دعا کی رعایت بھی رکھنی چاہئے، مثلاً یہ کہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا کرے، فخر موجودات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی خدمت عالیہ میں درود کا تحفہ بھیجے، اخلاص کے ساتھ مانگے، اس یقین کے ساتھ مانگے کہ دعا قبول ضرور ہوگی، دعا کے وقت دل پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہو، سوز و گداز کی کیفیت بھی مطلوب ہے، آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں تضرع بھی ہو، اپنی ہر ادا سے ہر کیفیت سے عاجزی و انکساری کا اظہار بھی کرے، بار بار گناہوں سے استغفار کرتا رہے، اس کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرے، دعا میں مسجع مقفع عبارتیں لانے کی ضرورت نہیں ہے، باوضو ہو کر قبلہ رُخ بیٹھے، ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے، پہلے اپنے لیے دعا مانگے پھر دوسروں کے لیے دعا کرے، دعا کے دوران اللہ کے اسماء الحسنی اور صفا ت عالیہ کا ذکر بھی جاری رہے، اپنے یا کسی نیک و صالح شخص کے اعمال صالحہ کا حوالہ بھیدے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا وسیلہ ضرور اختیار کرے، دعا کرنے والے کی غذا حلال ہونی چاہئے، قبولیت دعا کے لیے اعمال صالحہ کا خوگر ہونا ضروری ہے، دعا کرنے سے پہلے صلاۃ التوبۃ یا صلاۃ الحاجۃ پڑھ لینی چاہئے، دعا کے وقت آواز دھیمی رکھے، تمام مسلمانوں کو اپنی دعا میں شامل کرے، امید ہے ان آداب کی رعایت کے ساتھ مانگی جانے والی دعا قبول ہوگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں