بخشش اور رحمت کا مہینہ

بخشش اور رحمت کا مہینہ

ماہ رمضان صبر، عفو و درگزر، بخشش، رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔ جس طرح ہم خود اللہ کی بارگاہ میں معافی کے طلبگار ہوتے ہیں، اسی طرح طرح کیا ہی خوب عمل ہو کہ ستانے والوں کو از خود معاف کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔“ نیت جتنی خالص اور پاکیزہ ہوگی، بندہ مومن میں احساس و شعور اتنا ہی پاکیزگی والا ہوگا۔ نیت کا اخلاص اعمال کی اثر آفرینی، نیکی کی نشو و نما، نیکیوں کی بڑھوتری اور نتیجہ خیزی کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ جب تمام اعمال اللہ کی رضا کے لیے خالص کردے جائیں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ مزید برکتوں کا باعث بنتا ہے۔
ماہ رمضان میں بندہ مومن بدلے ہوئے معمولات سحری، افطاری کے مطابق اپنی ترجیحات کا تعین کرے، یہ ہمہ گیر تربیت کے ایام ہیں۔ تعصبات، نفرتوں، غیبتوں، مکر و فریب اور حلال و حرام کی تمیز کے خاتمے نے فرد، اولاد، خاندان، معاشرہ، ریاست اور امت کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ یہ نادر موقع ہے کہ ہر ہر اعتبار سے اصلاح کی تدابیر اختیار کی جائیں کہ یہ مبارک ساعتیں بخشش اور رحمت کا باعث بن جائیں۔
اللہ تعالی نے روزہ دار کو اس ماہ کی رحمتوں، برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کے لیے بے پناہ ترغیبات دی ہیں تا کہ ہر برائی، خرابی اور گناہوں سے بچنے کے لیے بعد رمضان اس میں سکت و ہمت قائم رہے۔ روزہ دار کو اللہ تعالی نے ہر ہر پہلو سے ہمت دینے اور نیک اعمال پر قائم رکھنے کے لیے نوید سنائی ہے تا کہ اچھے اعمال پھیلتے پھولتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیمات روزہ دار کے لیے بڑی استقامت کا باعث ہیں۔ ماہ رمضان دراصل جہنم سے آزادی کا پیغام ہے کہ اللہ کو راضی کیا جائے اور جنت کا مستحق بنا جائے۔
روزے دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک مسرت اور خوشی اسے دنیا میں افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ دن بھر بھوک پیاس رکھنے کے بعد جب وہ شام کو روزہ افطار کرتا ہے تو اسے جو لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے، وہ عام حالات میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کی بھوک پیاس بھی دور ہوجاتی ہے اور اسے یہ روحانی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے کہ اس کو اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کی توفیق ملی۔ روز محشر خدا سے ملاقات کی جو خوشی حاصل ہوگی، اس کا تو کہنا ہی کیا۔ روزے کی حالت میں منہ کی بو خراب ہوجاتی ہے لیکن اللہ تعالی کی نگاہ میں وہ مشک کی خوشبو سے کہیں زیادہ قابل قدر ہے، اس لیے کہ اس کے پیچھے خدا کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کی طلب کے سوا کوئی اور جذبہ کام نہیں کررہا تھا۔ روزے کی حیثیت ڈھال کی ہوتی ہے۔ جس طرح ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وار سے اپنے کو بچاتا ہے، اسی طرح روزہ شیطان اور نفس کے حملوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزے کے آداب کا آدمی لحاظ رکھے تو وہ روزے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے محفوظ ہوسکتا ہے اور آخرت میں آتش دوزخ سے نجات پاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ مہینہ عظمت والا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں رحمت خداوندی پورے جوش اور جوبن پر ہوتی ہے۔ اس میں ایک شب ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے جو ہزاروں مہینوں سے افضل ہے۔ جس میں فرض کی ادائی ستر گنا اور نوافل فرض کے برابر ہیں۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے رہائی کا ہے۔ اس لیے اللہ کو راضی کرنے کے لیے عبادت، ذکر و اذکار اور استغفار کثرت سے کیا جائے۔
رمضان المبارک کا آخری عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام، شب قدر کی تلاس، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ رمضان المبارک آنے والے گیارہ مہینوں میں شیطانی، اسلام دشمنی، سیکولر، لبرل، مادہ پرست قوتوں، نظام و ماحول کے مقابلہ کے لیے قوت و طاقت کا باعث بنتا ہے۔ اعتکاف روحانی قوت کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کو اس مبارک مہینہ سے خاص نسبت ہے۔ نماز، عبادات کے ساتھ اللہ کے دیے مال میں سے زکوۃ، عشر، صدقات کا اہتمام کرنا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑی عبادت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر فیاض و سخی تھے۔ اس مہینہ میں سخاوت و فیاضی عروج پر آجاتی تھی۔ صدقہ فطر عید سے پہلے ہی ادا کیا جائے۔ انفاق فی سبیل اللہ غربا، مستحقین، ناداروں، مساکین کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا اہتمام ہے۔ دعوت افطار کا اہتمام خصوصا گھروں پر اولاد کے ساتھ، خاندان کے افراد کے ساتھ، ہمسایوں، اہل آبادی کے ساتھ دعوت دین، بھائی چارے، تعصبات اور شدت جذبات کو معمول پر رکھنے کا ذریعہ ہے۔
روزہ کی عبادت فرد میں ہمہ گیر تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے اگر ضبط نفس انسان میں نہ ہو تو اس کے اندر تقویٰ کی کیفیات پیدا نہیں ہوتیں۔ خواہشات نفس پر غلبہ پانے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی کو محض اہل ایمان کو بھوکا اور پیاسا رکھنا ہی مطلوب نہیں بلکہ روزہ اس چیز کا نام ہے کہ ہر چیز سے توجہ ختم کرکے کامل طور پر اللہ کی طرف ہی متوجہ ہوجائیں۔ زبان، کان اور شرمگاہ کی حفاظت سے روزہ کی حفاظت کی جائے۔ روزہ کی کیفیت میں انسان بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرکے اپنی خواہشات پر قابو پانے اور اللہ کے احکامات کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تربیت اسی لیے تو ہے کہ انسان صبر و استقامت کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور اس راستہ میں درپیش تکالیف و مصائب کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں