سحری کے احکام

سحری کے احکام

سحری کی فضیلت
سحری کھانا سنت اور باعث برکت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے، اس لیے سحری کا اہتمام ہونا چاہیے، اس سے روزہ رکھنے میں قوت بھی رہتی ہے، اگر دل نہ بھی چاہے تب بھی کچھ نہ کچھ کھاپی لینا چاہیے، بھلے پانی ہی پی لے تب بھی کافی ہے، لیکن اگر کسی نے نہار منہ ہی روزہ رکھ لیا تب بھی درست ہے۔ (صحیح البخاری حدیث: 1923، مسند احمد حدیث: 11086، مراقی الفلاح، بہشتی زیور)

سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟
سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے لوگ لاعلمی کا شکار ہیں اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ وہ زندگی بھر غلطی میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس غلطی کی وجہ سے ان کے روزے درست ہی نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص روزے رکھتا رہے لیکن اس کی اپنی ہی غلطیوں کے نتیجے میں اس کے یہ روزے شریعت کی نگاہ میں درست نہ ہوں۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے سے بھی آگاہی حاصل کرے تا کہ وہ غلطی سے محفوظ ہوسکے۔ آیئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تا کہ غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ ہوسکے۔

سحری کا وقت رات ہی ہے:
قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے کہ جب تک رات ہے تو سحری کی جاسکتی ہے، لیکن جیسے ہی رات ختم ہوجائے تو سحری کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے، اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ صبح صادق ہوتے ہی رات ختم ہوجاتی ہے اور دن شروع ہوجاتا ہے۔ اس بات کو قرآن و سنت اور دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں سحری اور افطاری سے متعلق فرماتے ہیں کہ:
«وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ» (سورہ البقرہ، 187)
ترجمہ: اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو۔ (آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت میں اللہ تعالی نے رات کو سیاہ دھاگے، جبکہ صبح صادق کو سفید دھاگے سے تشبیہ دی ہے اور کھانے پینے کی آخری حد بھی بیان فرمادی ہے کہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک صبح صادق طلاع نہ ہوجائے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کھانا پینا رات ہی کو درست ہے، اور جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔ اس آیت سے سحری کا آخری وقت بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے، اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ سحری بند کرنے کا تعلق صبح صادق کے ساتھ ہے نہ کہ اذان کے ساتھ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اذان بھلے نہ ہوئی ہو لیکن صبح صادق ہوچکی ہو ت واس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
سحری کھانے کا آخری وقت:
حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ: اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط، اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا، اور اس میں افراط و تفریط کے احتمالات کو ختم کرنے کے لیے ” حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ“ کا لفظ بڑھادیا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے و غیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بے فکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو، بلکہ کھانے پینے او رروزہ کے درمیان حدِّفاصل صبح صادق کا تیقُّن ہے، اس تیقُن سے پہلے کھانے پینے کو حرام سمجھنا درست نہیں، اور تیقن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لیے مفسد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لیے ہو۔ سحری کھانے میں وسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو۔ بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بے پروائی سے کھاتے رہے، یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لیے کہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔ (معارف القرآن)
۲۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ سیاہ دھاگے سے مراد را ت کی تاریکی ہے جب سفید دھاگے سے مراد دن کی روشنی ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
صحیح بخاری:
4510: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا الخَيْطُ الأَبْيَضُ، مِنَ الخَيْطِ الأَسْوَدِ أَهُمَا الخَيْطَانِ، قال ‏إنك لعريض القفا إن أبصرت الخيطين‏‏.‏ ثم قال ‏لا بل هو سواد الليل وبياض النهار‏‏.‏
صحیح مسلم:
2585: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ} [البقرة: 187] مِنَ الْفَجْرِ قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ: عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ، وَبَيَاضُ النَّهَارِ»
۳۔ اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات اور سفید دھاگے سے مراد دن ہے۔
2587: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ} [البقرة: 187] قَالَ: ” فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ الصَّوْمَ، رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الْأَسْوَدَ وَالْخَيْطَ الْأَبْيَضَ، فَلَا يَزَالُ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رِئْيُهُمَا فَأَنْزَلَ اللهُ بَعْدَ ذَلِكَ: {مِنَ الْفَجْرِ} [البقرة: 187] فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ “
اس آیت اور احادیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ سحری بند کرنے کا صحیح وقت رات کو ہے نہ کہ دن کو۔
۴۔ اس آیت کو امت کے جمہور اہل علم نے ایک متفقہ اصول قرار دیا ہے، اور یہی جمہور اہل علم کا مذہب ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق رات سے ہے نہ کہ دن سے، اور صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
و ذھب الجمهور إلی امتناع السحور بطلوع الفجر و ھو قول الأئمة الأربعة و عامة فقهاء الأمصار۔
کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا جانائز ہے، یہی چاروں ائمہ کرام اور دیگر فقہائے عظام کا مذہب ہے۔ (حاشیۃ ابن القیم علی سنن ابی داود)
۵۔ سورۃ البقرہ کی اسی آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
« حِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ» (سورۃ البقرۃ، 187)
ترجمہ: تمہارے لیے روزے کی رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ ہمبستری جائز قرار دی گئی ہے۔
اس آیت میں جب اللہ نے روزے کی رات کو بیوی کے ساتھ ہمبستری کی اجازت دی ہے تو گویا کہ کھانے پینے کی اجازت بھی رات ہی کو ہے، جیسا کہ دن کو ہمبستری کی اجازت نہیں دی اسی طرح کھانے پینے کی اجازت بھی نہیں ہے، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ رات صبح صادق تک ہی ہوتی ہے، صبح صادق کے بعد تو دن شروع ہوجاتا ہے۔
۶۔ روزہ در حقیقت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والے امور سے بچنے کا نام ہے۔ (ردالمختار) اس لیے صبح صادق ہوتے ہی روزہ شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص صبح صادق ہوجانے کے بعد کچھ کھاتا پیتا ہے تو وہ در حقیقت دن ہی کو کھاتا پیتا ہے حالاں کہ دن روزے کے لیے ہے نہ کھانے پینے کے لیے، تو گویا کہ روزے کی حقیقت او رتعریف اس میں نہیں پائی گئی تو یہ روزہ ہوا ہی نہیں۔
۷۔ شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
صبح صادق کے بعد اگر ایک منٹ بھی مزید کھالیا تو روزہ فاسد ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ۲/۸۸۱)

اذان کے دوران سحری بند کرنے سے متعلق ایک حدیث اور اس کی صحیح تاویل:
جہاں تک سنن ابی داود کی اُس حدیث کا تعلق ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے“۔ تو موجودہ دور میں اس حدیث کو لے کر بعض حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فجر کی اذان کے دوران بھی سحری بند کی جاسکتی ہے، تو اس حوالے سے چند باتیں سمجھنے کی ہیں:
٭ اس حدیث شریف کا ایسامطلب بیان کرنا کہ جو قرآن و سنت کے واضح اصول اور دیگر دلائل کے خلاف ہو یا ان کے مابین باہمی ٹکراؤ کی صورت پیدا کرے، ظاہر ہے کہ یہ ہرگز درست نہیں، اور نا ہی یہ شریعت کا تقاضا ہوسکتا ہے۔
٭ خصوصاً جب کہ اس حدیث میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہا ہو کہ اس حدیث کا تعلق سحری بند کرنے کے ساتھ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس سے سحری ہی مراد لینا کسی طرح درست نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ جمہور اہلِ علم نے اس حدیث سے یہ معنی مراد لیا ہی نہیں کہ صبح صادق کے بعد اذان کے دوران یا اس کے بعد بھی سحری بند کی جاسکتی ہے، بلکہ اہلِ علم نے اس حدیث کے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں، تا کہ اس حدیث شریف کا قرآن کے واضح اصول اور دیگر احادیث سے باہمی ٹکراؤ بھی پیدا نہ ہو اور حدیث کا صحیح مطلب بھی واضح ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس کو نہ رکھے بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے“، یعنی اذان ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اذان کی وجہ سے عام کھانا پینا چھوڑ دے اور اذان کا جواب دے بلکہ وہ اس دوران بھی کھا پی سکتا ہے، گویا کہ یہ حدیث عام اذان سے متعلق ہے۔ (ماہ رمضان کے فضائل و احکام از مفتی محمد رضوان صاحب)
٭ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ اس حدیث کا تعلق سحری کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں امام بیہقی رحمہ اللہ جمہور اہل علم کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کے نزدیک اس حدیث کا تعلق اس اذان کے ساتھ ہے جو کہ صبح صادق سے پہلے دی گئی ہو۔ (زجاجۃ المصابیح) کیوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں دو اذانیں دینے کا رواج رہا: ایک صبح صادق سے پہلے جو کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے تھے، اور دوسرے صبح صادق کے بعد جو کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے، جس کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے، اور جب صبح صادق سے پہلے بھی ایک اذان دی جانے کا رواج تھا تو ایسی صورت حال میں بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا صحیح وقت واضح فرمایا تا کہ لوگ کہیں غلطی میں مبتلا نہ ہوں، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ:
«إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ» (صحیح مسلم حدیث: 1092)
کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، اس لیے اس وقت تک کھا پی سکتے ہو جب تک ابن ام مکتوم کی اذان نہ ہوجائے، (کیوں کہ وہ فجر کے بعد اذان دیتے تھے۔)
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے کہ:
«لَا يَغُرَّنَّ أَحَدَكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ مِنَ السَّحُورِ، وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَسْتَطِيرَ» (حدیث: 1094)
کہ تمہیں بلال کی اذان اور صبح کا کاذب کہیں غلطی میں نہ ڈال دیں یہاں تک کہ فجر طلوع نہ ہوجائے۔
(نوٹ: صبح صادق سے کچھ لمحات پہلے ایک روشنی سی نمودار ہوتی ہے جو عمودی شکل میں ہوتی ہے، جس سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ صبح صادق ہوچکی ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ غائب ہوجاتی ہے، اس کو صبح کاذب کہا جاتا ہے۔)
اس سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داود کی اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے وہ اذان مراد ہے جو کہ صبح صادق سے پہلے دی جاتی تھی کہ جب یہ اذان ہوجائے اور تمہارے ہاتھ میں برتن ہو تو تم اس کو نہ رکھو بلکہ اپنی حاجت پوری کرلیا کرو، کیوں کہ ابھی تک صبح ہوئی ہی نہیں ہے۔
یہ مطلب مراد لینے کے بعد حدیث کا صحیح مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے اور قرآن و حدیث میں باہمی ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی۔

سحری میں تاخیر افضل ہونے کی وضاحت:
احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سحری میں تاخیر کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے۔ (صحیح ابن حبان حدیث: 1770) اس سے بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا ہے کہ صبح صادق کے بعد اور اذان کے ساتھ بھی سحری بند کرسکتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث شریف بھی پیش کرتے ہیں، تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ احادیث کے رو سے سحری میں تاخیر کرنا افضل ہے لیکن اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ سحری میں اتنی تاخیر کی جائے کہ صبح صادق ہی طلوع ہوجائے، اس کی متعدد وجوہات ہیں:
٭ تاخیر سے سحری کرنے کا یہ مطلب قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں کہ صبح صادق کے بعد بھی کھایا پیا جائے، بلکہ قرآن و سنت سے اس کے برعکس یہی معلوم ہوتا ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے، اس لیے سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے۔
٭ جب تاخیر سے سحری کرنا افضل ہے تو بظاہر ہے کہ تاخیر کی کوئی حد بھی تو ہوگی، کیوں کہ اگر تاخیر کی کوئی حد مقرر نہ ہو تو پھر ایک آدمی صبح سورج نکلنے کے بعد کھا پی کر یہ کہہ سکتا ہے کہ سحری میں تاخیر افضل ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کی اس بات کو کون تسلیم کرسکتا ہے؟؟ اس لیے اس تاخیر کی بھی ایک حد ہے، اور وہ حد یہی ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک آپ کھا پی سکتے ہیں، اس کے بعد نہیں، اور یہ حد قرآن و سنت کے واضح دلائل سے ثابت ہے، جیسا کہ تفصیل بیان ہوچکی۔
٭ احادیث سے جو یہ بات ثابت ہے کہ تاخیر سے سحری کرنا افضل ہے کا معنی یہ ہے کہ بعض لوگ صبح صادق سے ڈھائی تین گھنٹے پہلے یا آدھی رات ہی کو سحری سے فارغ ہوجاتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے لیکن بہتر اور زیادہ فضیلت کی بات یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے کے قریب قریب سحری کرے اور جب رات ختم ہونے لگے تو صبح صادق سے پہلے پہلے سحری بند کرلے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں سحری کے احکام
سحری کا وقت رات ہی کو ہے:
جب صبح صادق طلوع ہونے کا وقت قریب آتا ہے اور رات ختم ہونے لگتی ہے تو رات ختم ہونے سے پہلے پہلے سحری بند کرلینی ضروری ہے، کیوں کہ سحری کا وقت رات کو ہے نہ کہ صبح کو، اس لیے جو لوگ صبح صادق کا وقت داخل ہوجانے کے بعد بھی کھاتے پیتے ہیں اور ان کا روزہ ہرگز درست نہیں۔ (اعلاء السنن، ماہ رمضان کے فضائل و احکام از مفتی محمد رضوان صاحب، فتاویٰ عثمانی)

فجر کی اذان کے دوران سحری بند کرنے کا حکم:
بعض حضرات فجر کی اذان کے دوران بھی کھاتے پیتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اذان ختم نہ ہوجائے اس وقت تک سحری کا وقت باقی رہتا ہے، یاد رہے کہ یہ کھلی غلطی ہے، کیوں کہ اذان صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد ہوتی ہے جبکہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے، اس لیے جو لوگ اذان کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں وہ درحقیقت رات کے بجائے صبح کو سحری بند کررہے ہوتے ہیں حالاں کہ اوپر تفصیل سے معلوم ہوچکا سحری کا وقت رات ہی کو ہے نہ کہ دن، اس لیے ایسے حضرات کا روزہ ہرگز درست نہیں۔

سحری بند کرنے میں فجر کی اذان کا کوئی اعتبار نہیں:
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ سحری بند کرنے میں اصل اعتبار اذان کا نہیں بلکہ صبح صادق کا ہے کہ جب صبح صادق طلوع ہوجائے اس کے بعد کھانے پینے سے روزہ ہوتا ہی نہیں، اگرچہ اذان نہیں ہوئی ہو، کیوں کہ اذان تو صبح صادق کے بعد ہی ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح بعض مساجد میں صبح صادق سے پہلے ہی فجر کی اذان دے دیتے ہیں، ایسی صورت میں بھی اصل اعتبار صبح صادق ہی کا ہوگا کہ اگرچہ اذان ہوچکی ہو لیکن چوں کہ صبح صادق طلوع نہیں ہوا ہوتا اس لیے صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک سحری کھانا جائز ہے۔ (امداد الفتاویٰ، ماہ رمضان کے فضائل و احکام از مفتی محمد رضوان صاحب)
تنبیہ: بہتر یہ ہے کہ صبح صادق طلوع ہونے سے چند منٹ پہلے روزہ بند کرلیا جائے تا کہ احتیاط رہے۔

جنابت کی حالت میں روزہ رکھنے کا حکم:
جنابت کی حالت میں بھی روزہ رکھنا درست ہے، اگر کسی شخص کو سحری کے وقت غسل کرنے کی حاجت ہو تو بہتر یہ ہے کہ غسل کرکے سحری کرلے، لیکن اگر غسل کرنے کا موقع نہ ہو تو منہ ہاتھ دھوکر سحری کرلے، اور غسل بعد میں کرلے اگر چہ یہ غسل صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ (ردالمختار، مراقی الفلاح)

سحری اور افطاری سے متعلق نہایت ہی قیمتی اور اہم مشورے
۱: بہترین صورت یہ ہے کہ سحر و افطار کے اوقات سے متعلق اپنے شہر کا کوئی مستند نقشہ اپنے پاس رکھا جائے، پھر اسی نقشے کا اعتبار کرتے ہوئے سحر و افطار کا اہتمام کیا جائے کہ نقشے میں جو صبح صادق کا وقت لکھا ہوتا ہے اس سے پہلے روزہ بند کرلیا جائے، اور جو مغرب کا وقت لکھا ہوتا ہے اس سے پہلے ہرگز افطاری نہ کی جائے، ان باتوں پر عمل کرکے غلطی سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ سحر و افطار کے اوقات معلوم کرنے کے لیے اپنے شہر کے کسی معتبر نقشے سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائے جس میں سحر و افطار کے اوقات درج ہوں۔
۲: بعض مساجد کی گھڑیاں اپنے ملک کے معیاری وقت کے مطابق نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے متعدد خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے مساجد کی گھڑیاں ملک کے معیاری وقت کے مطابق رکھنی چاہیے، اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی گھڑیاں اپنے ملک کے معیاری وقت کے مطابق کرلیں کیوں کہ نقشے اسی معیاری وقت کے مطابق ہی بنائے جاتے ہیں۔
۳: مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سحری میں صبح صادق شروع ہونے سے تقریباً پانچ منٹ پہلے سائرن و غیرہ کے ذریعے اطلاع دینے کی صورت اختیار کی جائے اور عوام کو مطلع کیا جائے کہ سحری بند ہونے سے پانچ منٹ پہلے سائرن و غیرہ کے ذریعے اطلاع دی جائے گی، اس طرح جب سائرن و غیرہ کا اہتمام ہوگا تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ سحری پانچ منٹ کے اندر اندر بند کرلینی ہے، اس سے عوام کے روزے محفوظ ہوسکیں گے۔

اشاعت: تحفہ ماہ رمضان المبارک از مبین الرحمن
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی- متخصص جامعہ اسلامیہ طیبہ کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں