بچوں کے ساتھ شفقت اور حسن سلوک کی فضیلت

بچوں کے ساتھ شفقت اور حسن سلوک کی فضیلت

اسلام جس طرح بڑوں ، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کرنے اور اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے ، اسی طرح چھوٹے،کم سن اور معصوم بچوں کے ساتھ بھی شفقت و مہربانی اور حسن سلوک کی ترغیب دیتا ہے۔ اورجس طرح ہمارے بڑے، بو ڑھے اور عمر رسیدہ بزرگ حضرات ہماری توجہ کا مرکز ہیں، اسی طرح ہمارے کم سن ، چھوٹے اور معصوم بچے بھی ہمارے لاڈ پیار، شفقت و محبت اور حسن سلوک کے حق دار ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر شعبہٴ زندگی کے افراد کے ساتھ حسن سلوک مثالی اور قابل تقلید تھا ہی،لیکن کم سن، چھوٹے اور معصوم بچوں کے ساتھ جو آپ کا حسن سلو ک اورلاڈ پیارتھاوہ بھی خاصا قابل رشک و قابل دید تھا۔

چناں چہ حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ: ”میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضورصلی الله علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بیان فرمارہے تھے کہ اتنے میں حضرت حسین بن علی  (گھر سے) نکلے ، اُن کے گلے میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، جو لٹک رہا تھا اور زمین پر گھسٹ رہا تھا کہ اُس میں اُن کا پاوٴں اُلجھ گیااور وہ زمین پر چہرے کے بل گرگئے ۔ حضورصلی الله علیہ وسلم اُنہیں اُٹھانے کے ارادے سے منبر سے نیچے اُترنے لگے۔صحابہ نے جب حضرت حسین کو گرتے ہوئے دیکھا تو اُنہیں اُٹھا کرحضورصلی الله علیہ وسلمکے پاس لے آئے ، حضور صلی الله علیہ وسلمنے اُنہیں لے کر اُٹھا لیا اور فرمایا : ”شیطان کو اللہ مارے ! اولاد تو بس فتنہ اور آزمائش ہی ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہ چلا کہ میں منبر سے کب نیچے اُتر آیا، مجھے تو بس اُس وقت پتہ چلا جب لوگ اس بچے کو میرے پاس لے آئے۔“(معجم طبرانی)

حضرت ابو سعید  فرماتے ہیں کہ: ”ایک مرتبہ حضورصلی الله علیہ وسلم سجدے میں تھے کہ حضرت حسن بن علی آکر آپ صلی الله علیہ وسلمکی پشت مبارک پر سوار ہوگئے، پھر حضورصلی الله علیہ وسلم اُنہیں ہاتھ سے پکڑ کر کھڑے ہوگئے ، پھر جب حضورصلی الله علیہ وسلمرکوع میں گئے تو وہ حضورصلی الله علیہ وسلم کی پشت پر کھڑے ہوگئے، پھر حضورصلی الله علیہ وسلمنے اُٹھ کر اُنہیں چھوڑدیاتو وہ چلے گئے۔“ (مسند بزار)

حضرت زبیر  فرماتے ہیں کہ: ” میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلمسجدے میں ہیں کہ اتنے میں حضرت حسن بن علی آکر حضورصلی الله علیہ وسلمکی پشت مبارک پر سوار ہوگئے، آپصلی الله علیہ وسلمنے اُنہیں نیچے نہ اُتارا(بلکہ یوں ہی آپصلی الله علیہ وسلم سجدے میں رہے) یہاں تک کہ وہ خود ہی نیچے اُترے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم اُن کے لیے دونوں ٹانگیں کھول دیا کرتے اور وہ ایک طرف سے آکر حضور صلی الله علیہ وسلمکے نیچے سے گزر کر دوسری طرف سے نکل جاتے۔“(معجم طبرانی)

حضرت اسود بن خلف فرماتے ہیں کہ: ”ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلمنے حضرت حسن بن علی کو پکڑ کر اُن کا بوسہ لیا ، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”آدمی اولاد کی وجہ سے کنجوسی کرتا ہے اور نادانی والے کام کرتا ہے(بچوں کی وجہ سے لڑ پڑتا ہے) اور اولاد کی وجہ سے آدمی بزدلی اختیار کرلیتا ہے(کہ میں مرگیا تو میرے بعد بچوں کا کیا ہوگا؟)(مسند بزار)

حضرت انس  فرماتے ہیں کہ: ”حضورصلی الله علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ شفقت کرتے تھے۔ حضورصلی الله علیہ وسلم کا ایک صاحب زادہ تھا، جو مدینہ کے کنارے کے محلے میں کسی عورت کا دودھ پیا کرتا تھا ، اس عورت کا خاوند لوہار تھا ، ہم اُسے ملنے جایا کرتے تو اُس لوہار کا سارا گھر بھٹی میں اِذخر نامی گھاس جلانے کی وجہ سے دھوئیں سے بھرا ہوا ہوتا تھا ۔ حضورصلی الله علیہ وسلم اپنے اس بیٹے کو چوما کرتے اور ناک لگاکر اسے سونگھا کرتے تھے۔“(الادب المفرد)

حضرت ابو قتادہ  فرماتے ہیں کہ: ”ایک مرتبہ نبی کریمصلی الله علیہ وسلمباہر ہمارے پاس تشریف لائے ، آپصلی الله علیہ وسلمکے کندھے پر (آپصلی الله علیہ وسلمکی نواسی) حضرت اُمامہ بنت ابی العاص بیٹھی ہوئی تھیں، آپصلی الله علیہ وسلمنے اسی طرح نماز پڑھنی شروع کردی، جب رکوع میں جاتے تو اُنہیں نیچے اُتار دیتے اور جب (سجدے سے) سر اُٹھاتے تو اُنہیں پھر اُٹھاکر بٹھالیتے۔“ (صحیح بخاری: 2/887)

حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ : ”میں نے دیکھا کہ حضورصلی الله علیہ وسلم حضرت حسن بن علی کی زبان اور ہونٹ کو چوس رہے تھے اور جس زبان اور ہونٹ کو حضورصلی الله علیہ وسلم نے چوسا ہو اُسے کبھی عذاب نہیں ہوسکتا۔“ (مسند احمد)

حضرت انس فرماتے ہیں کہ: ”ایک دن ہم (میں، میری والدہ اور میری خالہ اُم حرام) نبی کریم صلی الله علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئے…آپ صلی الله علیہ وسلمکے گھر والوں نے ہمارے لیے دُنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی دعا کی۔ میری والدہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ! آپ صلی الله علیہ وسلمکا یہ چھوٹا سا خادم انس ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے لیے دُعا فرمایئے! اس پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے میرے لیے ہر طرح کی بھلائی کی دُعا فرمائی اور آخر میں فرمایا: ”اے اللہ! اس کے مال اور اس کی اولاد میں کثرت عطا فرمااور اس کو برکت نصیب فرما“ ۔(الادب المفرد)

حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ: ”ایک آدمی حضور صلی الله علیہ وسلمکی خدمت میں آیا، اُس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا ، جسے وہ (ازراہِ شفقت) اپنے ساتھ چمٹانے لگا۔ حضورصلی الله علیہ وسلمنے پوچھا: ”کیا تم اِس بچے پر رحم کر رہے ہو؟“اُس نے کہا: ”جی ہاں!۔“ حضورصلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم اس پر جتنا رحم کھا رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ تم پر رحم فرمارہے ہیں۔ وہ تو ارحم الراحمین ہیں۔ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم فرمانے والے ہیں۔“ (الادب المفرد)

حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیاں لے کرحضرت عائشہ  کے پاس آئی، حضرت عائشہ نے اُسے تین کھجوریں دیں، اُس نے ہر بیٹی کو ایک کھجور دی اور ایک کھجور اپنے منہ میں رکھنے لگی ، وہ دونوں بچیاں اُسے دیکھنے لگیں ، اِس پر اُس نے (اِس کھجور کو نہ کھایا، بلکہ) اُس کھجور کے دو ٹکڑے کرکے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا اور چلی گئی۔ پھر حضورصلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو اُس عورت کا یہ قصہ اُنہوں نے حضورصلی الله علیہ وسلمکو بتایا۔ حضورصلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: ”وہ اپنے اِس (مشفقانہ رویہ کی) وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی ہے۔“(مسند بزار)

حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ: ”ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حسن کا بوسہ لیا تو حضرت اقرع بن حابس نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: ”میرے تو دس بچے پیدا ہوئے ہیں ، میں نے تو اُن میں سے ایک کا بھی کبھی بوسہ نہیں لیا۔“ حضورصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم نہیں فرماتے۔“(معجم طبرانی)

حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں اُن کے والد (ایک مرتبہ بچپن میں) اُن کو لے کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، وہ اُنہیں گود میں لیے ہوئے تھے، اُن کے والد نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمسے عرض کیا : ”یا رسول اللہ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے نعمان کو یہ یہ چیزیں دے دیں۔“ آپصلی الله علیہ وسلمنے پوچھا: ”تم نے اپنے سارے بچوں کو دیا ہے؟۔“ عرض کیا کہ: ”نہیں!۔“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر کسی اور کو گواہ بناوٴ!۔“اس کے بعد آپصلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہارے سارے بچے تمہارے ساتھ حسن سلوک کرنے میں برابر ہوں ؟۔“ عرض کیا: ”کیوں نہیں!۔“ تو آپصلی الله علیہ وسلمنے فرمایاکہ : ” پھر ایسا نہ کرو!“(الادب المفرد)

حاصل یہ کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کرنا،اُن کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا، اُن پر شفقت و مہربانی کرنا،اُن کے ساتھ حسن سلوک میں برابری کرنا قرآن وحدیث اوراسلامی تعلیمات کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے ، اس سے جہاں ایک طرف بچوں سے معمور گھر ہنستا مہکتا ہے تو وہیں دوسری طرف اِس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ رحمتوں ا ور برکتوں کی ٹھنڈی اور تازہ ہوائیں چلادیتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں