تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں

تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں

’’خولہ آپی! ہم دونوں مل کر امی ابو سے پہلے سعی کریں؟‘‘
’’حسان بھائی! میری عیدی میں سے دو ریال لے کر ناشتہ لے آؤ۔‘‘
’’رمیشہ آپی! چھوڑو ناں ہم لڑائی نہیں کرتے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘
یہ معصومیت سے پر چند الفاظ میری گیارہ سالہ حافظہ، عالمہ بہن سہیمہ کے ہیں۔ جب وہ ڈیڑھ دو سال کی تھی تو امی اس کو چھوٹا سا اسکارف پہنا کر تعلیم کے حلقے میں لے کر جاتیں تو خواتین اتنی چھوٹی اور سنجیدہ سی بچی دیکھ کر حیران ہوتیں بلکہ بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’یہ بچی چھوٹی بزرگ ہے۔‘‘ بے اختیار منہ سے نکلنے والے الفاظ کبھی کبھار حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ سہیمہ ہم سب کی آنکھوں کی تارا تھی، کبھی بھی کسی نے اس کو لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا، ہاں البتہ صلح صفائی میں وہ آگے آگے ہوتی۔ پہلی شوال عید کے دن کی پیدائش تھی اور گیارہویں سال ذیعقدہ میں وہ جنتی پریوں کی سہیلی بن گئی۔
آہ۔۔۔ کیسے لکھوں؟ کیا لکھوں؟ زخم پر ابھی تک کھرنڈ کے آثار بھی نہیں، اللہ! تیرے رحم کرم کے سوالی ہیں!
سہیمہ کی پیدائش مسجد نبوی کے بالکل سامنے مستشفی ولادہ میں ہوئی (جو کہ اب منہدم ہوچکا ہے) عید کا دن تھا، شیخ صلاح البدیر کا خطبہ جاری تھا اور اللہ پاک نے ہمیں انوکھی عیدی سے نوازا تھا۔
اب ہماری سہیمہ گنبد خضرا کے سامنے جنت البقیع میں آرام کر رہی ہے، سہیمہ کو امی نے قرآن حفظ کروایا تھا اور عالمہ کورس میں اس نے ایک سال مکمل کیا جس میں ساری اہم کتابیں پڑھادی گئی تھیں۔ سال میں جتنے بھی امتحانات ہوئے، سہیمہ کے سو فیصد نمبر آتے تھے، معلمات اس پر جان چھڑکتی تھیں، سہیمہ تھی تو چھوٹی سی لیکن شرم و حیا کی پوٹلی تھی، سیرت پڑھانے والی باجی اس کو دلہن کہہ کر اس لیے چھیڑتیں کہ شرماتے ہوئے کتنی پیاری لگتی ہے۔
ختم قرآن کی تقریب میں وہ نظر لگ جانے والی حد تک پیاری لگ رہی تھی، امی نے اس کو تاج بھی پہنایا تھا، جمعے کی آخری گھڑیوں میں ختم قرآن کی دعا ہوئی تھی اور جمعے کے دن ہی آخری گھڑیوں میں وہ اللہ کو پیاری ہوئی، ان للہ ما اخذ و لہ ما اعطی و کل شیء عندہ باجل مسمی۔
آہ۔۔۔ کیسا قیامت خیز منظر تھا اور رلادینے والا دن تھا! میرے دونوں بھائی اللہ کے راستے میں طلبہ کی جماعت کے ساتھ گئے ہوئے تھے، ابو ایمرجنسی میں سہیمہ کو ہسپتال لے کر گئے تھے، امی سجدے میں گر کر دعائیں مانگ رہی تھیں اور میں۔۔۔ مجھے کوئی دعا یاد ہی نہیں آرہی تھی، دماغ سن، لب سلے ہوئے، زبان بند، بس اپنی چھٹی حس سے بہت خوف آرہا تھا اور اسے جھٹلا رہی تھی جو کہ یہ پیغام دے رہی تھی کہ ہمارے سہیمہ ہم میں نہیں رہی،وہی ہوا جو کہ منظور خدا تھا، عشا کے قریب ماموں کا مستثفی انصار سے فون آیا کہ صبر کرو۔
سہیمہ اور عبادہ میں ایک سال کا فرق ہے، عبادہ کے دنیا میں آنے کے بعد امی کی توجہ سہیمہ پر پہلے جیسی نہیں رہی تھی تو وہ رفتہ رفتہ مجھ سے بہت قریب ہوگئی تھی، ایک دوسرے سے الگ سونا ہم دونوں کو ہی گوارا نہ تھا حتی کہ جب ہم مکہ جاتے تو ہوٹل میں ایسی جگہ کی تلاش ہوتی جہاں وہ اپنا سر میرے ہاتھ پر رکھ کر سو سکے، ہماری پسند ناپسند ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، حیرت انگیز طور پر سومی اپنے جانے سے دو تین مہینے پہلے مجھے چھوڑ کر امی کے پاس ضد کر کے سونے لگی تھی وہ کسی کو بھی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی نا اس لیے اس کو خیال آیا ہوگا کہ اپنے رخصت ہونے سے پہلے بڑی آپ کو اکیلے سونے کی عادت ڈال دوں۔
سومی کی تعزیت میں آئیں ایک عرب خاتون کہنے لگیں کہ: تم لوگ کیوں غم زدہ ہو؟ تم کو خوش ہونا چاہیے۔ اللہ کے پاس اس کو اتنے انعامات مل رہے ہیں کہ اگر تم اس سے پوچھو کہ یہاں واپس آنا ہے یا وہیں رہنا ہے؟ تو اللہ! وہ وہاں کو ترجیح دے گی کیوں کہ وہاں جیسی نعمتیں اور خوشیاں ہم دینے سے قاصر ہیں، یقین رکھو وہ بہت مزے میں ہے۔
سومی جو بھی سنتی اس پر ضرور عمل کرتی، ایک مجلس میں گانوں کے بارے میں وعید سنی تو بس! جب بھی گانوں کی ہلکی سی آواز آتی وہ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی۔ سہیمہ کو چھوٹے چھوٹے پرس جمع کرنے کا بہت شوق تھا اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا کر رکھتی اور اس میں عیدی جمع رہتی پھر جیسے جیسے جس کسی کو بھی ضرورت ہوتی چپکے سے نکال کردیتی۔ مسجد نبوی جاتی وہاں صفائی کرنے والوں کو چپکے سے صدقہ کرتی، دینے سے پہلے صرف مجھ سے پوچھتی کہ: اس کو دے دوں؟ بعد میں جب اس کے پرس کھول کر دیکھے تو قاریات! آپ یقین کریں کہ ہر پرس میں ایک چھوٹی سی تسبیح تھی، اس کے ساتھ پڑھنے والیاں بتاتی ہیں کہ کبھی گھنٹے کے دوران ہم باتیں کررہے ہوتے تو سہیمہ ہم سے تھوڑی سی باتیں کرکے غیرمحسوس انداز میں تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کردیتی، مدینہ منورہ کی آپا طلعت جو کہ غسل دینے والوں میں شامل تھیں فرمانے لگیں کہ میں نے بہت سوچا کہ سہیمہ کے لیے کیا دعا مانگوں؟ نابالغ اور اتنی نیک آخر اللہ نے یہ دعا زبان پر جاری کروائی کہ اے اللہ اس بچی کو قبر، قبر نہ لگے۔
ابوجی بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ: اے اللہ! میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں سہیمہ کی نماز جنازہ مسجد نبوی کے امام شیخ عبدالمحسن القاسم نے پڑھائی اور جنازہ اتنی تیزی سے گویا اڑتا ہوا یا ایتھا النفس المطمئنۃ، ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کا مصداق بنا،
وہ کیا بچھڑ گئی کہ راستے اجڑ گئے
زمین گرد ہوگئی، ستارے ریت ہوگئے
نظام الدین کے ایک بزرگ ہمارے گھر تعزیت کے لیے آئے تو فرمانے لگے: ام حسان کو کہہ کہ جو آنسو ابھی غم کی حالت میں نکل رہے ہیں ان کو امت کے لیے دعا کرکے قیمتی بنالو۔
بندی نے جب یہ داستان غم لکھنے کا ارادہ کیا تو سامنے ایک منظر آگیا جب میں نے خواتین کا اسلام شروع شروع میں پڑھنا شروع کیا۔۔۔ ٹھہریے آپ کو ذرا تفصیل سے آگاہ کرتی ہوں۔
ہوتا یہ تھا کہ جب مدرسے کی پڑھائی سے رات کو فارغ ہو کر خواتین کا اسلام پڑھتی ایک مقصد تفریح بھی ہوتا لیکن کبھی شروع کے صفحات میں ہی غم میں ڈوبی ایسی تحریر نظر سے گزرتی ہوئی آنسو بہانے پر مجبور کرتی تو میں دل میں کہتی کہ بھئی مدیر صاحب کو اس طرح کی تحریر نہیں شائع کرنی چاہیے جس سے ذہن کو پرسکون کرنے اور دکھوں، غموں سے آزاد کرنے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور درد دل جاری ہوتا ہے لیکن میں بے بس ہوگئی جب اپنے اوپر یہ حالات بیتے تو بے اختیار کانپتے ہوتھوں نے قلم کا سہارا لیا اور ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھنے پر مجبور کیا اور دل کا کرب کاغذ پر منتشر کردیا۔
چھوٹا بھائی عبادہ امی کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’امی! بھئی آپ یہ کیوں سوچتی ہیں کہ چھوٹی آپی چلی گئی؟ آپ یہ سوچیں کہ وہ کتنے مزے میں ہے، دیکھیں امی آپ آنکھیں بند کریں میں آپ کو نظر نہیں آؤں گا ایسے ہی چھوٹی آپی ہمیں نظر نہیں آتی لیکن وہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ مگر امی کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے جو تم کہہ رہے ہو، میں مانتی ہوں لیکن بس وہ ایک دفعہ میرے سامنے آضائے میں اس کو سینے سے لگا کے خوب پیار کروں گی۔‘‘
کیا لکھوں؟ کیا چھوڑوں؟ ابھی کے لیے اتنا کافی ہے، آپ لوگوں کے تبصرے سے اگر حوصلہ افزائی ملی تو ننھی گڑیا کی اور باتیں بتاؤں گی بشرطِ زندگی۔۔۔
جی ہاں! اب تو یہ یقین راسخ ہوگیا کہ دنیا سے جانا ہے آخرت میں رہنا ہے۔۔۔
و الاخرۃ خیر و ابقی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں