مولانا عبدالحمید خطبہ جمعہ میں:

چالیس سال کے بعد بھی اہل سنت کے مسائل حل نہ ہوں، مستقبل کے لیے کوئی امید نہیں ہوگی

چالیس سال کے بعد بھی اہل سنت کے مسائل حل نہ ہوں، مستقبل کے لیے کوئی امید نہیں ہوگی

ممتاز عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے چودہ ستمبر دوہزار اٹھارہ کے بیان میں اہل سنت ایران کے مطالبات کو ٹالنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکام پر واضح کیا اگر سنی برادری کے مسائل حل نہ ہوں، مستقبل میں کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔
سنی آن لائن اردو نے مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: انقلاب کو چالیس سال ہونے والا ہے۔ ان چالیس سالوں میں اہل سنت نے ملی یکجہتی کی خاطر ہر میدان میں حاضر ہوکر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے۔ مگر ابھی تک ان کے مسائل حل طلب ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: چالیس سال کی عمر میں انسانی عقل پختگی حاصل کرتی ہے اور اسی عمر میں انبیا علیہم السلام کو نبوت ملی۔ چالیس سال کے بعد اگر کسی کی عقل و تجربہ میں کمال نہیں آیا، اس کے بعد بھی کسی ترقی اور تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے سوال اٹھایا: کیا وقت نہیں پہنچاہے کہ ایران میں اہل سنت کو ’ایرانی‘ ہی سمجھ کر دیکھا جائے؟ کیا علاقائی و ملکی سطح پر اہل سنت کے قابل افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا وقت نہیں پہنچا ہے؟ کیا اس کا وقت نہیں پہنچا ہے کہ پورے ملک میں اہل سنت کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے تاکہ ہرجگہ وہ آزادانہ طورپر نماز قائم کرسکیں؟ ان حقوق کی فراہمی کا متعین وقت کب ہے تاکہ ہم اپنے لوگوں کو مطلع کریں؟
انہوں نے کہا: انقلاب چالیس سالہ ہونے والاہے، لہذا اب وقت پہنچاہے کہ سنی برادری کے حقوق کے بارے میں پائے جانے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ اس حوالے سے مکمل اور بنیادی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ان مسائل کو ٹال دیا جائے، مستقبل کے لیے کوئی امید نہیں بچے گی اور اس سے زیادہ ہم اپنے لوگوں کو خواہ مخواہ سبز باغ نہیں دکھاسکتے۔

لسانی و مسلکی تعصب سے چور صوبائی حکام پر تنقید
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں سیستان بلوچستان کے بعض حکام کے رویوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: کچھ ڈائریکٹرز ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے ان کی لسانی و مسلکی جانبداری واضح ہوجاتی ہے۔ یہ کمزور حکام کسی عہدے کے لیے مختلف قسم کی لابیوں کا سہارا لیتے ہیں اور جب انہیں عہدہ ملتاہے، یہ بھول جاتے ہیں کہ یہاں مختلف برادریاں اور مسالک کے لوگ رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ایسے حکام صرف اپنی ہی برادری کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے محض اپنے ہی مسلک و برادری کے لوگوں کو بھرتی کرکے انہیں اعلی عہدوں پر لگاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ واقعی ملک کی بھلائی چاہتے ہیں، انہیں چاہیے شیعہ و سنی سب کا خیال رکھیں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: وہ ارکان پارلیمان اور ملکی و صوبائی حکام جن کی نگاہیں قومی نہیں ہیں اور ان کا جھکاو ¿ مخصوص مسلک و قومیت کی طرف ہے، وہ قوم کے نمائندے نہیں ہوسکتے۔ ہم انہیں مخصوص مسالک و قومیتوں کے نمائندے جانتے ہیں، پوری قوم کے نہیں! حکام کو چاہیے پوری قوم کے تمام افراد کے مفادات کو مد نظر رکھیں۔

امام حسین ؓ نے نفاذ عدل اور آمریت کے خلاف قدم اٹھایا
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ کے پہلے حصے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے نفاذِ عدل اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ آمریت کے خلاف قدم اٹھانے کو ان کے اہم مقاصد میں شمار کیا۔
انہوں نے دعوت اور امر بالمعروف و نہی المنکر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: انسانی معاشرے کی تمام خوبیوں اور ترقیوں کا راز دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف و نہی المنکر میں ہے۔ اسی سے ہر قسم کے فساد اور خرابی کا مقابلہ کیا گیا۔ اگر لوگ امر بالمعروف و نہی المنکر کی ذمہ داری چھوڑدیں اور ہر کوئی اپنی مصلحت کی وجہ سے خاموش رہے، پوری دنیا فساد اور گناہ کی لپیٹ میں جائے گی اور عذابِ الہی نازل ہوجائے گا۔
ہر قسم کے فساد کے مقابلے پر زور دیتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: فساد اور کرپشن کی تمام قسموں بشمول سیاسی، انتظامی، معاشرتی، خاندانی اور لسانی و قومیتی فسادات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ قومیتی و لسانی فساد یہی ہے کہ لوگ تعصب کی وجہ سے قبائلی و لسانی لڑائیوں میں لگ جاتاہے اور حریف پر اسلحہ اٹھاتاہے۔ حالانکہ یہ قومیتیں اور ذات و۔۔۔ صرف پہچان کے لیے ہیں، لڑنے جھگڑنے اور فخر دکھانے کے لیے نہیں ہوتی ہیں۔
حضرت امام حسین ؓ کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: حضرت امام حسین نواسہ رسول ﷺ تھے اور آپؓ کی تربیت دامانِ نبوی اور علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم جیسی ہستیوں کے گھر میں ہوئی۔ ہمارے زمانے کے لوگوں کا تقابل کسی طرح ان سے نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: حضرت حسینؓ نے کشورگشائی اور حکومت حاصل کرنے کی خاطر نہیں اٹھے، ان کا مقصد امر بالمعروف و نہی المنکر تھا۔ آپؓ معاشرے کی اصلاح، نفاذِ عدل اور ظلم و جور اور آمریت ختم کرنے کے لیے مدینہ سے نکل چکے تھے۔ حکومت کے فرد اول کی کمزوری، نالایقی اور آمریت آپؓ پر واضح ہوچکی تھی اور آپؓ نہیں چاہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے کارنامے تباہ ہوجائیں۔

صحابہ و اہل بیت سے محبت کا تقاضا ان کی پیروی ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے حضرت امام حسینؓ کے مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: حضرت امام حسینؓ کا تعلق کسی مخصوص مسلم فرقے اور مسلک سے نہیں ہے۔ بلکہ انہیں تمام مسلمان مانتے ہیں اور شیعہ وسنی ان سے محبت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: اللہ تعالی، نبی کریم ﷺ، صحابہ و اہل بیتؓ سے محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی ان کی سیرت کی پیروی کریں۔ ان کی باتوں کو جامہ عمل پہنائیں۔ محض محبت کا دعویٰ جھوٹا ہوگا اگر عمل کا فقدان ہو۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: وہ سنی جس کے دل میں اہل بیت نبوی کی محبت نہ ہو، ہم اس کو ’سنی‘ ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر ہم ماتم نہیں کرتے ہیں اور کالے کپڑے نہیں پہنتے ہیں، اس کی وجہ ان اکابر سے محبت نہ کرنا اور لاپرواہی نہیں ہے۔ ہم اپنی فقہ کے پابند ہیں جو ہمیں اس طرح کے ماتم کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ اگر ہم اس دور میں زندہ ہوتے، ضرور مسلح ہوکر امام حسین کے ساتھ کھڑے ہوتے اور جام شہادت نوش کرتے۔
ممتاز عالم دین نے تمام مسالک کی مقدسات کی پاسداری اور احترام پر زور دیتے ہوئے کہا: شیعہ وسنی اپنی اپنی فقہ اور عقیدے کے مطابق عمل کریں، لیکن مسالک کی مقدسات کا احترام کریں اور دشمنوں کو تفرقہ ڈالنے کا موقع نہ دیاجائے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے خطے میں قبائلی و خاندانی لڑائیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے والدین اور خاندان کے بڑوں سے مطالبہ کیا نوجوانوں کے ہاتھوں موجود اسلحے ان کے قبضے سے نکالیں تاکہ معمولی تلخ کلامیوں پر کسی کا خون نہ بہہ جائے۔ نیز جن لوگوں نے قتل کا ارتکاب کیاہے، ان پر رحم نہ کریں اور انہیں عدلیہ کے حوالے کریں۔ بعد میں دیہ یا قصاص کے بارے میں مذاکرے کا امکان ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں