مولانا عبدالحمید:

حالات کو مدنظر رکھ کر نئی دنیا کی زبان میں اسلام کو پیش کریں

حالات کو مدنظر رکھ کر نئی دنیا کی زبان میں اسلام کو پیش کریں

نامور سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین بیان میں ایسے لوگوں پر تنقید کی جو اسلام کو کسی مخصوص حکم تک منحصر کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کو دعوت دی شدت پسندانہ افکار و رویوں سے گریز کرکے حالات کے مطابق اسلام کا تعارف پیش کریں۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے چوبیس نومبر دوہزار سترہ کے بیان میں کہا: اسلام کو اسی طرح سمجھنا اور پیش کرنا چاہیے، جس طرح اس کی حقیقت ہے۔ واضح بات ہے لوگوں کا اپنا ہی فہم اسلام ہوتاہے، لیکن دین انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو شامل ہے اور سب کے لیے پیغام کا حامل ہے۔اس کو محدود نہیں رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگ چند کتابوں کے سرسری مطالعے سے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ انہیں قرآن و حدیث کا علم حاصل ہوچکا ہے، حالاں کہ قرآن و حدیث سمجھنے اور اسلام کی حقیقت حاصل کرنے کے لیے علمائے کرام سے ربط و تعلق اور ان ہی کی سرپرستی میں کثرت مطالعہ کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: لہذا جو گروہ انتہاپسندی کا شکار ہوچکے ہیں، علما کی باتوں اور نصائح کو غور سے سنیں۔ یقین کریں انہیں ندامت نہیں ہوگی اور اسلام کو کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ علمائے کرام سب کے خیرخواہ ہیں اور ان سے زیادہ دین کا علم رکھتے ہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: انتہاپسندی و شدت پسندی کی راہ بند گلی میں ختم ہوجاتی ہے۔ جو لوگ ایسی سوچ میں مبتلا ہوچکے ہیں اپنے رویے میں نظرثانی کریں اور علمائے کرام اور دینی قائدین سے دوری اختیار نہ کریں۔ یہ لوگ تمام علمائے کرام کو غدار اور ’دین فروش‘ قرار نہ دیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: کچھ نوجوان جن پر جذبات کا غلبہ ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام محض ’جہاد‘ ہی میں خلاصہ ہوتاہے۔ حالانکہ اسلام ’تفکر‘ اور ’تدبیر‘ کا دین ہے جو لوگوں کو سوچنے کی ترغیب دیتاہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ نے کن لوگوں کے خلاف جہاد کیا اور کن حالات میں تدبیر کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ہمیں اپنے آس پاس کو دیکھ کر عالمی حالات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایسی کسی حرکت کا ارتکاب نہ کریں جس سے دشمن کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ آئے۔ اسلام فوبیا دشمن کی سازشوں میں سے ایک سازش ہے اور ان کی کوشش ہے لوگوں کو اسلام اور نبی کریم ﷺ سے ڈرا دھمکائیں۔ نبی کریم ﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت تھے۔ اسلام بھی رحمت کا دین ہے اور یہ بشردوستی کا دین ہے جس میں افراط و تفریط کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: بلاشبہ اسلام میں ’جہاد‘ بھی ہے، لیکن جہاد اس وقت ہے جب کسی معاشرے کی اصلاح کے لیے کوئی اور راستہ نہ ہو۔ اسلام میں جہاد اسرائیل جیسے قبضہ گیروں کے خلاف ہے جو بات چیت، منطق اور انصاف پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی اور مسلمان کے خلاف بندوق اٹھائے اور اسے جہاد سمجھ بیٹھے، یہ درست نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مسلمانوں کی ’تکفیر‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا: دورِ حاضر کے مسائل میں ایک تکفیر پر مبنی فتوے ہیں جو مسلم برادری کسی حصے کو ’کافر‘ یا ’مرتد‘ گردانتے ہیں۔ حالانکہ تکفیر بہت بڑا گناہ ہے۔ اسلام میں کسی مسلمان کی تکفیر کی اجازت نہیں ہے، یہ بہت وسیع اور کشادہ دل دین ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے: جو خود کو مسلمان کہتاہے، اسے جب تک کفر کا اظہار نہ کرے یا دین کی ضروریات میں سے کسی امر کا انکار نہ کرے،اسے کافر نہیں کہا جاسکتا۔حدیث کے مطابق ہم کسی مسلمان کو جو زکات دیتاہے، مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتاہے اور ان کے قبلہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتاہے، اسے کافر نہیں کہہ سکتے، حتی الامکان ایسے اعمال کی توجیہ کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر اور مسلک سے ہو، اس بات کا خیال رکھیں کہ تنگ نظری اور انتہاپسندی سے سخت گریز کریں۔ ہم سب کو اعتدال اور میانہ روی و دوراندیشی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی دنیا کی زبان میں ہمیں اسلام کو پیش کرنا چاہیے۔

مسلم حکام ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے بجائے مسلمانوں کے مسائل پر سوچیں
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے مسلم حکام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: سامراجی طاقتوں کی کوشش ہے مسلم حکام ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوجائیں۔ ہم سب کو چوکس و ہوشیار رہنا چاہیے۔ مسلم حکام بیان بازی اور سخت الفاظ سے گریز کریں، انہیں چاہیے ایسی باتیں زبان پر لائیں جو فریق مخالف کو سوچنے پر مجبور کریں اور تناؤ میں کمی آجائے۔
انہوں نے مزید کہا: مسلم حکام سب سے پہلے مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل کو مدنظر رکھیں۔ مسلم ممالک میں اختلافات آئے دن بڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہورہی ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عراق، شام اور یمن جیسے ممالک میں جہاں جھڑپوں میں کمی آئی ہے، جامع حکومتیں بناکر سب کو حکومتوں میں شامل کرنا چاہیے۔ تمام مذاہب و مسالک کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ مسائل میں کمی واقع ہو۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں