نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب اور دبدبہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب اور دبدبہ

وہ ہیبت کہ دیوار و در کانپتے ہیں
ارے اُن سے شمس و قمر کانپتے ہیں
سپر پاور کہلانے والے شہنشاہ ہر قل کے دربار میں اسلام کے سفیر پیوند زدہ لباس میں پہنچے ہیں، ہر قل ان کے آنے کا مقصد معلوم کر کے حیران ہو رہا ہے، کہتا ہے: ’’ہم نے جزیرہ عرب کو اس قابل کبھی نہ سمجھا تھا کہ ہم تم پر چڑھائی کریں، آج تم کس غلط فہمی میں ہمارے پاس آپہنچے ہو؟ اسلام کے سفیر کہتے ہیں: جہاں تم بیٹھے ہو، ہم اس جگہ پر بھی قبضہ کرلیں گے‘‘۔
دوسری طرف چند مجاہد ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں دوسری سپر طاقت کہلانے والے شاہِ ایران کے نائب السلطنت رستم کے دربار میں دعوت اسلام دینے پہنچ چکے ہین: ’’ہم آئے نہیں، بھیجے گئے ہیں، تا کہ بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی کی طرف لائیں اور مذاہب کے ظلم و جور سے اسلام کے عدل میں لائیں اور دنیا کی تنگیوں سے (نکال کر) دین کی وسعتوں سے روشناس کرائیں‘‘۔
بات نہ ہر قل سمجھ سکا ہے، نہ رستم ایران کے پلّے پڑی ہے۔ ہر دن، ہر گھڑی اور ہر لمحہ فقیر منش اسلامی شیر بڑھتے چلے جارہے ہیں، فتح و نصرت گویا ان کے قدموں کے دھول ہے۔ شاہ ایران اپنے تمام جرنیلوں کو بلا کر پوچھتا ہے: ’’اسلحہ ہمارا گھٹیا تو نہیں، سپاہ ہماری لاتعداد اور لاجواب، وسائل ہمارے بے حد و بے حساب، پھر آخر کیا بات ہے کہ یہ عرب کنگلے، فقیر، چیتھڑوں میں لپٹی تلواروں والے ہر جگہ غالب اور ہم ہر جگہ مقہور و مغلوب ہو رہے ہیں؟‘‘۔ ہر جرنیل ڈینگیں مارتا اور اپنی شکست کو حادثاتی عارضی شکست قرار دیتا ہے۔
سب سے آخر میں ان میں سب سے سنجیدہ مزاج اور معقول جرنیل کھڑا ہوتا ہے، دست بستہ عرض کرتا ہے: ’’جہاں پناہ! بلاشبہ جدیدترین اسلحہ، لاتعداد عساکر اور وسائل اور خزانوں میں ہمارا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی۔ روم کے ساتھ ہمارا مقابلہ رہتا ہے، کبھی وہ، کبھی ہم غالب آتے ہیں، مگر یہ فاقہ مست پرانے ہتھیاروں اور پرانی تلواروں والے لڑاکا عرب ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ یہ موت سے اسی طرح پیار کرتے ہیں، جیسے ہم شراب سے۔ جہاں تک میں سمجھ سکاہوں عالی جاہ! یہ خود ہم سے نہیں لڑتے، اپنے خدا کو ہم سے لڑادیتے ہیں بھلا اللہ خالق سے کوئی مخلوق کیسے جیت سکتی ہے؟ اس طرح ہر جگہ ہم شکست کھاتے جارہے ہیں‘‘۔ بات وُہی ہے تلواریں نہیں لڑتیں، جذبے لڑتے ہیں، فتح و کامرانی تلواروں سے نہیں، جذبوں سے ملا کرتی ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
’’نصرتُ بالرعب مسیرۃ شھر۔‘‘
’’ایک مہینہ کی مسافت تک رعب دے کر میری مدد کی گئی ہے‘‘۔
۲۳ سالہ عہد نبوت کو دیکھئے، مکہ کے اندر اور مکہ سے باہر کبھی اکیلے اور کبھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں، آنجاب صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی منڈیوں میں ملک بھر کے قبیلوں کا اجتماع ہوتا ہے، ہزاروں افراد موجود ہوتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سینکڑوں بتوں کا انکار کرتے، اکیلے اللہ کی طرف دعوت دیتے گھوم رہے ہیں۔ طائف کے بڑے بڑے سرداروں کو دعوت دینے جاتے ہیں، ظلم وستم کی حد کردی جاتی ہے، مگر ان سب حالات کے باوجود شمع نبوت کو بجھانے کی جرأت کسی کو نہیں ہوتی۔ ہجرت کی رات کم و بیش سو کڑیل جوان بری نیت کے ساتھ بیت النور کا گھیراؤ کرتے ہیں،دروازے کے اندر قدم رکھنے کی جرأت کسی کو نہیں، بس ایک مٹھی خال اٹھا کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف پھینکتے ہیں، سب کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، ’’شاھت الوجوہ‘‘ فرما کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تشریف لے جاتے ہیں۔نبی ﷺ و صدیقؓ کی گرفتاری پر سو سو اونٹ انعام مقرر ہے، مگر بے خوف و خطر مکہ سے مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایران کے ہاتھ سے ہمن چھن جاتا ہے، مگر اسے حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ شمالی عرب رومیوں کے قبضہ سے نکل جاتا ہے۔ قیصر روم افواج اکٹھی کرنے کا حکم جاری کرتا ہے، نبی مقدس صلی اللہ علیہ وسلم تبوک تک سفر اختیار فرماتے ہیں، ایک مہینہ کے فاصلے پر یروشلم میں بیٹھا شاہِ روم خوفزدہ ہو کر اپنے ہی جاری کردہ حکم کو منسوخ کردیتا ہے۔ ہاں! نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بلاواسطہ اور بالواسطہ فتوحات کا راز فاش کرچکے ہیں: ’’ایک ماہ مسافت تک میری دہشت چھائی ہوئی ہے‘‘۔
۶۳ سال کی مبارک زندگی پوری فرما کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تو رفیق اعلیٰ سے جاملے، لیکن پہلے انبیاء علیہم السلام کی پیشنگوئیوں کے مطابق مکہ مکرمہ اُن کی جائے پیدائش، مدینہ جائے ہجرت اور شام ان کی جائے حکومت (ملکہ فی شام) بن گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۶۳ سالہ زندگی میں ان کی حکومت شام میں قائم نہیں ہوئی، ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے نام لیواؤں صدیق و فاروق و عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم نے شام کو فتح کر کے نبوی حکومت قائم فرمائی۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اصحابِ رسول، تابعین اور دیگر مجاہدین کے ہاتھوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلت فرمانے کے بعد حجاز سے شام، عراق، ایران اور سندھ تک، پھر وسط ایشیاء کے کئی علاقے داغستان تک اور مغرب میں فرعونوں کے ملک مصر سے افریقہ کے آخری مغربی کنارے جزائر، مراکش اور الجزائر تک اور یورپ میں اسپین اور فرانس کے ایک حصے تک، مشرق میں سری لنکا اور آگے انڈونیشیا اور ملائیشیا تک فتوحات کا ایک سیلاب تھا، جو کسی کے رو کے نہ رُکتا تھا۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
یہ سب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا جب ’’محمدی رعب‘‘ کو ساتھ لے کر چلتے تھے تو یہ اسی کا نتیجہ ہوتا تھا۔ چودہ سو سال پہلے اونٹوں اور گھوڑوں کا سفر تھا، ایک مہینہ میں مدینہ سے چل کر تبوک اور فلسطین پہنچا جاتا تھا، آج ہوائی جہازوں کا سفر ہے، لہذا مکہ اور مدینہ سے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا یا کوئی بھی علاقہ ایک مہینے کی مسافت پر نہیں، لہذا کہیں آل بوزنہ پر شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا خوف طاری ہے، کہیں ان کے چالیس چور ساتھی ملاعمر سے ڈر کر روزانہ ان کی منت خوشامد کرتے نظر آتے ہیں، مگر وہ نبوی رعب اور محمدی دہشت کا نمائندہ کوئی نرم پہلو دینے پر آمادہ نہیں۔ ایمان اللہ کی ذات کا ہو یا محمدی رسالت اور ختم نبوت کا، جیسے یہ باتیں مومن مجاہد کے دل میں اتری ہوئی ہیں، نبوی رعب اور دہشت بھی اسی طرح اہل ایمان کے قلب و روح میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ ’’و أنتُمُ الأعلَونَ ان کُنتُم مؤمنینَ‘‘ یعنی ایمان شرط ہے، نبوی دہشت بھی ہمراہ ہوگی، بندہ کوئی ہو، ایمان کے بعد وہ نبوی نمائندہ ہے، اس کی علامت جہاد ہے۔ فرمایا: ’’جہاد قیامت تک جاری رہے گا‘‘۔ اسی سے ملتِ کافرہ اور فرنگ بَدرنگ خوفزدہ اور دہشت گرفتہ ہے۔ کاش! پاک فوج بھی نبوی نمائندگی کا حق ادا کرنے کو تیار ہوجائے، پھر ہم امریکہ اور نیٹو کے فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے پر فخر نہیں، شرم محسوس کریں گے اور علی الاعلان پکار اٹھیں گے: ہم تم آقا مدنی کے فرنٹ لائن اسٹیٹ ہیں، کسی کو میلی آنکھ سے ہمیں دیکھنے کی جرأت ہو تو آئے! اور ’’غالب علی کل غالب‘‘ ہم ہی ہوں گے۔۔۔ بقول انجم نیازی:
یہ سارے مجاہد ہیں سارے جری ہیں
یہ تلوار و خنجر کے سارے دھنی ہیں


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں