رئیس جامعہ کی طلبہ کو چند نصائح!

رئیس جامعہ کی طلبہ کو چند نصائح!

۱۸؍شوال المکرم ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۳؍جولائی ۲۰۱۷ء بروز جمعرات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں نئے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، جس میں جامعہ کے کبار اساتذہ کرام سمیت رئیس جامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہ نے اپنے بیان میں طلبہ کرام کو گرانقدر نصائح فرمائیں۔ افادیتِ عامہ کے پیش نظر حضرت رئیس جامعہ کا بیان شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

الحمدللہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی سید الأنبیاء و المرسلین و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔ أما بعد!
’’قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: من یرد اللہ بہٖ خیراً یفقہہ فی الدین۔‘‘
(صحیح البخاری، کتاب العلم، ص: ۱۶، ط؛ قدیمی)
میرے بھائیو، دوستو اور عزیز طلبہ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے میں اُن طلبہ کرام کو جو اس سال نئے داخل ہوئے ہیں اور پرانے طلبہ بھی جو سالانہ چھٹیاں گزار کر واپس آئے ہیں، سب کو اپنی جانب سے، اساتذۂ کرام اور جامعہ کی انتظامیہ کی جانب سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جس مقصد کے لیے آپ حضرات آئے ہیں، اس مقصد میں آپ کو کامیاب کرے اور ہر اس کام سے آپ کی حفاظت فرمائے، جس سے آپ کے علم کا نقصان ہو۔

اخلاص نیت
سب سے پہلی چیز جو طالب علم کے لیے لازم ہے‘ وہ اخلاص نیت ہے۔ ہر طالب علم یہ نیت کرے کہ میں یہ دین‘ اللہ کے لیے اور دین کا خادم بننے کے لیے پڑھ رہا ہوں۔ اگر نیت درست ہوگی تو اللہ تعالی علم میں بھی برکت دیں گے۔

حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی نصیحت
ہمارے شیخ محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری قدس سرہ کے زمانہ میں بھی یہ افتتاحی اجتماع ہوتا تھا، وہ فرمایا کرتے تھے کہ: یہ اجتماع اخلاص نیت، تجدید نیت اور صفائی نیت کے لیے ہے کہ ہم نے یہ دین اور علم‘ اللہ تعالی کے لیے پڑھنا ہے نہ کہ دنیا کے لیے۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ: یہ اخلاصِ نیت کا اجتماع ہے، اپنی نیتیں درست کرلو۔ اور اگر دنیا کے لیے پڑھنا ہے تو کسی اور ادارے میں چلے جاؤ، باہر بہت سارے ادارے کھلے ہیں، یہاں وہ آئے جسے اللہ کے لیے پڑھنا ہو۔

بغداد کے ایک مدرسے کا واقعہ
بغداد میں۔جب وہ دین کا مرکز تھا۔ وقت کے بادشاہ نظام الملک طوسی نے ایک بڑا مدرسہ قائم کیا اور ایک دن اس نے سوچا کہ مدرسہ ہم نے قائم کرلیا ہے، اب یہ بھی دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے؟ اسی ادارے سے بادشاہ رات کو لباس بدل کرکے مدرسہ میں آئے، وہاں پہنچ کر دیکھا کہ طلبہ مطالعہ کررہے ہیں۔ ایک طالب علم کو سلام کیا اور اس سے معلوم کیا کہ: تم کیا پڑھ رہے ہو؟ ہر ایک طالب علم نے اس سوال کا الگ الگ جواب دیا۔ کوئی قاضی بننے کا کہہ رہا تھا، کوئی فقیہ بننے کا کہہ رہا تھا، و غیرہ و غیرہ۔ یہ سب مناصب بھی دین ہی کے تھے، لیکن اس کے باوجود بادشاہ یہ جوابات سن کر سخت مایوس ہوا، اور کہا کہ: جب سب کی نیت یہ ہے تو اس مدرسہ کو ختم ہونا چاہیے۔
بادشاہ واپسی کے ادارے سے اس ادارہ سے نکلنے لگا، دیکھا کہ راستے میں ایک طالب علم کتاب پڑھ رہا ہے۔ بادشاہ نے سوچا کہ اس سے بھی پوچھ لوں، چنانچہ اس سے سوال کیا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ طالب علم نے کتاب کا نام بتلایا، کہا: کیوں پڑھ رہے ہو؟ طالب علم نے کہا: کیونکہ اللہ نے مجھے مکلف بنایا ہے (اور آپ حضرات جانتے ہیں کہ عاقل بالغ آدمی مکلف ہوتا ہے، شریعت کے احکام اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں) میں اس لیے پڑھ رہا ہوں، تا کہ مجھے پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیا ہے، میں انہیں بجا لاؤں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے‘ میں ان سے رک جاؤں۔ اس طالب علم کا یہ جواب سننے کے بعد بادشاہ کا نظریہ بدل گیا، کہا کہ: جس ادارہ میں ایک طالب علم بھی ایسا ہو تو وہ مدرسہ یا ادارہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ طالب علم امام غزالی رحمہ اللہ تھے جو اس وقت مدرسہ نظامیہ بغداد میں علم حاصل کررہے تھے۔ (دعوات عبدیت، حکیم الامت رحمہ اللہ، ج: ۱، ص: ۲۱۹، ط: مکتبہ تھانوی)

طالب علم کی فضیلت
لہذا دین پڑھنے والا اپنی نیت کو خالص کرے۔ دین کی سمجھ بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا شکر‘ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس کی خدمت کے لیے وقف کردے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔‘‘ نبوت تو ختم ہوگئی ہے، لہذا وسائل کے درجہ میں جس کو اللہ نے توفیق دی اور مدرسہ میں پہنچادیا، سمجھو کہ! اللہ تعالی نے اس کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔ لہذا اپنی قدر کرو، اپنے مقام کو سمجھو اور پہچانو۔ چنانچہ حدیث میں ہے: طالب علم میں نکلنے والا شخص ایسا ہے جیسا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے والا، (سنن الترمذٰ، باب فضل طلب العلم، ۵؍۲۹، ط: دار احیاء التراث العربی) اور علم کے حصول کی راہ میں اگر طالب علم کو موت آئے تو وہ شہید کہلائے گا۔ اتنا اونچا رتبہ ہے۔ اور طالب علمی کے زمانے میں طالب علم کا ہر عمل ثواب شمار ہوگا، اگر وہ آرام کرتا ہے تو یہ آرام بھی عبادت میں شامل ہے، تا کہ بیدار ہوکر اچھے طریقے سے پڑھ سکے، لہذا دین کے تقاضوں کو پورا کریں، وقت کی پابندی کریں۔ آپ کے سامنے آپ کی پڑھائی کے اوقات متعین ہیں، مقررہ وقت سے پہلے آپ تیار رہیں۔ کلاس میں استاذ سے پہلے پہنچیں یہ نہ ہو کہ استاذ بیٹھے ہوں اور طالب علم بعد میں آرہے ہوں۔ وقت پر درسگاہ میں حاضر ہونا یہ ہر طالب علم کا فرض ہے۔ ہم دورۂ حدیث میں تھے، ہمارے زمانے میں اگر چہ حاضری نہیں ہوتی تھی، لیکن الحمدللہ ! ہم اتنی پابندی اور اہتمام کرتے تھے کہ استاذ سے پہلے کلاس میں موجود ہوتے تھے اور کوئی طالب علم غیرحاضر نہیں ہوتا تھا۔ لہذا وقت کی پابندی کے ساتھ استاذ کا سبق غور سے سنیں اور رات کو صبح کے سبق کا مطالعہ کرکے آئیں۔

حکیم الامت رحمہ اللہ کی طلبہ کو تین کاموں کی نصیحت
ہمارے بزرگوں نے اپنے معمولات ذکر کیے ہیں، اور بزرگوں کے ملفوظات میں بڑی اچھی اچھی باتیں موجود ہیں، ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا کہ: طالب علم اگر رات کو اپنا اگلا سبق دیکھ لے اور صبح درسگاہ میں استاذ سے سبق غور سے سنے اور دوبارہ تکرار کر لے یا اس سبق کو دیکھ لے تو وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ لہذا ان تینوں باتوں کی پابندی کریں۔ ان شاء اللہ! آپ کو اسباق یاد ہوں گے۔

اپنے آپ کو وقف کردیں
بس علم کے حصول کو اپنا مقصد بنالو، اپنے آپ کو علم کے لیے وقف کردو۔ ابھی آپ نے اساتذہ کرام سے امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ایک مشہور جملہ سنا ہے: ’’العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک‘‘ جب تک آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر علم کے سپرد نہیں کریں گے اس وقت تک علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ علم یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے کو مکمل طور پر اس کے حاصل کرنے میں کھپادیں اور تمام فضولیات سے مکمل طور پر پرہیز کریں۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری جامعہ کے طلبہ میں ایک طالب علم تھے ۔جو آج الحمدللہ! بڑے عالم ہیں اور دین کا بڑا کام کر رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے: جامعہ میں میرے داخلے کے باوجود چار ماہ تک مجھے جناح صاحب کے مزار کا علم نہیں تھا، گویا وہ کئی مہینوں تک جامعہ کی چار دیواری سے باہر گئے ہی نہیں۔ لہذا طلبہ اپنا سارا وقت علم میں لگائیں۔

بازاروں میں جانے سے پرہیز کریں
البتہ بوقت ضرورت کسی چیز کی ضرورت ہو تو باہر جائیں اور ضرورت پوری کر کے فوراً واپس آجائیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے بیت الخلاء میں فقط ضرورت کے تحت گئے اور واپس آگئے۔ آج کل کے بازار فتنے کی جگہ ہیں، حدیث شریف میں ہے: ’’خیر البقاع المساجد و شرھا الأسواق‘‘ (صحیح ابن حبان، ذکر البیان بأن خیر البقاع فی الدنیا المساجد، ۴؍ ۶۷۴۔ ط: موسسۃ الرسالۃ) لہذا بازاروں میں جا کر وہاں وقت صرف نہ کریں۔ اگر مجبوری کی وجہ سے جانا پڑے تو بھی نگاہ کو نیچی رکھیں، قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے: «قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ » (النور: ۳۰)
محض تفریح کے لیے بازار جانا علم کے لیے زہر ہے۔ اگر چلنا بھرنا ہے تو عصر کے بعد جائیں، میدان تک جائیں، واپس آئیں اور اس میں بھی غض بصر ضروری ہے۔ باہر کا ماحول انتہائی غلیظ ہے، آپ اگر اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں گے تو دوسروں پر اس عمل کے ان شاء اللہ! اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

لندن میں پیش آنے والے دو واقعات
اخبارات میں لندن میں پیش آنے والا ایک واقعہ لکھا تھا کہ: وہاں ایک عیسائی صحافی عورت ایک مسلم نوجوان سے انٹرویو لے رہی ہے، وہ شخص عالم نہیں بلکہ تبلیغی ہے، الحمدللہ! تبلیغ کی برکت سے نوجوانوں کو دین کی اچھی معلومات ہوتی ہیں، تو اس غیرمسلمہ عورت نے اس مسلمان دیندار شخص سے دو گھنٹے انٹرویو لیا، انٹرویو سے فارغ ہو کر آخر میں اس عورت نے اس مرد سے کہا کہ: مجھے کلمہ پڑھاؤ، جب اس عورت سے اس کی وجہ پوچھی؟ تو وہ کہنے لگی کہ: میں دو گھنٹوں سے اس مرد کا انٹرویو لے رہی ہوں، مگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس نے نظر اٹھا کر میری طرف نہیں دیکھا۔ تو اس عمل کا یہ اثر ہوا کہ وہ غیرمسلمہ عورت مسلمان ہوگئی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ انگریزوں کا ملک ہے، مگر ایک مسلمان اپنے دین اور پاکدامنی پر قائم ہے، حالانکہ وہاں کے معاشرے کے بگاڑ کا سب کو علم ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان فیملی وہاں ایئرپورٹ پر اتری، وہاں کسی رشتہ دار سے ملنے گئے ہوں گے (ایک مسلمان کو ہر جگہ دین کی فکر ہونی چاہیے) اس فیملی نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے، نماز کی فکر تھی، ان کے پاس گائیڈ بک بھی تھی اور قبلہ نما بھی تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس طرف قبلہ ہے، دونوں باوضو تھے، نمازی تھے اور سفر میں با وضو رہنا چاہیے، تا کہ ہر وقت نماز کے لیے مسلمان تیار رہے۔ لہذا انہوں نے راستہ چھوڑ کر ایک دیوار کے پیچھے مصلی بچھایا اور نماز شروع کردی۔ وہاں سے ایک نوجوان غیرمسلمہ عورت گزر رہی تھی، اس نے ان کی نماز کی کیفیت اور ہیئت دیکھی، تو ان کے پاس پہنچ گئی، جب انہوں نے سلام پھیرا تو اس عورت نے آکر پوچھا: آپ لوگ کیا کررہے ہیں؟ اس فیملی نے جواب دیا کہ: یہ ہمارے مذہب کی بنیادی عبادت ہے، نماز ہے جو اللہ کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ پھر اس نوجوان عورت نے اسلام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسلام کے بارے میں بتلایا۔ جب وہ عورت جانے لگی تو اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس وقت اللہ تعالی نے اس مرد کو یہ حکمت سکھائی، اس مسلمان شخص نے یہ نہیں کہا کہ اسلام میں یہ منع ہے، بلکہ حکمت سے جواب دیا کہ میرا ہاتھ اس (اپنی بیوی کی جانب اشارہ کرکے) کا ہوگیا ہے، اب میں کسی اور غیرعورت کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ وہ عورت حیرات ہوئی اور رونے لگی، سبحان اللہ! دین اسلام میں ایسی پاکدامنی ہے۔ تو اس عمل کی وجہ سے وہ عورت مسلمان ہوگئی۔ ہمارا عمل درست ہوجائے تو یہ خود اسلام کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہوگا، ان شاء اللہ!

دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں
دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا کریں، تا کہ یہ پتہ چلے کہ مسلمان اور اسلام کی تعلیمات یہ ہیں۔ میں لندن میں تھا، وہاں ایک مسجد میں بیان میں‘ میں نے یہ نصیحت کی کہ: یہاں آپ لوگوں کے پڑوس میں غیرمسلم آباد ہیں، لہذا آپ لوگ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا کریں، تا کہ آپ کے اچھے سلوک کا ان پر اثر ہو اور آپ کا طرز عمل اسلام کی ترجمانی کرے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں کے ایک حاجی صاحب ملے، اس نے کہا کہ ہم نے آپ کی اس نصیحت پر عمل کیا، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے اور ہمارے پڑوسی مسلمان ہوگئے، اب وہ میرے ساتھ نماز کے لیے مسجد آتے ہیں۔ آپ آئے روزپڑھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اچھے اعمال سے دوسرے لوگ متاثر ہو کر مسلمان ہوگئے، لہذا ہمارے اعمال کی جو کوتاہیاں ہم میں موجود ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں دور کردیں۔

ہمیشہ باوضو رہیں اور نمازوں کا اہتمام کریں
اپنے آپ کو ہمیشہ باوضو رکھیں، ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی پاکیاں شریعت میں مقصود ہیں۔ آپ حیران ہوں گے! میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ ابھی مسجد میں اذان نہیں ہوئی اور ایک بزرگ مسجد کی طرف چلے آرہے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ: حضرت! ابھی اذان نہیں ہوئی ہے، انہوں نے بڑا اچھا جواب دیا، کہا کہ اذان عوام کے لیے ہوتی ہے، خواص کو وقت سے پہلے مسجد میں آنا چاہیے۔
مکہ مکرمہ میں ایک بزرگ تھے، انہوں نے امام کے دائیں طرف نماز پڑھی، اسی دوران انہیں ان کے ایک عزیز دوست مل گئے تو وہ بزرگ کہنے لگے: سنا تھا کہ امام کے دائیں طرف اجر زیادہ ملتا ہے، آج علم ہوا کہ امام کے دائیں طرف دوست بھی ملتے ہیں۔ اس لیے بروقت نماز کے لیے تیار رہیں اور اذان ہوتے ہی مسجد پہنچیں، کوشش کریں کہ امام کے دائیں جانب نماز ادا ہو۔ جو آدمی نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اللہ تعالی کی جانب سے ایسے لوگوں کے لیے فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو ان کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں: ’’اللھم اغفر لہ اللھم ارحمہ۔‘‘ (کنزالعمال، انتظار الصلوۃ، ۸؍۲۵۹، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

حفاظ کو نصیحت
میں حفاظ سے کہا کرتا ہوں کہ نماز کے انتظار کے ان اوقات سے فائدہ اٹھائیں۔ عصر اور عشاء میں بڑا وقت ہوتا ہے، آپ اذان کے ساتھ مسجد میں آئیں اور سنتوں اور نوافل میں قرآن کریم پڑھیں، آپ کو یوں قرآن بھی یاد ہوجائے گا۔ اگر آپ اپنے علم میں برکت چاہتے ہیں تو نمازوں کا اہتمام کریں۔ ایک قاری صاحب کا گھر مسجد سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا، وہ گھر سے جب نکلتے تو تعوذ تسمیہ پڑھ کر پارہ شروع کردیتے، مسجد پہنچتے تو ایک پارہ ہوجاتا ، اور جب واپس آرہے ہوتے، پھر تعوذ تسمیہ پڑھ کر پارہ شروع کرتے تو واپس آنے کے ساتھ دوسرا پارہ بھی مکمل ہوجا تا تھا۔ دیکھیں کس طرح اپنے اوقات کو قیمتی بنادیا، لہذا حفاظ کرام اس سے فائدہ اٹھائیں۔

ادب بنیاد ہے
اور یاد رکھیں! ادب بنیادی شرط ہے، استاذ کا بھی ادب کریں، کتاب کا بھی ادب کریں، تپائی اور درس گاہ کا بھی ادب ملحوظ رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی ادب ہو اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد ہے: ’’رحماء بینھم‘‘ بس اس ’’رحماء بینھم‘‘ کا منظر آپ بھی پیش کریں، ان شاء اللہ! علم نافع حاصل ہوگا اور علم میں برکت بھی ہوگی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صحیح معنوں میں طالب علم بننے اور آداب بجا لانے کی توفیق عنایت فرمائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں