مسئلہ سنگسار(رجم کرنے) کے حوالے سے مفتی محمود رحمہ اللہ کا ایک خوبصورت واقعہ 

مسئلہ سنگسار(رجم کرنے) کے حوالے سے مفتی محمود رحمہ اللہ کا ایک خوبصورت واقعہ 

قلب کے عارضہ کے پیش نظر مفتی محمود صاحب ؒ سی ایم ایچ (ہسپتال) راولپنڈی میں زیرِ علاج تهے۔ سعودیہ عرب سے رابطہ عالم اسلامی کے مذہبی رہنما ڈاکٹر دوالبی صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دوران ڈاکٹر دوالبی صاحب نے مفتی محمودؒ سے کسی زانی یا زانیہ کو رجم (سنگ ساری) کے بارے میں بات کی اور کہا کہ” میری تجویز ہے اور دنیا بهر کے علمائے کرام اور علمی اداروں نے میری تجویز سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ تحسین بهی کی ہے“ وہ میری تجویز یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


”میں چاہتا ہوں کہ جب (شادی شدہ) زانی اور زانیہ پر زنا  کا ثبوت ہوجائے تو چاہیئے کہ انہیں بندوق کی گولی مار دی جائے۔اس لیے کہ مسلہ رجم سے ”مقصود“ تو مجرموں کو سرعام قتل کرنا ہے۔اور یہ مقصد گولی مارنے سے بهی حاصل ہوجاتا ہے۔اور،،،، اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ رجم کے خلاف یورپی ممالک کا پروپیگنڈے کا توڑ بهی ہوجائے گا۔“
اس مسلہ پر آپ کی رائے معلوم کرنے آیا ہوں۔ 
حضرت مفتی محمودؒ نے جواب میں فرمایا؛
ڈاکٹر صاحب آپ کو اور آپ کی تائید کرنے والوں کو مغالطہ یہاں سے ہوا ہے کہ آپ سمجهتے ہیں کہ رجم (سنگ ساری ) کا مقصود مجرموں کو قتل کرنا ہے۔حالانکہ رجم سے مجرموں کی زندگی بچانا ہے۔وہ اس طرح کہ آپ جانتے ہیں کہ سنگ ساری(پهتر مارنے) کی ابتداء ہی وہ چار گواہ خود کریں گے“جنہوں نے گواہی دی ہے۔اور اس گواہی کی اساس پر مجرم کو سنگ سار کیا جارہا ہے۔”اگر“ سنگ ساری کا بهیانک منظر دیکھ کر کسی ایک گواہ نے بهی دوران سنگ باری اپنی گواہی سے رجوع کیا تو فوراً موقعہ پر موجود قاضی سنگ ساری سے روک دے گا۔اور مجرم کی جان بچ جائے گی۔نیز اگر مجرم کے اقرار پر سنگ ساری کا حکم جاری ہوا ہے تو جس مرحلہ پر مجرم نے اپنے اقرار (جرم) سے رجوع کا اعلان کیا۔ِ؟ تو اسی وقت قاضی صاحب سنگ ساری موقوف کردے گا۔اور گولی مارنے سے یہ حکمتیں فوت ہوجائیں گی۔اب رہی یورپ کی بات۔۔۔ تو یورپ والوں کو شرعی احکامات کے فلسفے کی کیا خبر۔؟ 
حضرت مفتی محمودؒ کا یہ جواب سن کر ڈاکٹر دوالبی صاحب اپنی نشست سے اٹهے اور حضرت مفتی صاحب کو گلے ملے اور آپ کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ۔۔۔
یہ راز اور حکمت کی بات آج مجھ پر منکشف ہوئی کہ رجم (سنگ ساری) کا مقصد مجرم کی جان لینا نہیں بلکہ بچانا ہے۔لہذا میں اپنی تجویز آج واپس لیتا ہوں۔

( بحوالہ : تذکارِمحمودؒ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں