مسئلہ تراویح (4 – آخری قسط)

مسئلہ تراویح (4 – آخری قسط)

اکابر علمائے امت کے بیانات

اب اس کے بعد تراویح کے متعلق کبار محدثین اور مشاہیر علماء کے چند ایک بیانات ہم مختصرا پیش کرتے ہیں۔۔۔ ان میں بیس رکعات تراویح کا مسئلہ بڑی صراحت کے ساتھ سامنے آئے گا اور اکابرین امت کے نزدیک اس کی اہمیت واضح ہوگی۔
*امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی (نعمان بن ثابت ابوحنیفہ المتوفی ۱۵۰ھ) سے ان کے شاگرد کبیر امام ابویوسف رحمہ اللہ نے ایک بار مسئلہ تراویح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریقہ کار کے متعلق دریافت کیا تو امام صاحب رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ:
’’تراویح کی نماز ’’سنت مؤکدہ‘‘ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنی جانب سے تخریج و تجویز فرمایا اور آنموصوف رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں بدعتی نہیں تھے اور انہوں نے بغیر کسی اصل (یعنی ثبوت شرعی) اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس چیز کا امر نہیں فرمایا۔‘‘
چنانچہ علامہ ابن نجیم نے اپنی تصنیف ’’البحر الرائق‘‘ میں یہ واقعہ کتاب ’’الاختیار‘‘ سے بہ عبارت ذیل نقل کیا ہے:
’’و ذکر فی ’’الاختیار‘‘ أن أبایوسف رحمه اللہ سأل اباحنیفة رحمه اللہ عنھا و ما فعله عمر فقال التراویح سنة مؤکدۃ۔ و لم یتخرجه عمر من تلقاء نفسه، و لم یکن فیه مبتدعا، و لم یامر به الا عن لدیه و عھد من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔‘‘
(۱۔البحر الرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم، ص۶۶، جلد ثانی تحت بحث تراویح، طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ۔
۲۔ ردالمختار لابن عابدین الشامی (حاشیہ درمختار) ص۷۳۶، ج اول، تحت بحث تراویح، طبع قدیم، مصر۔
۳۔ کتاب الفقہ علی المذاهب الاربعة لعبدالرحمن الجزیری، ص۳۴۱، جلد اول تحت کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ التراویح حکمها و وقتها، طبع بیروت، لبنان)
اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی تالیف جامع ترمذی میں اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل عبارت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے:
’’و اکثر اھل العلم علی ما روی عن علی و عمر و غیرھما من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم عشرین رکعة، و ھو قول سفیان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی ھکذا ادرکت ببلدنا بمکة یصلون عشرین رکعة۔‘‘
یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکثر اہل علم حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ (نماز تراویح) کی بیس رکعات ہیں۔ یہ چیز حضرت علی المرتضی، حضرت عمر فاروق اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور جناب سفیان ثوری، ابن المبارک او ر امام شافعی رحمہم اللہ نے یہی قول کیا ہے اور مزید برآں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں اہل اسلام کو بیس رکعات (تراویح) ادا کرتے ہوئے پایا ہے۔

* اور اسی طرح مسئلہ ہذا کو مشہور محدث امام بغوی رحمہ اللہ (الحسین بن مسعود المتوفی ۵۱۶ھ) نے اپنی تالیف ’’شرح السنۃ‘‘ میں مذکورہ بالا عبارت کے ساتھ بلفظہ درج کیا ہے:
’’و اما اکثر اھل العلم فعلی عشرین رکعة۔۔۔ یصلون عشرین رکعة‘‘
(شرح السنہ لامام بغوی رحمہ اللہ ص۱۲۳، ج۴، تحت بحث روایات تراویح، باب قیام شہر رمضان و فضلہ)

*ائمہ احناف کے مشہور فقیہ شمس الائمہ السرخسی (ابوبکر محمد بن ابی سہل السرخسی المتوفی ۴۹۰ھ) نے اپنی تصنیف ’’المبسوط‘‘ میں مسئلہ ہذا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں واضح کیا ہے:
’’و المبتدعة انکروا ادائھا بالجماعة فی المسجد فاداءھا بالجماعة جعل شعارا للسنة کاداء الفرائض بالجماعة شرع شعارا للإسلام‘‘
(کتاب المبسوط لشمس الائمہ السرخسی ص۱۴۵، ج۲، تحت کتاب التراویح الفصل ثانی، طبع اول، مصر)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ تراویح کو باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے بدعتیوں نے انکار کیا تو تراویح کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنت طریقے کے لیے شعار بنایا گیا۔جیسا کہ فرائض کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا اسلام کا شعار قرار دیا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ تراویح کو باجماعت مساجد میں ادا کرنا اکابرین امت کے نزدیک اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ان کو شعائر دین میں شمار کیا ہے۔
نیز السرخسی نے اس مقام میں یہ چیز بھی ذکر کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تراویح کے اجتماعی قیام کے مسئلہ میں منفرد نہیں تھے اور ان کا یہ انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے ساتھ تھے۔ خصوصا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اس مسئلہ میں راضی اور خوش تھے حتی کہ آنموصوف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ان کے حق میں دعائے خیر کے کلمات فرمائے اور اپنے عہد خلافت میں بیس تراویح کی جماعت کا حکم فرما کر اسے قائم کیا۔
’’و ان عمر رضی اللہ عنه صلاھا بالجماعة مع اجلاء الصحابة فرضی به علی رضي اللہ عنه حتی دعا له بالخیر بعد موته کما ورد و امر به فی عھدہ‘‘۔
(المبسوط لشمس الائمہ السرخسی، ص۱۴۵، ج۲، الفصل الثالث، من کتاب التراویح)
مندرجہ حوالہ سے واضح ہوگیا کہ بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس مسئلہ میں متعاون تھے اور فیصلہ شد ہ امر یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی غلط کام اور خلاف شرع بات پر جمع نہیں ہوتے۔ فلہذا بیس رکعات میں تراویح ادا کرنے کا مسئلہ شرع کے موافق ہے اور سنت طریقہ کے مخالف و متعارض نہیں۔

*اکابر حنیفہ کے مشہور فقیہ علامہ کاشانی (علاء الدین ابوبکر بن مسعود الحنفی متوفی ۵۸۷ھ) نے اپنی تصنیف ’’البدائع و الصنائع‘‘ میں یہی مسئلہ بیان کیا ہے۔
فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو جمع کیا اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنایا۔
’’فصلی بھم کل لیلة عشرین رکعة و لم ینکر علیه احد فیکون اجماعا منھم علی ذالک‘‘
(البدائع و الصنائع للکاشانی، ص۲۸۸، جلد اول، فصل فی مقدار التراویح)
یعنی حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ ان حضرات کو رمضان شریف میں ہر رات بیس رکعات نماز تراویح پڑھاتے تھے اور اس چیز پر کسی ایک صاحب نے بھی انکار نہیں کیا اور منکر نہیں جانا۔
پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے یہ امر اس مسئلہ پر اجماع ہے۔
مقصد یہ ہے کہ بیس رکعات تراویح پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اجماع پایا گیا ہے جسے اجماع سکوتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور ’’اجماع‘‘ مستقل حجت شرعیہ ہے، فلہذا اس امر کو بدعت کہنا اور خلاف سنت قرار دینا صحیح نہیں۔

*اور مشہور عالم علامہ محمد بن احمد بن رشد القرطبی متوفی ۵۹۵ھ المعروف لابن رشد المالکی نے اپنی تالیف بدایہ المجتہد میں اس مسئلہ کو اس طرح واضح کیا ہے:
’’و اختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک رحمه اللہ فی احد قولیه و ابوحنیفة و الشافعی و احمد و داود (رحمھم اللہ ) القیام بعشرین رکعة سوی الوتر‘‘
یعنی رمضان شریف میں جو نماز (تراویح) ادا کی جاتی ہے اس کی عدد رکعات میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور محدث داؤد رحمہم اللہ حضرات نے وتر کے بغیر بیس رکعات (تراویح) کو پسند کیا ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے۔
(بدایہ المجتہد لابن رشد المالکی، ص۲۱۰، جلد اول، الباب الخامس فی قیام رمضان)
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام ائمہ کرام کے نزدیک تراویح کو بیس رکعات میں ادا کرنا فیصلہ شدہ امر ہے۔

*اور حنبلی علماء میں علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ (ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ، المتوفی ۶۲۰ھ) ایک مشہور عالم دین ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور تصنیف ’’المغنی‘‘ میں مسئلہ تراویح کی وضاحت کرتے ہوئے اکابر ائمہ کا مسلم ذکر کیا ہے۔
’’و المختار عند ابی عبداللہ رحمه اللہ (الامام احمد رحمه اللہ) فیھا عشرون رکعة و بھذا قال الثوری و ابوحنیفة و الشافعی۔۔۔الخ‘‘
(المغنی لابن قدامہ ص۱۳۸۔۱۳۹، الجزء الثانی بحث صلوۃ التراویح و عدد رکعاتها)
یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک بیس رکعات (نماز تراویح پسندیدہ قول ہے اور امام ثوری رحمہ اللہ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ ان تمام ائمہ کے نزدیک بھی یہی پسندیدہ اور مختار قول ہے۔
مختصر یہ ہے کہ مذکورہ اکابرین امت کے نزدیک نماز تراویح بیس رکعات ہیں اور یہی امر ان کے ہاں مختار اور پسندیدہ ہے۔

*مشہور محدث اور فقیہ علامہ بدرالدین العینی (المتوفی ۸۵۵ھ) شارح بخاری نے بخاری شریف کی شرح میں مسئلہ ہذا کی تشریح بالفاظ ذیل ذکر کی ہے:
’’و اما القائلون به (عشرین رکعة) من التابعین فشتیر بن شکل، و ابن ابی ملیکه و الحارث الھمدانی و عطاء بن ابی رباح و ابو البختری و سعید بن ابی الحسن البصری اخوا الحسن و عبدالرحمن بن ابی بکر و عمران العبدی۔ و قال ابن عبدالبر و ھو قول جمھور العلماء و به قال الکوفیون و الشافعي و اکثر الفقھاء، و ھو الصحیح عن أبي بن کعب من غیر خلاف من الصحابة۔‘‘
(عمدۃ القاری شرح بخاری شریف للعینی، ص۱۲۸۷، ج۱۱، باب فضل من قیام رمضان)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ تابعین حضرات میں سے بیس رکعات نماز تراویح کا قول درج ذیل حضرات نے کیا ہے۔ شتیر بن شکل، ابن ابی ملیکہ، الحارث ہمدانی، عطاء بن رباح، ابوالبختری سعید بن ابی الحسن البصری، اخوالحسن، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عمران العبدی اور ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ جمہور علماء کا یہی قول ہے اور فقہائے کوفہ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر فقہاء نے بیس رکعات نماز تراویح کا قول کیا ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بغیر اختلاف کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یہی صحیح قول منقول ہے یعنی صحابہ میں کوئی معتدبہ اختلاف اس مسئلہ میں نہیں پایا گیا۔

کیا تراویح آٹھ رکعات ہیں؟ ایک سوال پھر اس کا جواب
بعض لوگوں کی طرف سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل روایت اس مسئلہ پر پیش کی جاتی ہے کہ تراویح آٹھ رکعات ہیں، اس سے زیادہ ادا کرنا سنت کے برخلاف ہے۔
’’عن أبی سلمة بن عبدالرحمان انه سأل عايشة کيف کانت صلوة رسول الله صلی الله عليه و سلم فی رمضان و لا فی غيره علی احدی عشرة رکعة يصلی اربعاً فلا تسأل عن حسنهنّ و طولهن ثم يصلـی اربعاً فلا تسأل عـن حسنهنّ و طولهـن ثم يصلی ثلثا فقلت يا رسول الله اتنـام قبل ان توتـر قال يا عايشة انّ عينی تنامان و لا ينام قلبی. ‘‘
(الموطا مالک بن انس رضی اللہ عنہ، ص۱۰۲۔۱۰۳، تحت صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الوتر، طبع نور محمدی، کراچی، مسلم شریف ص۲۶۵ جلد اول، باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم، طبع نور محمدی، دہلی، مسند اسحاق بن راہویہ ص۵۵۵، روایت نمبر ۵۸۷، جلد ثانی، طبع المدینہ المنورہ، صحیح حبان ص۱۳۵، جلد خامس تحت حدیث نمبر ۲۶۰۴)
یعنی ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی اور کس طرح ہوتی تھی؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا کہ رمضان اور غیررمضان میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت ادا فرماتے، ان کے حُسن اور طول کے متعلق کچھ نہ پوچھئے، پھر آپ چار رکعات اور ادا فرماتے۔ ان کے بھی حسن اور طول کے متعلق کچھ نہ پوچھئے، پھر اس کے بعد تین رکعات ادا فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ وتر ادا کرنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔
یہ روایت متعدد محدثین نے ذکر کی ہے جیسا کہ ہم نے اس کے بعض حوالہ جات درج کردیئے ہیں۔ روایت ہذا اپنے مقام میں صحیح اور درست ہے۔ اوپر ذکر کر دیا ہے کہ اس روایت کے پیش نظر بعض لوگ یہ اعتراض قائم کرتے ہیں کہ نماز تراویح کی آٹھ رکعات ادا کرنا سنت ہے اور اس سے زائد (بیس رکعات) ادا کرنا سنت کے برخلاف ہے اور سنت کے برخلاف عمل کرنا ناجائز ہے۔
فلہذا ہمیں صرف آٹھ رکعات سنت تراویح ادا کرنی چاہیے، اس سے زیادہ ادا نہیں کرنی چاہیے۔

الجواب
مذکورہ اعتراض کے جواب میں یہاں چند چیزیں پیش کی جاتی ہیں، ان پر نظر انصاف کرنے سے مسئلہ واضح ہوجائے گا۔
استنباط مسئلہ کے لیے محدثین کے نزدیک طریق کار یہ ہے کہ پیش نظر مسئلہ کے متعلق تمام روایات پر نظر کرتے ہیں اس کے بعد پھر مسئلہ کا استنباط کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے موافق ہم پہلے یہاں کے مسئلہ کی دیگر روایات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔
وہ اس طرح ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی نماز کے متعلق روایت پائی جاتی ہے۔
“عن عائشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی باللیل ثلاث عشرۃ رکعة، ثم یصلی اذا سمع النداء الصبح برکعتین خفیفتین”۔(انتھی)
یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعات نماز ادا فرماتے تھے۔ جب صبح کی اذان ہوتی تو ہلکی سی دو رکعتیں پھر ادا فرماتے تھے۔
(موطاء امام مالک رحمہ اللہ، ص۱۰۳، تحت صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الوتر، طبع کراچی۔
مسلم شریف، ص۳۵۴۔۳۵۵، جلد اول، باب الصلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم، طبع دہلی)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دیگر روایات میں اس طرح بھی مذکور ہے کہ:
“عن مسروق قال سالت عائشة عن صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم باللیل فقالت سبع و تسع و احدی عشرة رکعة سوی رکعتي الفجر”۔ (رواہ البخاری)
یعنی مسروق کہتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی نماز کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا کہ فجر کی دو رکعت کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات، نو اور گیارہ رکعات ادا فرماتے تھے۔
(مشکوۃ شریف، ص ۱۰۶، الفصل الاول، باب صلوۃ اللیل، طبع دہلی، صحیح ابن حبان، ص۱۳۶۔۱۳۷، جلد خامس، روایت نمبر ۲۶۲، فصل قیام اللیل)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ بالا روایات سے ثابت ہوا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی نماز سات، نو، گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات پر مشتمل ہوتی تھی۔
اسی طرح دیگر صحابہ کرام مثلاً ابن عباس، زید بن خالدالجہنی و غیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی نماز تیرہ رکعات منقول ہے۔ اس سلسلہ میں مقامات ذیل ملاحظہ فرمائیں:
(۱) مسلم شریف، ص۲۶۰، جلد اول، باب صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و دعا باللیل۔
(۲) مسلم شریف، ص۲۶۲، جلد اول، باب صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و دعاء باللیل۔
(۳) مشکوۃ شریف، ص۱۰۶، الفصل الاول باب صلوۃ اللیل، طبع نورمحمدی، دہلی۔
فلہذا یہ روایات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعات والی روایت کے بظاہر متعارض اور مخالف پائی جاتی ہیں۔
یعنی یہ روایات باعتبار عدد رکعات کے اور باعتبار ہیئت ادا کے دونوں باتوں میں حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف ہیں۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی نماز صرف گیارہ رکعات نہیں ہوتی تھی بلکہ کبھی ساتھ، کبھی نو، کبھی گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات پر مشتمل ہوتی تھی جیسا کہ مندرجہ بالا روایات ظاہر کرتی ہیں۔
تو اس صورت حال کے پیش نظر رفع تعارض کے لیے پہلے ہم محدثین سے ان میں تطبیق پیش کریں گے، پھر اس کے بعد روایت ہذا کی دیگر اشیاء بیان کریں گے، ان شاء اللہ تعالی ۔

تطبیق بین الروایات
اس مقام کی روایات میں تطبیق کے لیے:
(۱) علماء کرام نے اس مسئلہ کی اس طرح توجیہہ درج کی ہے:
’’لعل الاختلاف بحسب اختلاف الاوقات و الحالات او طول القراءۃ و قصرھا او صحة و مرض و قوۃ و فترۃ او لتبیه علی سعة الامر فی ذالک‘‘
(جمع الوسائل ص۹۱، جلد ثانی، لعلی القاری رحمہ اللہ، باب ما جاء فی عبادۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، طبع مصر)
یعنی روایات کا یہ اختلاف درج ذیل چیزوں پر محمول ہے:
۱۔ اوقات میں اختلاف۔ ۲۔ حالات میں اختلاف۔ ۳۔نماز میں قرأت کے چھوٹے اور لمبے ہونے کا اختلاف۔ ۴۔ صحت یا بیماری کی حالت کا فرق۔ ۵۔ طبعیت میں قوت اور سستی کا فرق۔ ۶۔ نیز اس مسئلہ میں امت پر آسانی اور سہولت کی رعایت کرنا۔
مختصر یہ ہے کہ ان روایات میں اختلاف کو محدثین مندرجہ بالا وجوہ پر محمول کرتے ہیں۔ فلہذا روایات میں رفع تعارض کی یہ صورت صحیح ہے اور ان روایات میں کوئی تخالف و تعارض نہیں رہتا۔

(۲) اور یہاں محدثین نے ایک یہ صورت بھی ذکر کی ہے جس سے رفع تعارض ہوجاتا ہے کہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعات والی روایت بطور اکثر الاوقات کے ذکر کی گئی ہے یعنی بیشتر اوقات میں اس طرح نماز شب ہوتی تھی لیکن بالدوام بطور قاعدہ کلیہ کے یہ روایت مذکور نہیں ہے۔
چنانچہ اس طرح سے بھی روایات کا تخالف اور تدافع دُور ہوجاتا ہے۔

(۳) اور فن حدیث کے علماء کرام نے یہاں تطبیق و توفیق بین الروایات کے لیے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت مذکورہ کے ناقل ابوسلمہ بن عبدالرحمن ہیں۔ ابوسلمہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اسے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد (قیام اللیل) کے متعلق دریافت کیا تھا کہ رمضان المبارک اور غیر رمضان میں یہ نماز یکساں تھی؟ یا کوئی فرق تھا؟؟ تو حضرت عائشہ رضی الہ عنہا نے فرمایا کہ نماز رمضان و غیرہ رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ عام طور پر نہیں ہوتی تھیں۔۔۔الخ۔
معلوم ہونا چاہیے کہ راوی کا یہ سوال صلوۃ التراویح کی بہ نسبت نہیں تھا اور نہ ہی موصوفہ رضی اللہ عنہا نے اس سے کچھ بحث کی ہے اور نہ ہی روایت ہذا کے سیاق و سباق میں تراویح کا تذکرہ تک ہے۔
مختصر یہ ہے کہ نہ سائل کے سوال میں نماز تراویح کے متعلق کچھ ذکر ہے اور نہ ہے جواب صدیقہ رضی اللہ عنہا میں۔۔۔ بلکہ یہ گفتگو صلوۃ اللیل یعنی (تہجد) کے بابت ہوئی تھی۔
مذکورہ بالا تشریح کی تائید میں ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ کی عبارت پیش کی جاتی ہے۔
جناب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فتاوی عزیزی جلد اول ص۱۱۸۔۱۱۹ بیان تراویح میں اس کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
۔۔۔دلیل برایں حمل آنست کہ راوی ایں حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن است در تتمہ ایں روایت میگوید کہ ’’قالت عائشة: فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أتنام قبل أن توتر؟ قال یا عائشة ان عیني تنامان و تنام قلبی، کذا رواہ البخاری و المسلم۔‘‘
و ظاہر است کہ نوم قبل از وتر در نماز تہجد مقصود می شود نہ در غیر آن۔ و روایات زیادت محمول بر نماز تراویح است کہ در عرف آن وقت ، بہ قیام رمضان معبر بود۔
(فتاوی عزیزی، ص۱۱۹، جلد اول، در بیان تراویح، طبع مجتبائی دہلی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر ادا کرنے سے قبل سوجاتے ہیں؟ تو جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ شارحین حدیث کہتے ہیں کہ ظاہر بات ہے کہ وتر ادا کرنے سے پہلے سوجانا تہجد کی نماز میں متصور ہوسکتا ہے لیکن اس کے ماسوا نمازوں میں متصور نہیں۔
اور اس عدد سے زیادہ نماز ادا کرنے کی روایت تراویح پر محمول ہین جن کو اس وقت قیام رمضان سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق نماز تہجد کے ساتھ ہے، نماز تراویح کے ساتھ اس کا کچھ ربط نہیں ہے۔
پھر جب روایت ہذا کا محمل تراویح نہیں ہے تو اس سے آٹھ رکعات تراویح کی خاطر استدلال قائم کرنا بالکل بے جا ہے اور صحیح نہیں ہے۔
یہ تو ’’توجیه القول بما لایرضی به قائله‘‘ و الا معاملہ ہوگا۔

فائدہ
اس بحث کے آخر میں اس چیز کا بیان کردینا فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں اور ان کے احکام و کوائف جُدا جُدا ہیں۔
*نماز تہجد ابتداء اسلام میں فرض ہوئی تھی ایک سال کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کے تطوع و تنقل ہونے کا درجہ باقی رہا۔
(۱) سورہ مزمل۔
ّ(۲) مسلم شریف جلد اول، ص۲۵۶، باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل، طبع نورمحمد، دہلی۔
اور تراویح کی صورت اس طرح ہے کہ ہجرت کے بعد ۲ ہجری میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جعل اللہ صیامه فریضة و قیامه تطوعا۔‘‘
یعنی اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کردیئے اور اس مہینہ میں رات کو نوافل مقرر کیے۔ (جسے تراویح کہا جاتا ہے)

*اور تہجد کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں ادا فرماتے تھے اور تراویح کو آپ نے اول شب میں دوسری بار نصف شب تک اور تیسری دفعہ آخر شب تک ادا فرمایا۔

*نماز تہجد کو منفرداً پڑھتے تھے۔ کبھی کوئی صاحب از راہ خود آخرساتھ کھڑا ہوگیا تو مضائقہ نہیں تھا جیسا کہ ایک دفعہ ابن عباس رضی اللہ عنہ، آکر ساتھ شامل ہوگئے۔ بخلافت تراویح کے کہ اس کو متعدد بار تداعی کے ساتھ باجماعت ادا فرمایا۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تہجد و تراویح دو الگ نمازیں ہیں اور ان کے احوال و کوائف مختلف ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ان کوائف پر نظر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ روایت مذکورہ بالا تراویح کے متعلق نہیں، بلکہ نوافل و تہجد کے متعلق ہے۔ فلہذا اس روایت کے ساتھ معترض کا تروایح کے لیے استدلال قائم کرنا ہرگز صحیح نہیں۔

الزامیات
مسائل کی بحث و تبحیث میں الزامات بھی جاری ہوتے ہیں۔ جن حلقوں کی جانب سے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت مذکورہ کے پیش نظر آٹھ رکعات تراویح پڑھنے پر زور دیا جاتا ہے اور بیس رکعت تراویح کے خلاف سنت ہونے پر شور و غل کیا جاتا ہے، ان دوستوں کے لیے بطور الزام کے ذیل چیزیں پیش کی جاتی ہیں۔ توجہ فرمادیں اور اپنے مزعومات پر نظر ثانی فرمادیں۔

*یہ دوست تراویح بمع وتر کے ابتدائی حصہ شب میں ہمیشہ ادا کرتے ہیں، یعنی نصف اول شب مقرر کرلیا ہے۔
حالانکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کو کبھی اول سب میں کبھی اوسط شب میں گاہے آخر شب میں ادا فرماتے تھے اور عموماً آخر شب تک پڑھنا زیادہ پایا جاتا ہے۔

*روایات معہودہ میں نماز چار چار رکعت ملا کر پڑھنا اور پھر وتر تین رکعت ادا کرنا آیا ہے۔
حالانکہ یہ احباب دو دو رکعت ملا کر پڑھتے ہیں، اور وتر ایک رکعت ادا کرتے ہیں اور وتر کی تین رکعت والی روایت کو ضعیف کہہ دیتے ہیں۔ گویا نصف روایت کو قابل عمل اور نصف روایت کو متروک العمل قرار دیتے ہیں۔ یہ عجیب طریقہ ہے۔۔۔ ترجیع۔

*نیز یہ حضرات نماز ہذا کو تمام ماہ رمضان میں ہمیشہ جماعت کے ساتھ پڑھنے ہیں، حالانکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے تین یوم کے بعد یہ عمل ترک کر دیا۔

*نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا سوجانے کے بعد آٹھ کر اس نماز کو اداکرنا روایت ہذا سے ثابت ہوتا ہے۔
حالانکہ یہ احباب نیند کرنے سے قبل ہی پڑھ لیتے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ اتنے قدر تغیرات اور تبدیلیوں کو خلاف سنت نہیں سمجھتے (جو خود ان کی طرف سے پائی جاتی ہیں) بلکہ صرف بیس عدد کو خلاف سنت قرار دینے میں تمام تر قوت صرف کرتے ہیں اور سنت کی مخالفت ثابت کرنے میں پوری سعی فرماتے ہیں۔

خلاصہ بحث
مختصر یہ ہے کہ گزشتہ صفحات میں خلفائے راشدین اور مشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ کار مسئلہ تراویح کے متعلق ذکر کیا گیا ہے۔
اور اس کے بعد اکابر تابعین کے فرمودات اور کبار علمائے امت کے بیانات بقدر کفایت اس مسئلہ میں درج کیے ہیں اور گیارہ رکعت والی روایت کا جواب اور محمل بھی ذکر کردیا ہے۔
اور ان تمام مندرجات کی روشنی میں تراویح کا مسئلہ اس طرح منقح ہوتا ہے کہ:
*نماز تراویح کے لیے بیس رکعات ادا کرنا فیصلہ شدہ امر مسنون ہے، بدعت نہیں۔
*صلوۃ تراویح سنت موکدہ ہے، آثار قویہ اور قرائن مضبوطہ سے ثابت شدہ ہے۔
*جماعت تراویح شعار سنت اور شعار دین ہے۔
*جماعت تراویح سنت متوارثہ ہے۔
* تراویح پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ’’اجماع سکوتی‘‘ پایا گیا اور اجماع مستقل ’’حجت شرعیہ‘‘ ہے۔
* اکابرین امت کی اکثریت کا بیس رکعات تراویح کے تعامل پر اتفاق اور اجماع پایا گیا۔
*اس پر مستہزادیہ امر ہے کہ عہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج پندرہویں صدی ہجری تک حرمین شریفین (مسجد الحرام اور مسجد نبوی) میں صلوۃ التراویح بیس رکعات کے ساتھ اہل اسلام ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
’’لاتجتع امتی علی الضلالة‘‘ یعنی میری امت گمراہی پر نہیں جمع ہوگی۔
معلوم ہوا کہ جمہور اہل اسلام اس مسئلہ میں گمراہی پر جمع نہیں ہوئے اور سنت طریقہ کی مخالفت پر اجتماع نہیں کہا بلکہ شرعی طریقہ پر ہی قائم ہیں۔
*نیز بیس رکعات تراویح کے اس ’’اجتماعی عمل کو بلاوجہ و بلاعذر شرعی کے ترک کردینا، جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات (علیکم بالجماعة۔۔۔ الخ و غیرہ) کے ساتھ متصادم ہے اور شعائر اسلام کو ترک کردینے کے مترادف ہے۔

پہلی قسط

دوسری قسط

تیسری قسط

فوائد نافعہ

از مولانا محمدنافع جهنگوی رحمة الله علیه

دوباره اشاعت: سنی آن لائن اردو

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں