اہل‌سنت ایران قانونی طریقوں سے اپنے مسائل حل کرانے پر متفق ہیں

اہل‌سنت ایران قانونی طریقوں سے اپنے مسائل حل کرانے پر متفق ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے پچیسویں تقریب ختم بخاری و دستاربندی دارالعلوم زاہدان نے اہل سنت ایران کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اہل سنت ایران کی راہ اعتدال و میانہ روی ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی نہیں سنی اور ہمیشہ اتحاد کے لیے کوشش کی۔
پانچ مئی دوہزار سولہ کو دو لاکھ کے قریب سنی باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہم اس بات پر متفق ہیں کہ مسائل و بحرانوں سے نجات کا واحد راستہ اتحاد ہی ہے۔ تمام مسالک و فرقوں کو چاہیے باہمی گفتگو اور افہام و تفہیم سے اپنے مسائل کا حل نکالیں۔ مسلم ممالک کے سربراہوں کو چاہیے ساتھ بیٹھ کر مشکلات کے حل کے لیے کوشش کریں۔
انہوں نے کہا: آج کے دور میں کسی کو شیعہ یا سنی سے حمایت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہم سب کو اسلام ہی کا دفاع کرنا چاہیے۔ آج اہل تشیع حضرات اپنے سنی بھائیوں سے خطرہ محسوس نہ کریں اور اہل سنت بھی شیعہ حضرات سے خطرہ محسوس نہ کریں۔ عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ عالمی سامراج اور عالمی صہیونی تحریک ہے جو شیعہ سنی لڑائی سے اسلام کو ختم کرنے کی خواہشمند ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم سب کو اسلام ہی کے اردگرد اکٹھے ہونا چاہیے۔ فرقہ وارانہ افکار سے دوری کرکے عالمی سوچ اپنانی چاہیے۔ مسلمانوں کے اتحاد کی سوچ ہمارا عقیدہ ہے کوئی عارضی پالیسی نہیں ہے۔
ایران کے اعلی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ہم نے فرقہ واریت کے دلدادہ عناصر کو مسترد کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے ہمارا ملک شام، عراق اور یمن کی صورتحال سے دوچار ہو۔ اللہ کا فضل ہے ہم نے کسی کے لیے شکوے کا بہانہ نہیں چھوڑا ہے۔

ایران کی سنی برادری مزید توجہ کی امید رکھتی ہے
گفتگو جاری رکھتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے بعض اعلی حکام کی موجودی میں اہل سنت ایران کے بعض مطالبات بیان کرتے ہوئے کہا: ایران میں شیعہ وسنی دونوں مسائل سے دوچار ہیں۔ لیکن اہل سنت کے اپنے مسائل ہیں اور ہمارے تمام علماءو دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ قانونی راستوں سے مسائل کا حل ڈھونڈیں۔ مرشد اعلی و دیگر حکام سے توقع ہے ایرانی اہل سنت پر مزید توجہ کرلیں۔ ہمارے لیے مزید دروازے کھول دیے جائیں۔
مذہبی آزادی کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم اپنے ملک کی حفاظت اور دفاع کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ ساتھ ساتھ ہماری توقع یہی ہے کہ ہماری آزادیوں کو محدود نہ کیا جائے۔ خاص طور پر بڑے شہروں مثلا تہران میں اہل سنت کو مسجد و نمازخانہ بنانے میں کوئی دقت در پیش نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے مسائل جتنے کم ہوں گے اتنا ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی عزت میں اضافہ ہوگا۔

مسلم حکام اقلیتوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس تقریب سے ہمارا پیغام مسلم حکام کو یہ ہے کہ سارے مسلمانوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں۔ لڑائیوں میں مصروف گروہ ساتھ بیٹھیں اور مذاکرات و باہمی گفت وشنید سے اپنے مسائل کا حل نکالیں۔
انہوں نے مزیدکہا: مسلم ممالک میں دینی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ وسطی ایشیا کے ممالک میں عوام کی آزادیوں پر قدغنیں نہ لگائی جائے۔ افسوس کا مقام ہے بعض ممالک میں مردوں کو داڑھی رکھنے کی سزا ملتی ہے اور خواتین کو برقعہ پہننے سے روکا جاتاہے۔ اس سے اللہ تعالی کا غصہ و غضب آتاہے اور انتہاپسندی و شدت پسندی کو فروغ ملتاہے۔
اہل سنت ایران کی اسلامی فقہ اکیڈمی کے چیئرمین نے کہا: انصاف کی فراہمی، مخالفین کی بات سن کر عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنا انتہاپسندی کی کمر توڑنے کا بہترین نسخہ ہے۔ اگر امریکا اور یورپ اسرائیل کو انتہاپسندی سے روکتے اور فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کرتے، آج ہمیں یہ مشکلات و مسائل دیکھنے میں نہ آتے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: اہل سنت ایران کا پیغام وسطی ایشیا کے حکام کے نام یہی ہے کہ نماز پڑھنے، داڑھی رکھنے اور حجاب اختیار کرنے پر سختی نہ دکھائیں۔ عوام کو آزاد رکھیں اور اگر کوئی چاہے دیندار بن جائے، اس کے لیے مشکلات پیدا نہ کیا جائے۔

مستقبل میں مزید مہمانوں کی آمد کے لیے چارہ جوئی کی ضرورت ہے
صدر دارالعلوم زاہدان نے صوبہ سیستان بلوچستان میں اتحاد کے وجود پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمارے صوبے میں عوام و خواص میں اتحاد اور افہام و تفہیم موجود ہے۔ ہم تمام محکموں اور اداروں کا شکرگزار ہیں جنہوں نے اس عظیم الشان تقریب کے انعقاد پر ہمارے ساتھ تعاون کیا۔
انہوںنے مزید کہا: البتہ ہمارے کچھ مہمان جو ملک کے بڑے علمائے کرام ہیں اس تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔ امید ہے آیت اللہ سلیمانی، مرشد اعلی کے خصوصی نمائندہ، کوئی چارہ جوئی کریں تاکہ مستقبل میں اس پروقار تقریب میں مزید اندرونی و بیرونی مہمان شرکت کرسکیں۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے یہ مسئلہ امت مسلمہ کے اتحاد کی تقویت کے لیے مفید ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے زاہدانی عوام کو ان کی مہمان نوازی اور جامع مسجد مکی کے ’انتظامات‘ کا شکریہ ادا کیاجو تقریب دستاربندی کے اہتمام و نظم کے لیے دن رات محنت کرچکے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں