نام
قرآن عزیز نے ان کا نام الیاس بتایا ہے اور انجیل یوحنا میں ان کو ایلیاء نبی کہا گیا ہے۔ بعض آثار میں ہے کہ الیاس اور ادریس ایک نبی کے دو نام ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اول تو ان آثار کے متعلق محدثین کو کلام ہے اور وہ ان کو ناقابلِ حجت قرار دایتے ہیں۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد ۱، ص۲۳۷۔۲۳۹)
دوسرے قرآن عزیز کا انداز بیان بھی ان آثار کی تردید کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے اَنعام اور وَالصَّافات میں حضرت الیاس کے جو اوصاف و حالات قلم بند کئے ہیں ان میں کسی ایک جگہ بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ ان کو ادریس بھی کہتے ہیں اور سورہ انبیاء میں ادریس علیہ السلام کا جس آیت میں تذکرہ ہے اس میں بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں پایا جاتا کہ جس سے ان دونوں پیغمبروں کے اوصاف و حالات کی مشابہت ہر بھی استدلال کیا جاسکے چہ جائیکہ ان حالات کو صرف ایک ہی شخصیت سے متعلق سمجھ لیا جائے۔
علاوہ ازیں مؤرخین نے حضرت ادریس علیہ السلام کا جو نسب نامہ بیان کیا ہے وہ اس نسب نامے سے قطعاً جدا ہے جو حضرت الیاس سے متعلق ہے اور اس لحاظ سے دونوں کے درمیان صدیوں کا بعد ہوجاتا ہے پس اگر یہ دونوں نام ایک ہی پیغمبر کے ہوتے تو قرآن عزیز ضرور اس جانب اشارہ کرتا اور مؤرخین ضرور ہر دو نسب ناموں کی وحدت کسی دلیل سے بیان کرسکتے اس لیے صحیح یہ ہے کہ حضرت ادریس حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کے درمیانی دور کے پیغمبر ہیں اور حضرت الیاس علیہ السلام اسرائیلی نبی ہیں اور حضرت موسی علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے ہیں چنانچہ طبری کہتے ہیں کہ یہ حضرت الیسع علیہ السلام کے چچازاد بھائی تھے اور یہ کہ ان کی بعثت حزقیل علیہ السلام نبی کی بعد ہوئی ہے۔
نسب
بیشتر مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کا نسب نامہ یہ ہے:
’’الیاس بن یاسین بن فتحاص بن یعزاز بن ہارون یا الیاس بن عاز بن یعزاز بن ہارون علیہم السلام‘‘
قرآن عزیز اور حضرت الیاس علیہ السلام
قرآن عزیز میں حضرت الیاس علیہ السلام کا ذکر دو جگہ آیا ہے، سورہ انعام میں اور سورہ والصافات میں۔ سورہ انعام میں تو ان کو صرف انبیاء علیہم السلام کی فہرست میں شمار کیا ہے اور والصافات میں بعثت اور قوم کی ہدایت سے متعلق حالات کو مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
۱: سورہ انعام: آیت ۸۵، شمارہ ۱
۲: سورہ والصافات: آیت ۱۳۱، ۱۴۳، شمارہ ۱۰؍۹
بعثت
حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے متعلق مفسرین اورمؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور بعلبک کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔
حضرت علیہ السلام کی قوم مشہور بت بعل کی پرستار اور توحید سے بیزار شرک میں مبتلاء تھی، خدا کے برگزیدہ پیغمبر نے ان کو سمجھایا اور راہ ہدایت دکھائی صنم پرستی اور کواکب پرستی خلاف وعظ و پند کرتے ہوئے توحید خالص کی جانب دعوت دی۔
قوم الیاس علیہ السلام اور بعل
یہ مشرق میں آباد سامی اقوام کا مشہور اور سب سے زیادہ مقبول دیوتا تھا یہ بت مذکر تھا اور زحل یا مشتری کا مثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔
فینیقی، کنعانی، موآبی اور مدیانی قبائل خالص طور پر اس کی پرستش کرتے تھے اس لئے بعل کی پرستش عہد قدیم سے چلی آتی تھی اور موآبی اور مدیانی اس کو حضرت موسی علیہ السلام کے عہد سے پوجتے چلے آتے تھے چنانچہ شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی کے نام سے منسوب تھا اور حضرت شعیب کو مدین میں اسی کے پرستاروں سے واسطہ پڑاتھا بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ حجاز کا مشہور بت ہُبُل بھی یہی بعل ہے۔
بعل دیوتا کی عظمت کا یہ حال تھا کہ وہ مختلف مربیانہ عطاء و نوال کی وجہ سے مختلف ناموں کے ساتھ موسوم تھا چنانچہ تورات میں سامی قوموں کی پرستش بعل کا ذکر کرتے ہوئے بعل کو بعل بریث اور بعل فغور کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے اور عقرونیوں کے یہاں بعل زبوب کا اور اضافہ پایا جاتا ہے کلدانیوں کے یہاں بعل باء کے زیر کے ساتھ بولا جاتا ہے اور وہ اکثر بیلوس یا بعل اور بعلوس بھی کہتے ہیں۔
سامی اور عبرانی زبانوں میں بعل کے معنی مالک، سردار، حاکم اور رب کے آتے ہیں اسی لئے اہل عرب شوہر کو بھی ’’بعل‘‘ کہتے ہیں لیکن جب بعل پر الف لام لے آتے ہیں یا کسی شئے کی جانب اضافت کرکے بولتے ہیں تو اس وقت فقط دیوتا اور معبود مراد ہو رہتا ہے۔
یہود یا مشرقی اسرائیلیوں کے یہاں بعل کی پرستش کے لئے مختلف موسموں میں عظیم الشان مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں اور اس کے لئے بڑے بڑے ہیکل اور عظیم الشان قربانگاہیں بنائی جاتی تھیں اور کاہن اس کو بخورات کو دھونی دیتے اور اس پر طرح طرح کی خوشبو میں چڑھاتے تھے اور کبھی کبھی اس کو انسانوں کی بھینٹ بھی دی جاتی تھی۔ (دائرۃ المعارف، البستانی جلد ۵)
کتب تفسیر میں منقول ہے کہ بعل سونے کا تھا بیس گز کا قد تھا اور اس کے چار منہ تھے اور اس کی خدمت پر چار سو خادم مقرر تھے۔ (روح المعانی جلد ۲۳، ص ۶۲۷)
حضرت الیاس علیہ السلام کے زمانہ میں بھی یمن و شام کا یہ بت ہی محبوب دیوتا تھا اور حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم دوسرے بتوں کے ساتھ خصوصیت سے اس بت کی پرستش کرتی تھی چنانچہ اسی تقریب سے قرآن عزیز میں اس کا ذکر آیا ہے۔
«وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنْ الْمُرْسَلِينَ ﴿۱۲۳﴾ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿۱۲۴﴾ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴿۱۲۵﴾ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴿۱۲۶﴾ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿۱۲۷﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿۱۲۸﴾ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿۱۲۹﴾ سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ ﴿۱۳۰﴾ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿۱۳۱﴾ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿۱۳۲﴾» (سورہ الصافات)
اور بے شبہ الیاس علیہ السلام رسولوں میں سے ہیں اور وہ وقت ذکر کے قابل ہے جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر خدا کو چھوڑے ہوئے ہو اللہ ہی تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے پس انھوں نے الیاس علیہ السلام کو جھٹلایا تو بے شبہ وہ لائے جائیں گے پکڑے ہوئے بجز ان کے جو چن لئے گئے ہیں اور ہم نے بعد کے لوگوں میں الیاس علیہ السلام کا ذکر باقی رکھا الیاس علیہ السلام پر سلام ہو بے شبہ ہم نکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے۔
تفسیری نکتہ
سورہ انعام میں حضرت الیاس علیہ السلام کا جن آیات کے اندر ذکر آیا ہے وہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت اور ان کی نسل کے انبیاء و رسل کی ایک مختصر فہرست ہے ارشاد ہے:
«…… كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿۸۴﴾وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿۸۵﴾ وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿۸۶﴾» (سورہ انعام)
ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو ہدایت عطا کی اور نوح کو ہدایت بخشی ان سے پہلے اور ابراہیم کی نسل میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کو بھی یہی راہ دکھائی اور ہم اس طرح نیک کرداروں کو نیکی کا بدلہ دیتے ہیں اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی یہی راہ دکھائی اور ہم اس طرح نیک کرداروں کو نیکی کا بدلہ دیتے ہیں اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی یہ سب صالح انسانوں میں سے تھے اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی ان سب کو ہم نے دنیا والوں پر برتری دی تھی۔
قرآن عزیز نے اس فہرست انبیاء علیہم السلام کو تین جدا جدا حلقوں میں بیان کیا ہے اس کی حکمت کیا ہے؟ اکثر مفسرین اس کے اکتشاف پر متوجہ ہوئے ہیں ان تمام اقوال میں سب سے بہتر توجیہی قول صاحب المنار کا ہے جس کا حاصل یہ ہے:
اللہ تعالی نے اس مقام پر انبیاء و رُسل کو تین جدا جدا جماعتوں میں اس لئے بیان فرمایا ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل میں خصوصی امتیازات کے پیش نظر تین قسم کی جماعتیں تھیں، بعض انبیاء علیہم السلام وہ تھے جو صاحب تخت و تاج اور صاحب حکومت تھے یا وزارت و سرداری کے مالک تھے اور بعض انبیاء علیہم السلام کی زندگی اس کے برعکس زاہدانہ اور راہبانہ تھی اور دولت و ثروت سے یکسر نفور فقیرانہ معیشت کے حامل تھے اور بعض نہ تو اپنی قوم میں حاکم اور صاحب تاج و تخت تھے اور نہ خالص راہبانہ زندگی کے حامل بلکہ ایک طرف قوم کے ہادی و پیغمبر تھے اور دوسری جانب متوسط معیشت سے وابستہ لہٰذا جب قرآن عزیز نے ان انبیاء و رسل کا ذکر کیا تو ان کے زمانہائے بعثت اور بعض دوسری خصوصیات میں مشابہت سے الگ ہو کر اسی نقطہ نظر سے ان کو تین جماعتوں میں تقسیم کردیا اورپھر ترتیب درجات کے لحاظ سے ترتیب ذخر کیا جو نبی و رسول ہونے کے علاوہ صاحب مملکت بھی تھے اور اس کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کا تذکرہ کیا جو اگرچہ صاحب مملکت نہ تھے مگر اول الذکر چھوٹی سی ریاست کے مالک تھے ثانی الذکر حکومت مصر کے وزیر وار مختار کل تھے۔ اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کا نام آیا جو نہ بڑی حکومت کے مالک اور نہ چھوٹی ریاست یا کسی حکومت کے مالک یا کسی حکومت کے وزیر اور مختار کل بلکہ اپنی قوم کے رسول اور پیغمبر بھی تھے ان کے سردار بھی!
اور دوسری فہرست میں ان انبیاء کرام کا تذکرہ ہے جنھوں نے ساری عمر زہادت میں گذاری انھوں نے نہ رہنے کو مکان بنایا اور نہ کھانے پینے کا سامان فراہم کیا۔ دن بھر تبلیغ حق میں مصروف رہتے اور شب کو یاد الہیٰ کے بعد جہاں جگہ میسر آجاتی ہاتھے کا تکیہ سر کے نیچے رکھ کر سو رہتے حضرت یحییٰ، زکریا، عیسیٰ اور الیاس علیہم السلام اس سلسلہ میں بہت مشہور اور ممتاز ہیں۔
اور تیسری فہرست میں ان پیغمبروں کا ذکر ہے جنھوں نے نہ حکومت و سرداری کی اور نہ خالص زہادت اختیار کی بلکہ متوسط زندگی سے وابستہ رہ کر حق تبلیغ و ریاست ادا کیا چنانچہ حضرت اسمٰعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام اسی درمیانی زندگی کے حامل تھے۔
موعظت
حضرت الیاس علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ اگرچہ قرآن میں بہت مختصر مذکور ہے تا ہم اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ یہود بنی اسرائیل کی ذۃنیت اس درجہ مسخ تھی کہ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں تھی جس کے کرنے پر یہ حریص نہ ہوں اور کوئی خوبی ایسی نہ تھی جس کے یہ دلدادہ ہوں، اور انبیاء و رسل کے ایک طویل اور پیہم سلسلہ کے باوجود بت پرستی عناصر پرستی کواکب پرستی، غرض غیراللہ کی پرستش کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس کے یہ پرستار نہ بنے ہوں۔
پس قرآن عزیز بنی اسرائیل سے متعلق ان واقعات میں جہاں ان کی بدبختی اور کج روی پر روشنی پڑتے ہے وہیں ہم کو یہ موعظت و عبرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اب جبکہ انبیاء و رسل کا سلسلہ منقطع ہو چکا اور خاتم النبیین کی بعثت اور قرآن عزیز کے آخری پیغام کردیا ہے تو ہمارے لئے از بس ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کی مسخ فطرت تباہ ذہنیت کے خلاف خدائی احکام کو مضبوطی سے پکڑیں اور ان میں کجروی اور زیغ سے کام لے کر ان کی خلاف ورزی کی جرأت نہ کریں، گویا ہمارا شیوہ سپرد و تسلیم ہو، انکار و انحراف نہ ہو کہ ’’اسلام‘‘ کے یہی اور صرف یہی معنی ہیں۔
قصص القرآن جلد دوم
تالیف مولانا محمد حِفظ الرحمن صاحب سیوہاروی رحمہ اللہ رفیق اعلیٰ ندوۃ المصنفین دہلی
صفحہ ۴۴۹۔۴۵۳
آپ کی رائے