شام: مارچ بدترین مہینہ، 6 ہزار افراد ہلاک

شام: مارچ بدترین مہینہ، 6 ہزار افراد ہلاک

شام میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران مارچ کا مہینہ ہلاکتوں کے اعتبار سے بدترین ثابت ہوا، اس لیے کہ اس ایک ماہ کے دوران 6 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
دو سال سے زائد مدت سے جاری اس تنازع میں ہلاکتوں کے اعتبار سے مارچ 2013ء سب سے زیادہ سنگین ثابت ہوا، اس سے قبل اگست 2012ء خاصا ہولناک ثابت ہوا تھا، جب 5 ہزار 400 سے زیادہ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
شام کے لیے انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر عبد الرحمان نے بتایا کہ مارچ میں کم از کم 6 ہزار پانچ افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے 2 ہزار 80 عام شہریوں میں سولہ سال سے کم عمر 289 بچے بھی شامل ہیں، جبکہ اس کے علاوہ 291 خواتین بھی لقمہ اجل بن گئیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ مارچ میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 2 ہزار 74 باغی بھی شامل ہیں جن میں 86 شام کے سابق فوجی ہیں، جنہوں نے شامی فوج سے منحرف ہو کر بغاوت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
تنظیم کے مطابق ان ہلاک ہونے والوں میں 588 نامعلوم باغی بھی شامل ہیں جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی اور ان میں سے اکثریت غیر ملکی جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔
انسانی حقوق کی یہ تنظیم اعدادوشمار کے لیے وکلا، اسپتال اور کارکنوں سے ملنے والی اطلاعات پر انحصار کرتی ہے۔
عبدالرحمان نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ اس دوران ایک ہزار 464 حکومتی فوجی بھی ہلاک ہوئے جبکہ 387 ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔
تنظیم کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد بھی ہو سکتی ہے لیکن اس حوالے سے صحیح اعدادوشمار معلوم کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ شام میں دونوں ہی حریف اپنے حوصلوں کو بلند رکھنے کے لیے ہلاکتوں کی درست تعداد چھپاتے ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس تنازع میں شبیہہ کے نام سے مشہور حکومتی حامی تنظیم کے بارہ ہزار سے زائد مسلح افراد بھی مخالفین کی جانب سے قتل کیے جا چکے ہیں اور ان کو کل اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ اس کے علاوہ ان ہزاروں افراد کو بھی شامل نہیں کیا گیا جنہیں تنازع کے آغاز میں شامی حکومت نے جیل بھیج دیا تھا۔
اٹھارہ فروری کو اقوام متحدہ کے کمیشن نے شام کے تنازع پر 131 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں مارچ 2011 ءسے جاری اس تنازع میں اب تک 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے بعد سے کمیشن نے تازہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم نے پیر کو جاری بیان میں کہا ہے کہ اس کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک تنازع میں 62 ہزار 594 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں 30 ہزار 782 شہری، 15 ہزار 283 فوجی اور 14 ہزار 302 باغی شامل ہیں۔
عبدالرحمان نے اس تصادم کو رکوانے کے لیے عالمی برادری کی جانب سے مزید اقدامات نہ کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا  کہ اگر صورتحال یہی رہی اور اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو آئندہ مہینوں میں ہلاکتوں کی تعداد مزید سنگین ہو جائے گی۔

ڈان نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں