تبریز؛ صفوی یلغار سے قبل اور بعد

تبریز؛ صفوی یلغار سے قبل اور بعد

ایران کا سابق دارالحکومت ’تبریز‘ ملک کے شمال مغربی صوبہ آذربائیجان میں واقع ہے۔ تبریز کا شمار ایران کے اہم ترین اور تاریخی شہروں میں ہوتاہے۔ حالیہ صوبہ ’’مشرقی آذربائیجان‘‘ کے صدرمقام تبریز کی کل آبادی آخری سرکاری مردم شماری کے مطابق چودہ لاکھ سے زائد ہے۔ انیس سو ساٹھ تک تبریز ایران کا دوسرا بڑا شہر تھا۔ اب بھی چھ سو سے زائد فیکٹریوں اور صنعتی مراکز کی وجہ سے تہران کے بعد سب سے زیادہ آلودگی اسی شہر میں پائی جاتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تہران، مشہد اور اصفہان کے بعد تبریز کا نمبر آتاہے۔
تبریز کے اصلی باشندوں کی زبان آذری ترکی ہے، یہی زبان سب سے زیادہ یہاں بولی جاتی ہے۔ ’’آذری‘‘ ترکی اور ترکمانی سے بہت قریب ہے اور اس کا شمار ترکی لہجوں میں ہوتاہے۔ کسی زمانے میں اہل سنت والجماعت کے علماء وفقہا کا شہرتبریز، صفوی یلغار کے بعد ایران کے دیگر شہروں کی طرح جبری طور پر اہل تشیع ودیگرمذاہب کا شہر بن گیا۔ تبریز کی اکثر آبادی شیعہ مسلم ہے جبکہ آشوری (عیسائی) اور یہودی برادریوں کی تعداد بہت کم ہے۔

تبریز بحیث اسلامی شہر:

آذربائیجان کا علاقہ سب سے پہلے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں فتح ہوا۔ جب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوفہ کے والی تھے، حضرت فاروق اعظم نے آذربائیجان کے فتح کا حکم دیا، والیء کوفہ نے حضرت حذیفہ بن الیمان کو ایک لشکر کے ساتھ اس مہم کیلیے روانہ کیا جو پہلے ہی نہاوند میں خیمہ زن تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں یہاں بغاوت ہوئی تو ولیدبن عقبہ نے باغیوں سے سنہ پچیس ہجری میں مقابلہ کیا جو بالاخر حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مصالحت پر رضامند ہوکر پسپا ہوئے۔
تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتاہے تبریز پہلے ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ خلیفہ متوکل کے دورمیں یمنی قبیلہ بنی تغلب کے ’’ازد‘‘ نامی شاخ791ء میں یہاں آباد ہوئی۔ تبریز کی آبادی و ترقی اس وقت دوچند ہوئی جب خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ’زبیدہ‘ نے شہر میں متعدد پل اور عمارتیں تعمیر کروائی تا کہ بانیء شہر کے لقب سے اسے یاد کیا جائے۔ ’یاقوت الحموی‘ و دیگر مصنفین کے تحریروں سے پتہ چلتاہے تبریز سمیت پورے آذربائیجان کی ترقی اور نشو ونما صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے مسلمانوں کے دور میں ہوئی۔

تبریز کی علمی شخصیات
ایران کے دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی متعدد نامور علمائے کرام، محدثین و فقہا اور عربی لغت کے ماہرین پیدا ہوئے۔ ذیل میں تبریز کے بعض ممتاز اور عہدساز علما و محدثین کے مختصر حالات پیش کریں گے۔

ابوزکریا یحیی بن علی الخطیب التبریزی، جن کی شہرت ’’الخطیب‘‘ کے عنوان سے ہے۔ آپؒ عربی لغت کے ماہر تھے اور صرف و نحو پر کامل دسترسی رکھتے تھے۔ آپ نے ابوالفتح سلیم بن ایوب الرازی سے حدیث سنی اور متعدد علما نے آپ سے احادیث روایت کی ہے جیسا کہ ابوبکر الخطیب اور محمد بن ناصر السلامی۔ آپ رحمہ اللہ نے شام میں ابوالعلاء المعری سے فن ادب کسب کیا۔ خطیب تبریزی نے بعض انتہائی گرانقدر کتابیں لکھیں جن میں سے بعض کا نام درج ذیل ہے: شرح الحماسہ، شرح دیوان المتنبی، شرح المعلقات السبع، تہذیب اصلاح المنطق، تہذیب غریب الحدیث اور شرح المفضلیات۔
ابوزکریا تبریزی نے نوجوانی میں مصر کا رخ کیا جہاں معروف نحوی امام ابوالحسن طاہر بن بابشاذ نے آپ سے عربی ادب و لغت کا فن حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ نے بغداد کو اپنا مسکن بنایا جہاں موت تک آپ مقیم رہے۔ ابوزکریا تبریزی کا انتقال جمادی الثانی 502 (1109ء) میں ہوا۔

علی بن ابراہیم بن علی التبریزی، آپ کی شہرت ابن الخازن اور کنیت ابوالحسن ہے۔ آپ 421ہجری، 1030ء، کو اندلس کوچ کرگئے۔ ایک سال بعد آپ نے ’’شفاء الصدور‘‘ نامی تفسیر پڑھائی۔ آپ نے اپنے وقت کے ممتاز محدثین و علماسے استفادہ کیا، جیسا کہ ابوالفتح بن ابی الفوارس، ابوبکر بن الطیب اور ابوحامد الاسفرائینی۔ آپ عربی زبان سے متعلقہ تمام فنون کے ماہر تھے۔ آپ شافعی مسلک کے پیروکار تھے۔ ابوبکر المصحفی نے آپ سے نقل کیا ہے: میری پیدائش سنہ 371ہجری (981)میں ہوئی، سنہ 395ہجری (1005)کو میں بغداد چلاگیا۔

محمدبن عبدالاول التبریزی،
آپ روم کے موالی تھے۔ آپ کو ایک مدرسے کی تولیت سونپ دی گئی، چنانچہ کچھ عرصے کے بعد آپ نے تدریسی خدمات سرانجام دینا شروع کیا۔آپ ایک زاہد و عابد اور صحیح العقیدہ شخص تھے۔ آپ نے مولانازادہ کے ’’ہدایۃ الحکمہ‘‘ کی شرح لکھ کر شاندار خدمت سرانجام دی۔ آپ کی وفات 955ہجری (1548) میں ہوئی۔

جان التبریزی الشافعی، آپ میرجان الکبابی القاطن کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ ایک درویش صفت صوفی اور سنی عالم تھے، چنانچہ شاہ اسماعیل صفوی نے آپ کو جان سے مارنے کی کوشش کی مگر آپ بچ گئے۔ آپ کے حالات بعض مورخین و سوانح نگاروں سے منقول ہیں۔ حلب اور دمشق میں کئی سال گزارنے کے بعد آپ اپنے وطن واپس چلے گئے۔

محب الدین التبریزی،
بعض نے آپ کا نام محب اللہ تبریزی لکھاہے۔ آپ نے تبریز سے شام کا قصد کیا اور وہیں سے حج کیلیے چلے گئے۔ شیخ محی الدین العربی سے بڑی محبت کی وجہ سے آپ نے ان کی مجاورت اختیار کرتے ہوئے کافی عرصے تک وہیں رہے۔ آپ تفسیرقرآن کا شوق رکھتے تھے اور دیگر مفسرین کے منہج پر تفسیر کیا کرتے تھے۔ البتہ بعض آیات کی تفسیر کیلیے کلام مثنوی سے استفادہ کرتے تھے۔ محب اللہ تبریزی کا انتقال 1551میں دمشق میں ہوا۔

محمدبن عبدالکریم بن علی التبریزی، آپ نے اپنے والد کے ساتھ تجارت کیلیے حلب کا سفر کیا جو شام میں واقع ہے۔ آپ نے بہاء الدین بن شداد کے ذریعے ابن رواحہ سے حدیث روایت کی ہے۔ محمدبن عبدالکریم نے سنہ 635ہجری (1238) میں علم قراء ات کے تمام فنون کو ’’سخاوی‘‘ سے حاصل کیا۔
آپ دمشق میں مقیم رہے اور وہیں ایک مسجد میں امامت کے علاوہ درس کا حلقہ بھی رکھتے تھے۔ آپ انتہائی متواضع اور بکثرت تلاوت کرنے والے تھے۔ آپ رح کی پیدائش تبریز میں 613ہجری(1216ء) میں ہوئی جبکہ وفات 706ہجری(1306ء) میں واقع ہوئی۔

تبریز میں صفویوں کی خونخواری

تاریخی کتب خاص کر صفویوں کے حامی مورخین کے حوالوں سے معلوم ہوتاہے تبریز ان شہروں میں سے ہے جس پر شروع ہی میں درندہ صفت صفویوں نے قبضہ کیا، درحقیقت تبریز پر شیطانی قبضے کے بعد ہی صفویوں نے اپنے آپ کو ایران کے بادشاہ کہلوائے۔
صفویوں نے تبریز پر مکاری و فریب کاری سے قبضہ کیا۔ پرانے زمانے میں قابضین مصالحت کراکے لوگوں کے مال اور جان پر تعرض نہیں کرتے تھے۔ لیکن وحشی صفویوں نے ہلاکوخان اور چنگیز جیسے بدنام زمانہ قاتلوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔
صفوی لشکر نے جمعہ المبارک کے دن تبریز پر حملہ کیا۔ اس دور میں شہر کی آبادی دو لاکھ سے زائد تھی، سب سنی اور شافعی مسلمان تھے جن کی زبان آذری تھی۔ شاہ اسماعیل صفوی بذات خود شہر کی جامع مسجد میں داخل ہوا، اس کی فوج قزلباش قبیلے کے لوگ تھے جو اس کے مرید بھی تھے، یہ لوگ صفوں میں گھسے ہوئے تھے۔ صفویوں نے دوران خطبہ اچانک تلوار نکال کر نمازیوں کو مسلک اہل سنت سے بیزاری اور خلفائے ثلاثہ، ابوبکر عمر عثمان رضی عنہم اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر العیاذباللہ لعنت بھیجنے کی دعوت دی۔ اس دوران وحشی قزلباشوں نے صحابہ پر لعن طعن کرنا شروع کیا اور بدبودار نعرے لگاتے رہے۔ جب نہتے لوگوں سے نہیں رہا توانہوں نے انگلی کانوں میں رکھ دیا، بالاخرسب کی گردنیں کاٹ دی گئیں۔ اس دن مسجد سے کوئی زندہ نہیں نکلا۔
مسجد خون سے لت پت ہوگئی اور صحابہ پر لعن نہ کرنے کے پاداش میں نمازیوں کو ٹکرے ٹکرے کردیاگیا۔ صفوی فوجی نعرے لگاتے تھے: بیش باد کم مباد! یعنی صحابہ پر لعنت زیادہ ہونا چاہیے کم نہیں! العیاذ باللہ۔ (عالم آرائے صفوی)

اگلے دن صفویوں نے حکم دیا تمام اہل علم، ائمہ مساجد وموذنین، قضات اور فقہا و محدثین کو گرفتارکیاجائے۔ پھر ان سے کہاگیا اہل سنت کے مسلک سے ’توبہ‘ کرو! صحابہ کرام خاص کر خلفائے ثلاثہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے برائت کا اعلان کرو۔ جو ایسا نہیں کرتا اسے شہیدکیا جاتا۔ چنانچہ صرف چند دنوں میں بیس ہزار تبریزی سنیوں کو شہیدکیاگیا۔ (سفرنامہ ہائے ونیزیان درایران: 310)۔

صفویوں کے حامی مورخین نے لکھا ہے کہ خونخوار صفویوں نے شہر کی مساجد و مدارس اور تمام دینی مراکز کو مسمار کیا۔ انہوں نے دینی کتابوں اور شہدا کے جسموں کو جلایا، پھر راکھ کے ملبوں کو ہوا کی نذرکیا تا کہ اس طرح کوفہ و کربلا میں بھائے گئے خون کا انتقام لیاجائے! (عالم آرا صفوی: 54)

تبریز میں اہل سنت کی ریشہ کنی کے بعد صفویوں نے پورے آذربائیجان سے مساجد و مدارس اور عام سنیوں کو قلع قمع کرنے کی مہم چلائی۔ اس دوران ہزاروں افراد شہید ہوئے جبکہ سینکڑوں سنی جان بچانے کیلیے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اہل علم سے دشمنی اور ان کی ریشہ کنی صفویوں کا خاص ہدف تھا۔ مسلمانوں کو شیعہ بنانے کی مہم میں خطے سے علم بھی رخصت ہوگئی اور جہالت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔

SunniOnline.us/urdu


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں