بینظیر کیس:پولیس افسران کی گرفتاری

بینظیر کیس:پولیس افسران کی گرفتاری
bhutto-killingاسلام آباد( بى بى سى) پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل کی تحقیقاتی ٹیم نے راولپنڈی کے سابق سٹی پولیس افسر ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خُرم شہزاد کوگرفتار کر لیا ہے۔

سعود عزیز اور خرم شہزاد بینظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں عبوری ضمانت پر تھے تاہم بدھ کو عدالت نے ان کی ضمانت منسوخ کر دی جس پر انہیں کمرۂ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔
انسدادِ دہشتگردی کی عدالت کے جج رانا نثار نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم نے سماعت کے دوران اس مقدمے کا ایک نیا عبوری چالان عدالت میں پیش کیا جس میں ان دونوں پولیس افسران کو کالم نمبر تین میں رکھتے ہوئے انہیں ملزم قرار دیا ہے۔
اس سے قبل چالان میں ان دونوں افسران کو کالم نمبر دو میں رکھا گیا تھا۔
عدالت نے ان افسران کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کرنے کی تین وجوہات بیان کیں جن کے مطابق اس مقدمے کی ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے جائے حادثہ کو دھونا، بینظیر بھٹو کا پوسٹمارٹم نہ کروانا اور سابق وزیراعظم کی سکیورٹی پر مامور افسر اشفاق انور کو ڈیوٹی سے ہٹانا شامل ہیں۔
ان افسران کو جمعرات کو عدالت میں پیش کیا جائے گا جبکہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے تمام ملزمان پر سات جنوری کو فردِ جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
بینظیر بھٹو قتل کے مقدمے کے سماعت کے دوران ملزمان ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خُرم شہزاد کے وکیل ملک رفیق نے کمرۂ عدالت میں صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کی ویڈیو بھی دکھائی جو اُنہوں نے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر دیا تھا۔ اس بیان میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اُن کے حکم پر بینظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹمارٹم نہیں ہوا۔
اُنہوں نے کہا کہ جب مقتولہ کا شوہر پوسٹارٹم نہیں کرونا چاہتا تو اُن کے موکل کیسے اپنے تئیں کسی کو پوسٹمارٹم سے روک سکتے ہیں۔
وکیل استعاثہ چوہدری ذوالفقار احمد نے ضمانت کی ان درخواستوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری سے رابطہ وقوعہ کے چار پانچ گھنٹے گُزرنے کے بعد کیا گیا اور اس سے پہلے تو لاش پولیس کے قبضے میں تھی اُس وقت ہی پوسٹمارٹم کروا لیا جاتا لیکن پولیس افسران نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔
اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات پولیس افسر اشفاق انور کو ایک سازش کے تحت وہاں سے ہٹایا گیا۔
عدالت نے وکیل استعاثہ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ان پولیس افسران کی ضمانت کی درخواستں مسترد کردیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جب بینظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات پولیس افسر کو ہٹادیا گیا تو پھر جتنی بھی چاہیں سکیورٹی فراہم کریں، سیکورٹی انچارج کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اس مقدمے میں ان دو پولیس افسران کے علاوہ پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں محمد رفاقت، حسنین گُل،شیر زمان، اعتزاز شاہ اور قاری عبدالرشید شامل ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں