امریکیوں سےمذاکرات کرنے والا بہروپیا تھا

امریکیوں سےمذاکرات کرنے والا بہروپیا تھا
mullah_umarنیویارک(بى بى سى) امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی اور افغان حکام سے طالبان کی طرف سے مذاکرات کرنے والا شخص اصل میں ملا اختر محمد منصور نہیں تھا بلکہ ان کا روپ دھارے ہوئے کوئی بہروپیا تھا۔

اخبار لکھتا ہے کہ کسی جاسوسی ناول کی طرح امریکی اور افغان حکام کا اب کہنا ہے کہ وہ جس شخص سے مذاکرات کرتے رہے تھے وہ اصل میں ملا منصور نہیں تھا اور انُ مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
ان مذاکرات میں شامل ایک مغربی سفارت کار کے حوالے سے اخبار لکھتا ہے کہ ’یہ وہ (ملا منصور) نہیں تھا اور ہم نے اس کو بہت سا پیسہ بھی دیا‘۔
نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ امریکی حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ انھیں شک ہے کہ یہ شخص ملا منصور تھا یا اس کا طالبان قیادت سے کوئی تعلق تھا۔ نیٹو اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس شخص سے انھوں نے تین ملاقاتیں کیں اور یہ شخص پاکستان سے آیا تھا جہاں زیادہ تر طالبان کے سرکردہ ارکان روپوش ہیں۔
یہ جعلی ملا منصور جسے نیٹو کے ایک طیارے کے ذریعے کابل لایا گیا تھا افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملا۔ طالبان کے زیادہ تر سرکردہ ارکان جن کا تعلق افغانستان کے دیہی علاقوں سے ہے ناخواندہ ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی امریکی، نیٹو یا افغان حکام نے نہیں دیکھا۔
اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس شخص کے بارے میں ابتداء سے ہی مشکوک تھے کہ یہ وہی ملا اختر محمد منصور ہے جو طالبان کی قیادت میں ملا عمر کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ قندھار شہر میں تیسری ملاقات کے بعد اس شخص کے بارے میں شک میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
ایک اور شخص نے جو ملا منصور کو کئی برس قبل مل چکا تھا کہا کہ اس شخص کا چہرہ ملا منصور سے نہیں ملتا۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی بھی امید ہے کہ یہ شخص مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ آئے گا تاہم نیٹو اور امریکی حکام کا کہنا ہے انھیں پوری طرح یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص ملا منصور نہیں ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ امریکی حکام کس طرح اس شخص کی شناخت کے بارے میں حتمی نتیجے پر پہنچے، مثلاً انگلیوں کے نشان حاصل کر کے یا کسی اور طریقہ سے۔
امریکی اور افغان حکام گزشتہ ماہ تک ان مذاکرات کے بارے میں بہت پر امید تھے۔ امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹرئیس نے بھی کہا تھا کہ مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان قیادت جن کے عام ارکان امریکی کارروائیوں سے شدید دباؤ کا شکار ہیں اب جنگ کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس نے انھیں افغانستان کے امن مذاکرات کے بارے میں ایک مضمون میں ملا منصور اور دو دیگر طالبان رہنماؤں کے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کا نام ظاہر کرنے سے ان کی جانوں اور مذاکرات کا عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ان مذاکرات میں شامل دوسرے دو اور طالبان رہنماؤں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں