قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر
تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حاجی عبدالوہاب صاحب نے اپنی پوری زندگی دین کی دعوت اور دین کی محنت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
آپ جب اپنے کسی بہت گہرے دوست یا کسی بہت پیارے عزیز، رشتے دار سے ملتے ہیں تو یہی دل چاہتا ہے ناں کہ اس سے خوب باتیں کریں،
’’باجی! میں مدینہ طیبہ سے بات کر رہی ہوں نعیمہ عتیق (فرضی نام)، مسئلہ معلوم کرنا تھا امام صاحب سے‘‘
’’خولہ آپی! ہم دونوں مل کر امی ابو سے پہلے سعی کریں؟‘‘
آج نقی آفس سے گھر کافی دیر میں آئے۔ میں کھانا بنانے میں مصروف تھی، اس لیے دیر سے آنے کی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ رات کے کھانے کے بعد دسترخوان سمیٹتے ہوئے میں نے نقی سے تاخیر ہونے کی وجہ معلوم کی۔
عید کا تصور اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے۔
[یہ بالکل سچی کہانی ہے جو پاکستان کے قیام سے سات یا آٹھ سال قبل شروع ہر کر کچھ عرصہ قبل اختتام پذیر ہوئی۔ راقمہ کہانی کے مرکزی کردار سے روحانی اور قلبی رشتہ تھا]