مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی با مقصد کام کرنے والوں کے لیے ایک نادر نمونہ ہے۔ مولانا نے اپنی زندگی قرآن و سنت کی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ قرآن و سنت کی تعلیم ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، قرآن و سنت کی تعلیم عام کرنے کے لیے انہوں نے کئی حوالوں سے خدمات سرانجام دیں جن میں مکاتیب قرآنیہ کا قیام، درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور تصنیف و تالیف شامل ہیں۔
مولانا قرآن و سنت کے ماہر عالم اور یگانہ روزگار مدرس تھے۔ انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر پڑھانے میں صرف کیا۔ وہ صبح نماز فجر کے بعد سے درس قرآن کا سلسلہ شروع کرتے اور نماز عشاء تک وقفوں کے ساتھ یہ سلسلہ قائم رہتا تھا۔ یہ سلسلہ تین مقامات پر تسلسل سے جاری رہا۔ گکھڑ کی جامع مسجدجہاں وہ نماز کی امامت اور خطابت کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے، اس مسجد میں روزانہ نماز فجر کے بعد درس قرآن پنجابی زبان میں ہوتا۔ گکھڑ میں قائم ٹیجرز ٹریننگ کالج میں موسم گرما میں نماز عصر کے بعد اور موسم سرما میں نماز عشاء کے بعد زیر تربیت اساتذہ کو درس قرآن دیتے جو تقریباً عرصہ پچیس سال تک مسلسل جاری رہا۔ جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کے منتہی درجات کے طلبہ کو ترجمہ و تفسیر قرآن پڑھایا کرتے اور دو سال میں پورے قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کرتے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ہی شعبان و رمضان کی سالانہ تعطیلات میں اساتذہ مدارس اور منتہی درجات کے طلبہ کے لیے دورہ تفسیر کا اہتمام ہوتا جس میں چالیس روز میں پورے قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر مکمل پڑھاتے تھے۔
مولانا کے ان دروس میں سے مدرسہ نصرۃ العلوم کے دروس پر مولانا کے فرزند شیخ الحدیث مولانا عبدالقدوس خان قارن کام کررہے ہیں جبکہ گکھڑ کے درس قرآن مولانا کے شاگرد مولانا محمدنواز بلوچ اور ان کے رفقاء پنجابی سے اردو کے قالب میں ڈھال کر ’’ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن‘‘ کے نام سے مرتب کر رہے ہیں اور مولانا کے مرید خاص حاجی میرلقمان اللہ کے زیر اہتمام شائع ہو رہے ہیں۔ مولانا کا درس خالص پنجابی میں ہوتا تھا جس کو اردو میں منتقل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے میر محمد لقمان، مولانا محمدنواز بلوچ اور ان کے رفقاء کو کہ انہوں نے اس علمی خزانے کو اردو میں منتقل کرکے عام کردیا ہے۔ ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن کی پہلی جلد مئی ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی تھی اور اب ۲۱ جلدوں میں یہ سلسلہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک۔
جہاں یہ مجموعہ دروس بہت سے خوبیوں کا حامل ہے، وہیں اس میں بعض اشیاء ایسی بھی آگئی ہیں جو کہ مولانا سرفراز خان صفدر کی بلند علمی نسبت اور معیار کے منافی ہیں۔ دروس و افادات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جائے اور تقریر سے تحریر کی صورت دی جائے تو مسودے کی ترتیب و تہذیب کے حوالے سے مرتبین پر کافی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ذیل میں عرض کیے جانے والے ملاحظات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔
۱۔ کتاب عمدہ جلدبندی کے ساتھ بہت معیاری کاغذ پر شائع ہورہی ہے، مگر اس میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ متن قرآنی کی غلطیاں بہت کم ہیں، مگر پھر بھی بعض لوگ جگہوں میں قرآنی الفاظ کے نقل میں سہو کاتب ہوگیا ہے۔ مثلاً جلد اول کے صفحہ ۴۳ پر آیت کریمہ [إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ…] (النساء: ۱۴۵) نقل کی گئی ہے۔ اس میں [الدَّرْكِ الأَسْفَلِ] میں الف لام کو ماقبل کے ساتھ ملاکر لکھنے کے بجائے ’’اِلّا‘‘ لکھ دیا گیا ہے جو کہ غلط ہے اور معنی کو بدل دیتا ہے۔
۲۔ کتاب کے شروع میں تو فہرست عنوانات دی گئی ہے، مگر کتاب کے درمیان میں بعض جلدوں میں عنوانات ہیں اور بعض میں کوئی عنوان نہیں ہے جو کہ جدید طباعتی معیار کے مطابق نہیں ہے اور جدید تعلیم یافتہ ذہن اس طرز سے ناآشنا ہے جو کہ کتاب کی افادیت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
۳۔ درمیان کتاب میں جہاں عنوانات لگائے گئے ہیں، ان میں بعض مقامات پر عنوانات کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ مثلاً جلد ۵ صفحہ ۲۷۳ پر عنوان ہے ’’مسکین کی تعریف‘‘۔ اگلے صفحے پر بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نیا عنوان ’’مسکین کے لیے شرائط‘‘ لگایا گیا ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے: ’’مثلاً پلنگ ہیں بسترے ہیں۔۔۔‘‘۔ اب یہ جملہ عنوان سے پہلے والے جملہ کا حصہ ہے۔ اسے اس سے علیحدہ کرکے خلجان پیدا کردیا گیا ہے۔
۴۔ دروس میں بعض جگہ اشعار غلط بھی نقل ہوئے ہیں جو کہ مولانا کے بلند شعری ذوق سے مطابقت نہیں رکھتے، مثلاً جلد ۷، صفحہ ۲۷۶ میں ایک فارسی شعر یوں نقل کیا گیا ہے:
در میان قعر تختہ بند کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
جب کہ اصل شعر میں پہلا مصرعہ یوں ہے:
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
جلد ۹ صفحہ ۵۱ میں ایک ہندو شاعر ہری چند اختر کا شعر یوں نقل ہواہے:
ملے گی شیخ کو جنت ہمیں دوزخ عطا ہو
بس اتنی بات ہے جس کے لیے دوزخ بپا ہو
جب کہ اصل شعر یوں ہے:
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا
۵۔ مولانا صفدر الفاظ و تعبیرات کے بادشاہ تھے۔ ان کی پچاس کے قریب کتب گواہ ہے کہ وہ اپنی تحریر میں ایسے الفاظ اور تعبیرات اختیار کرتے تھے کہ سخت سے سخت مخالف بھی ادب لطیف کا لطف لیے بغیر نہ رہ سکتا۔ تا ہم اس کتاب میں بعض تعبیرات ایسی بھی آگئی ہیں جو مناسب نہیں ہیں، اور اگر مولانا کی نظر سے گزرتیں تو وہ ضرور انہیں تبدیل کردیتے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کا تعارف کراتے ہوئے ایک جگہ یہ تعبیر استعمال ہوئی ہے: ’’موسیٰ بچے تھے مگر تماشے کرتے تھے۔‘‘ (جلد ۱۲، صفحہ ۳۴۱) گو کہ یہ ان کے بچپن کے حالات کے ذیل میں آئی ہے، اس اعتبار سے یہ کوئی گستاخی نہیں ہے، مگر پھر بھی ایک جلیل القدر پیغمبر کے لیے اس طرھ کے الفاظ کا استعمال مخالف کے ہاتھ میں ہتھیار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ مناسب ہے کہ اصل پنجابی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی تعبیرات کو مناسب الفاظ سے بدل دیا جائے، اردو میں متبادلات کی کمی نہیں ہے۔
اس مجموعے کی ترتیب و اشاعت کے حوالے سے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کتاب کے مرتب مولانا محمدنواز بلوچ ہیں، جبکہ ابتدائی جلدوں کی نظرثانی مولانا صفدر کے جانشین مولانا زاہد الراشدی نے کی ہے۔ مسودے کی ترتیب و تہذیب کے حوالے سے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے:
’’مولانا محمدنواز بلوچ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ مضمون کو پنجابی سے اردو میں منتقل کرتے ہیں اور اس کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے فرزند اکبر اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب اس پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ پھر اس کی کتابت ہوتی ہے، اور دونوں حضرات باری باری اس کو دوبارہ مطالعہ کرکے چیک کرتے ہیں۔‘‘ (جلد اول، ص۲۶)
یہ بات کہ مولانا زاہد الراشدی کتاب کے مسودے پر دومرتبہ نظر ثانی کرتے ہیں، ہر جلد کی ابتدا میں درج ہے۔ تا ہم مولانا راشدی نے دریافت کرنے پر بتایا کہ انھوں نے صرف پہلی دو تین جلدوں پر نظر ثانی کی ہے۔ اس کے بعد کسی جلد کا مسودہ طباعت سے قبل ان کے پاس نہیں آیا۔ اسی طرح پہلی دو جلدوں میں مولانا عبدالقدوس خان قارن کا نام نظر ثانی میں آتا رہا ہے، مگر بعد کی جلدوں میں نام نہیں آیا، اور اب نئے ایڈیشن میں تو پہلی جلدوں میں بھی ان کا نام درج نہیں ہے۔ معلوم نہیں، دونوں حضرات نے نظرثانی کاکام کیوں چھوڑ دیا ہے، حالانکہ صاحب دروس نے کتاب کی اشاعت کے اجازت نامہ میں ان حضرات کا خاص طور پر تذکرہ کیا اور انھیں علمی مشورہ اور رہنمائی کا مجاز قرار دیا ہے۔
ان حضرات کی طرف سے نظر ثانی کا سلسلہ موقوف ہونے کی وجہ سے بعض ایسی باتیں بھی مجموعہ دروس میں پیش کی جارہی ہیں جو صاحب دروس کے معروف اور جانے پہچانے رجحان فکر سے میں نہیں کھاتیں۔ مثال کے طور پر جلد نہم کے ابتدائیہ میں یہ واقع نقل کیا گیا ہے:
’’وفات سے تقریباً چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ تلونڈی موسیٰ خان مولوی نذیر صاحب سرگودھوی کی مسجد میں تبلیغی جماعت آئی جس میں کچھ علماء بھی تھے۔ مولوی نذیر صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضرت کی زیارت کے لیے چلیں، چنانچہ ہم حضرت کے پاس پہنچ گئے۔ ملاقات کے بعد علماء نے سند اجازت کا تقاضا کیا۔ حضرت شیخ نے ایک سے پوچھا کہ تو کہا (کہاں) سے فارغ ہے؟ اس نے کہا: اکوڑہ خٹک سے۔ فرمایا، اس کو سند دے دو۔ دوسرے سے پوچھا، اس نے کہا، دارالعلوم کراچی سے۔ فرمایا: اس کو سند دے دو۔ جب تیسرے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ رائیونڈ سے۔ فرمایا: اس کو باہر نکال دو، اس کے لیے کوئی سند نہیں ہے اور پھر باہر نکوادیا۔‘‘ (جلد ۹ صفحہ ۱۷،۱۸)
اس واقعے کے حوالے سے کئی اہم سوال پیدا ہوتے ہیں:
پہلی بات تو یہ کہ یہ واقعہ مولانا صفدر کے طبیعت و مزاج کی جو عکاسی کررہا ہے، وہ ان کی زندگی کے عمومی نہج سے میل نہین کھاتا۔ یہاں تبلیغی جماعت کی مخالفت سے بڑھ کر امام اہل سنت کے اخلاق اور طرز عمل پر انگلی اٹھتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ مولانا محمدسرفراز خان صفدر دیوبندی فکر کے امین تھے۔ ان کا خاص امتیاز یہی ہے کہ وہ اکابر و اسلاف کی فکر اور منہج کی پوری پوری پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اسی کی اپنے تلامذہ و متعلقین کو نصیحت فرماتے تھے۔ مولانا دیوبندی دبستان کے تمام حلقوں ، اداروں اور جماعتوں کے دینی کاموں کی تحسین و سرپرستی فرماتے تھے اور غلطیوں پر ٹوکتے بھی تھے، مگر بحیثیت مجموعی انہوں نے کبھی بھی دیوبندی فکر کی کسی جماعت یا ادارے کے کام کی مکمل نفی نہیں کی ہے۔ بلند علمی معیار اور دیوبندی فکر کی جماعتوں اور اداروں کی سرپرستی و معاونت کی بنا پر ہی ان کو دیوبندی دبستان میں ’’امام اہل سنت و الجماعت‘‘ کے عظیم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
زیر نظر مجموعہ دروس میں بعض مقامات پر تبلیغی جماعت وابستہ حضرات کی بعض بے اعتدالیوں پر متوازن اور اصلاحی تنقید کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر تبلیغی جماعت، رائیونڈمرکز اور وہاں کے دینی ماحول کی تعریف ہی ملتی ہے۔ یہ بات معلوم و معروف ہے کہ مولانا صفدر گکھڑ کی جامع مسجد میں تبلیغی جماعتوں کی آمد پر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور عوام کو ان کے ساتھ اس کار خیر میں شرکت کی ترغیب دیا کرتے تھے جس پر گکھڑ کے عوام گواہ ہیں۔
تیسری بات یہ کہ اگر مولانا صفدر تبلیغی جماعت کے نظام اور خاص طور پر رائے ونڈ کے نظام تعلیم سے اس قدر متنفر تھے، اس کی کوئی تصدیق یا تائید مذکورہ ایک واقعے کے علاوہ کہیں سے نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے کوئی اور شواہد موجود ہیں۔ اگر یہ واقعہ درست ہے تو لازماً اس کی کچھ مزید تفصیلات بھی ہیں جو مذکورہ بیان میں درج نہیں۔ محض رائے ونڈ کا طالب علم ہونے کی وجہ سے سند نہ دینا، کسی بھی قیاس کی رو سے قابل فہم نہیں۔
چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مرتب کتاب نے جو نویں جلد کے ابتدائیے میں درج کیا ہے، اس کی مناسبت اور موقع محل کیا ہے؟
اس واقعے کا زیر مجموعہ دروس سے کیا معنوی تعلق ہے؟ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مرتب کتاب مولانا محمدنواز بلوچ گزشتہ کافی عرصہ سے تبلیغی جماعت کے متعلق سخت جارحانہ اور منفی موقف رکھتے ہیں اور اپنی تقریروں میں اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ یہ مشتبہ و مشکوک واقعہ مولانا کے دروس کے ابتدائیے میں درج کرکے قارئین کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مولانا صفدر بھی تبلیغ جماعت کے بارے میں وہی رجحان رکھتے تھے جس کا پرچار ان دونوں مرتب کتاب کررہے ہیں، حالانکہ ان کے خیالات اس حوالے سے مولانا صفدر کے معلوم و معروف نقطہ نظر سے واضح طور پر متضاد ہیں۔
بہرحال، یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کتاب کے مسودے پر مولانا صفدر کے علمی جانشینان مولانا راشدی اور مولانا قارن کی نظرثانی کا سلسلہ جاری رہتا تو مرتب کی طرف سے اس طرح کے غیرذمہ دارانہ بیانات کتاب میں شامل نہ کیے جاسکتے۔ اس کے باوجود یہ بات، جو واقعاتی طور پر غلط ہے، ہر جلد کے شروع میں تسلسل کے ساتھ درج کرنا بالکل غیراخلاقی ہے کہ کتاب کا مسودہ مولانا راشدی کا نظر ثانی شدہ ہے۔
ان چند ملاحظات سے قطع نظر، مولاناسرفراز خان صفدر کے ان درسی افادات کو منظر عام پر لانا اور محفوظ کردینا بہت بڑی محنت ہے جو کہ مرتب مولانا محمدنواز بلوچ کی اپنے شیخ سے محبت اور ارادت کا عمدہ اظہار ہے۔ اسی طرح اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھانے والے جناب میرلقمان اللہ صاحب کی محنت اور اخلاص بھی مثالی ہے۔ اللہ تعالی ان سب حضرات کی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
محض توجہ دلانے کے لیے چند امور کی نشان دہی کی گئی ہے۔ کتاب کی طبع ثانی کے وقت اگر ان فروگذاشتوں کی اصلاح کرلی جائے تو ان شاء اللہ اس مجموعہ دروس کی افادیت اور فیض کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا۔
تحریر: مولانا وقار احمد
(فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، لیکچر گورنمنٹ ڈگری کالج، ہری پور)
بشکریہ ماہنامہ الشریعۃ ۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء)
Viry nice
جو مضمون آپ نے پڑھ لیا تھا ماہنامہ الشریعہ (اکتوبر ۲۰۱۵ء) میں شائع ہوئی ہے، آپ ان سے رابطہ کر کے اپنا پریشانی بیان کریں
السلام عليكم
اس تفسیر کو کهاں سے خریدا جاۓ؟