اسی رمضان کا مہینہ تھا۔ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں قیامت خیز زلزلہ آیا۔ چند لمحوں میں آسمان کو چھونے والی عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد رزقِ خاک بن گئے۔ ہزاروں ملبے تلے دب کر رہ گئے۔ اسکول پہنچنے والے بچے بھی سلامت نہ رہے۔ ان دنوں اخبارات کے صفحات پر زلزلہ زدگان کی تصاویر تھیں۔ ان پر فیچر اور مضامین تھے۔ ان کی رودادیں اور بپتائیں تھیں۔ ٹی وی چینلز نے معصوم بچوں کی ملبوں تلے دبی لاشیں براہِ راست دکھائیں۔ دنیا میں بے یارومددگار رہ جانے والوں کے نالے دلوں تک پہنچائے تو پورا پاکستان اشکبار ہوگیا۔ ایسا لگا ایک طرف زلزلہ زدہ علاقے لرزگئے ہیں تو دوسری طرف پاکستانیوں کے دل دہل گئے ہیں۔ نتیجتاً اس مہم کا اتنا اثر ہوا کہ اہلِ ثروت پاکستانیوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ ہر طرف ایثار کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ یقین نہ آیا یہ وہی قوم ہے جس کی اکثریت غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ کشمیر کی طرف رواں دواں قافلوں کا وہ منظر بھی دیکھا گیا جس کا سرا نظر نہیں آتا تھا۔ اس موقع پر مال ومتاع رکھنے والے پاکستانیوں نے تو مثالیں قائم کردیں لیکن جن کے پاس کچھ نہ تھا وہ بھی کسی سے کم نہ رہے۔
مجھے اسی کراچی کا ایک واقعہ آج بھی یاد ہے۔ ایک بڑھیا امدادی کیمپ کی طرف رواں دواں تھیں۔ سر پر سامان کی پوٹلی تھی۔ ضعف کی وجہ سے ہر چند لمحے بعد سستانے بیٹھتیں۔ کیمپ پہنچیں تو ایک کارکن نے سر سے پوٹلی اُتاردی۔ جب کھولی گئی تو امدادی کارکن کی پریشانی دیدنی تھی۔ اس پوٹلی میں کیا تھا؟ پھٹے پرانے دو جوڑے کپڑی، ایک بوسیدہ تولیہ اور دو جوڑے استعمال شدہ جوتے۔ ایک چھوٹے سے تھیلے میں تین چار قسم کی دالیں تھیں جن کا وزن دو کلو سے ہرگز زائد نہ تھا، مگر بڑھیا کے لیے یہی قیمتی اثاثہ تھا جو انتہائی اخلاص کے ساتھ پریشان حالوں کی نذر کردیا۔
اسی رمضان سے کچھ پہلے کے دن تھے۔ اہل مالاکنڈ کو نشانِ عبرت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کیا قیامت بپا ہونے کو ہے۔ لوگ رات کو چین کی نیند سوئے تھی، صبح اُٹھی، دیکھا توپوں کے دہانے کھل چکے تھے۔ راستے بند تھے۔ شاہراہوں پر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں دندنارہی تھیں۔ گولوں اور شیلنگ کی ذہن کو مفلوج کردینے والی گھن گرج تھی۔ اس حالت کو دیکھ کر بیشتر لوگوں نے گھروں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے بھی تھے جو زندگی بھر اپنے علاقوں سے نہ نکلے تھی، وہ بھی چل پڑے۔ کچھ معلوم نہیں تھا منزل کیا ہے اور کہاں جائیں گی؟ سڑکیں اور شاہراہیں بند تھیں، چنانچہ پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور تھے۔ ان قافلوں میں بوڑھی خواتین اور بچوں کی حالت انتہائی قابلِ رحم تھی۔ جب یہ لوگ پہاڑی راستوں پر کئی کئی دن کا سفر کرکے مالاکنڈ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تو شدید گرمی اور حبس نے ان کا استقبال کیا۔ جن کے رشتے دار تھی، وہ ان کے پاس چلے گئے۔ جن کا کوئی نہ تھا وہ بے منزل مسافروں کی طرح جہاں جگہ ملی، ڈھیر ہوگئے۔ میڈیا نے اس وقت بھی مہم چلائی، لیکن بدقسمتی سے اس میں ”محرکات“ زیر بحث آنے لگے۔ چنانچہ ان متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ویسا نہ رہا جس طرح زلزلہ زدگان کے لیے تھا۔ ایسا لگا گویا ”طالبان“ کے جرم میں یہ لوگ بھی شامل ہیں۔ ظلم یہ ہوا ہم اہلِ سندھ نے تو ان کے لیے دروازے بند کرنے کا اعلان کردیا۔ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ البتہ صوبہ خیبر کے لوگ تمام حالات کے چشم دید تھی، لہٰذا انہوں نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی۔ ”نیویارک ٹائمز“ کے نمایندے نے مردان میں ایک ایسے شخص سے ملاقات کی جو گدھا گاڑی چلاکر 22 متاثرہ افراد کی کفالت کررہا تھا۔
آج بھی رمضان ہے۔ ملک سیلاب کی زد میں ہے۔ اقوامِ متحدہ نے سے سونامی سے بڑی تباہی قرار دیا ہے۔ سندھ کے 15 اضلاع آفت زدہ ہیں۔ ملک بھر کے 4772 گاﺅں اور دیہات مکمل تباہ ہیں۔ پھوٹنے والی وبائیں ایک اور آزمائش بن کر آنے والی ہیں۔ 60 لاکھ متاثرین خوراک کو ترس رہے ہیں۔ سحری میں کچھ ہے نہ افطاری کے لیے کچھ، لیکن ان حالات میں بھی آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ جو سائے میں ہیں وہ اس بات پر شکر ادا کررہے ہیں کہ ہم محفوظ رہ گئے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”جب بھی کوئی آفت یا آزمائش آئی اہلِ کراچی نے ان کے لیے اپنے دل کے دروازوں کے ساتھ تجوریوں کے منہ کھول دیے۔
8 اکتوبر کا زلزلہ آیا، پورا کراچی امدادی کیمپوں سے بھرگیا۔ لوگ نقد، راشن اور کپڑوں کی صورت میں عطیات کے انبار لگانے لگے۔ روز کئی کئی جہاز شہر سے روانہ ہورہے تھے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور چینلز پاکستانیوں کے اس جذبے میں رطب اللسان تھی، لیکن آج کراچی جیسے مالدار اور ایثاروقربانی کے پیکر شہر کو دیکھیے اتنی بڑی تباہی کے بعد وہ مناظر نظر نہیں آتے جو اس کا خاصا تھے۔ آج اگر کہیں کوئی کیمپ لگا ہے وہاں راشن دکھائی دیتا ہے نہ اس پر عطیات جمع کرنے والوں کی بھیڑ ہے۔
افسوس! آج اہلِ شہر بے حسی کی چادر لپیٹے سورہے ہیں۔“ہمارے ساتھی کی بات میں وزن ہے۔ اس پر غور کرناچاہیے آخر کیا وجوہات ہیں کہ آج ہمارے اندر سے وہ جذبہ ختم ہوتا جارہا ہی؟ یقینا یہ دلیل دی جائے گی کہ غربت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کھانے کو ترس رہے ہیں۔ رمضان کی مہنگائی نے ان کی کمر توڑدی ہی، لیکن یہی غربت آج سے 5 سال قبل بھی تھی۔ جس طرح آج سے پانچ سال قبل مارکیٹوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی آج صورتِ حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یقین نہ آئے تو ذرا مارکیٹوں کی طرف رُخ کرکے دیکھ لیں۔ ابھی عید میں کئی ہفتے باقی ہیں لیکن طارق روڈ کا نظارہ کرلیں آپ یقین نہیں کریں گے یہ سیلاب زدہ ملک کا کوئی حصہ ہے۔ جس طرح آج سے دو ہزار سال قبل افلاطون نے کہا تھا: ”ہر ملک میں دو ملک اور ہر شہر میں دو شہر بستے ہیں۔ ایک امیروں کا دوسرا غریبوں کا۔“ وہی صورتِ حال آپ کو یہاں نظر آئے گی۔ ایسی دُکانیں ملیں گی جہاں سے اشیا خریدنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف طارق روڈ ہی کیا، آپ غریب علاقوں کی مارکیٹوں میں چلے جائیں۔ آپ کو محسوس نہ ہوگا یہ وہ علاقے ہیں جہاں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جہاں کی اکثریت غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ میں پھر دوہراتا ہوں…. یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ غربت ہے۔ لوگ پریشان حال ہیں لیکن میرے ناقص فہم کے مطابق یہ غربت سے بڑھ کربے حسی ہے۔
دراصل آج ہمارے اندر وہ جذبہ نہیں جسے ایثار کا نام دیا جائے۔میں نے 8 اکتوبر کے زلزلے کی مثال دی ہے۔ اس بڑھیا سے بڑھ کر شاید ہی کوئی غریب ہو، لیکن اس نے اس بڑھیا کے نقش قدم پر چلنے میں عافیت جانی جس نے مصر کے بازار میں حسنِ یوسف کو خریدنے کے لیے قیمت لگائی تھی۔ اس کے پاس کیا تھا سوت کی انٹی تھی۔ کسی نے کہا: ”اے بڑھیا! یہ کیا نادانی والی حرکت ہی؟“ بڑھیا کا جواب قابل غور تھا۔ اس نے کہا تھا: ”مجھے پتا ہے میں اس سوت کی انٹی سے یوسف کو نہیں خرید سکتی لیکن کم ازکم اس کے خریداروں میں تو میرا نام آجائے گا۔“ تو اے اہلِ وطن! اگر ہم ”یوسف“ کے خریدار نہیں بن سکتی، کم ازکم ”یوسف کے خریداروں“ میں نام تو لکھواسکتے ہیں۔ اگر کسی کو چھت فراہم نہیں کرسکتی، چھت فراہم کرنے میں معاون تو بن سکتے ہیں۔ اگر کسی کو افطاری اور سحری نہیں کرواسکتے اس میں حصہ تو ڈال سکتے ہیں۔ آٹے کا تھیلا نہیں دے سکتی، ایک روٹی دینے کی استطاعت تو رکھتے ہیں۔ زخم ٹھیک کروانے تک کی ہمت نہیں تو روئی رکھنے کی طاقت تو رکھتے ہیں۔ بے شک کسی نے سچ کہا ہے جاں بلب شخص کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی آبِ حیات بن جاتا ہے۔
جمال عبداللہ عثمان
(بہ شکریہ اداریہ جسارت)
اسی رمضان سے کچھ پہلے کے دن تھے۔ اہل مالاکنڈ کو نشانِ عبرت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کیا قیامت بپا ہونے کو ہے۔ لوگ رات کو چین کی نیند سوئے تھی، صبح اُٹھی، دیکھا توپوں کے دہانے کھل چکے تھے۔ راستے بند تھے۔ شاہراہوں پر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں دندنارہی تھیں۔ گولوں اور شیلنگ کی ذہن کو مفلوج کردینے والی گھن گرج تھی۔ اس حالت کو دیکھ کر بیشتر لوگوں نے گھروں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے بھی تھے جو زندگی بھر اپنے علاقوں سے نہ نکلے تھی، وہ بھی چل پڑے۔ کچھ معلوم نہیں تھا منزل کیا ہے اور کہاں جائیں گی؟ سڑکیں اور شاہراہیں بند تھیں، چنانچہ پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور تھے۔ ان قافلوں میں بوڑھی خواتین اور بچوں کی حالت انتہائی قابلِ رحم تھی۔ جب یہ لوگ پہاڑی راستوں پر کئی کئی دن کا سفر کرکے مالاکنڈ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تو شدید گرمی اور حبس نے ان کا استقبال کیا۔ جن کے رشتے دار تھی، وہ ان کے پاس چلے گئے۔ جن کا کوئی نہ تھا وہ بے منزل مسافروں کی طرح جہاں جگہ ملی، ڈھیر ہوگئے۔ میڈیا نے اس وقت بھی مہم چلائی، لیکن بدقسمتی سے اس میں ”محرکات“ زیر بحث آنے لگے۔ چنانچہ ان متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ویسا نہ رہا جس طرح زلزلہ زدگان کے لیے تھا۔ ایسا لگا گویا ”طالبان“ کے جرم میں یہ لوگ بھی شامل ہیں۔ ظلم یہ ہوا ہم اہلِ سندھ نے تو ان کے لیے دروازے بند کرنے کا اعلان کردیا۔ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ البتہ صوبہ خیبر کے لوگ تمام حالات کے چشم دید تھی، لہٰذا انہوں نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی۔ ”نیویارک ٹائمز“ کے نمایندے نے مردان میں ایک ایسے شخص سے ملاقات کی جو گدھا گاڑی چلاکر 22 متاثرہ افراد کی کفالت کررہا تھا۔
آج بھی رمضان ہے۔ ملک سیلاب کی زد میں ہے۔ اقوامِ متحدہ نے سے سونامی سے بڑی تباہی قرار دیا ہے۔ سندھ کے 15 اضلاع آفت زدہ ہیں۔ ملک بھر کے 4772 گاﺅں اور دیہات مکمل تباہ ہیں۔ پھوٹنے والی وبائیں ایک اور آزمائش بن کر آنے والی ہیں۔ 60 لاکھ متاثرین خوراک کو ترس رہے ہیں۔ سحری میں کچھ ہے نہ افطاری کے لیے کچھ، لیکن ان حالات میں بھی آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ جو سائے میں ہیں وہ اس بات پر شکر ادا کررہے ہیں کہ ہم محفوظ رہ گئے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”جب بھی کوئی آفت یا آزمائش آئی اہلِ کراچی نے ان کے لیے اپنے دل کے دروازوں کے ساتھ تجوریوں کے منہ کھول دیے۔
8 اکتوبر کا زلزلہ آیا، پورا کراچی امدادی کیمپوں سے بھرگیا۔ لوگ نقد، راشن اور کپڑوں کی صورت میں عطیات کے انبار لگانے لگے۔ روز کئی کئی جہاز شہر سے روانہ ہورہے تھے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور چینلز پاکستانیوں کے اس جذبے میں رطب اللسان تھی، لیکن آج کراچی جیسے مالدار اور ایثاروقربانی کے پیکر شہر کو دیکھیے اتنی بڑی تباہی کے بعد وہ مناظر نظر نہیں آتے جو اس کا خاصا تھے۔ آج اگر کہیں کوئی کیمپ لگا ہے وہاں راشن دکھائی دیتا ہے نہ اس پر عطیات جمع کرنے والوں کی بھیڑ ہے۔
افسوس! آج اہلِ شہر بے حسی کی چادر لپیٹے سورہے ہیں۔“ہمارے ساتھی کی بات میں وزن ہے۔ اس پر غور کرناچاہیے آخر کیا وجوہات ہیں کہ آج ہمارے اندر سے وہ جذبہ ختم ہوتا جارہا ہی؟ یقینا یہ دلیل دی جائے گی کہ غربت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ کھانے کو ترس رہے ہیں۔ رمضان کی مہنگائی نے ان کی کمر توڑدی ہی، لیکن یہی غربت آج سے 5 سال قبل بھی تھی۔ جس طرح آج سے پانچ سال قبل مارکیٹوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی تھی آج صورتِ حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یقین نہ آئے تو ذرا مارکیٹوں کی طرف رُخ کرکے دیکھ لیں۔ ابھی عید میں کئی ہفتے باقی ہیں لیکن طارق روڈ کا نظارہ کرلیں آپ یقین نہیں کریں گے یہ سیلاب زدہ ملک کا کوئی حصہ ہے۔ جس طرح آج سے دو ہزار سال قبل افلاطون نے کہا تھا: ”ہر ملک میں دو ملک اور ہر شہر میں دو شہر بستے ہیں۔ ایک امیروں کا دوسرا غریبوں کا۔“ وہی صورتِ حال آپ کو یہاں نظر آئے گی۔ ایسی دُکانیں ملیں گی جہاں سے اشیا خریدنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف طارق روڈ ہی کیا، آپ غریب علاقوں کی مارکیٹوں میں چلے جائیں۔ آپ کو محسوس نہ ہوگا یہ وہ علاقے ہیں جہاں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جہاں کی اکثریت غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ میں پھر دوہراتا ہوں…. یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ غربت ہے۔ لوگ پریشان حال ہیں لیکن میرے ناقص فہم کے مطابق یہ غربت سے بڑھ کربے حسی ہے۔
دراصل آج ہمارے اندر وہ جذبہ نہیں جسے ایثار کا نام دیا جائے۔میں نے 8 اکتوبر کے زلزلے کی مثال دی ہے۔ اس بڑھیا سے بڑھ کر شاید ہی کوئی غریب ہو، لیکن اس نے اس بڑھیا کے نقش قدم پر چلنے میں عافیت جانی جس نے مصر کے بازار میں حسنِ یوسف کو خریدنے کے لیے قیمت لگائی تھی۔ اس کے پاس کیا تھا سوت کی انٹی تھی۔ کسی نے کہا: ”اے بڑھیا! یہ کیا نادانی والی حرکت ہی؟“ بڑھیا کا جواب قابل غور تھا۔ اس نے کہا تھا: ”مجھے پتا ہے میں اس سوت کی انٹی سے یوسف کو نہیں خرید سکتی لیکن کم ازکم اس کے خریداروں میں تو میرا نام آجائے گا۔“ تو اے اہلِ وطن! اگر ہم ”یوسف“ کے خریدار نہیں بن سکتی، کم ازکم ”یوسف کے خریداروں“ میں نام تو لکھواسکتے ہیں۔ اگر کسی کو چھت فراہم نہیں کرسکتی، چھت فراہم کرنے میں معاون تو بن سکتے ہیں۔ اگر کسی کو افطاری اور سحری نہیں کرواسکتے اس میں حصہ تو ڈال سکتے ہیں۔ آٹے کا تھیلا نہیں دے سکتی، ایک روٹی دینے کی استطاعت تو رکھتے ہیں۔ زخم ٹھیک کروانے تک کی ہمت نہیں تو روئی رکھنے کی طاقت تو رکھتے ہیں۔ بے شک کسی نے سچ کہا ہے جاں بلب شخص کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی آبِ حیات بن جاتا ہے۔
جمال عبداللہ عثمان
(بہ شکریہ اداریہ جسارت)
آپ کی رائے