عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں

عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں

عید کا تصور اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے۔
لفظ عید تین حرفی ہے۔ عید عربی زبان کے لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹ آنا اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید چونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے، اس لیے اس کو عید کہا گیا۔ ہر وہ دن جو بطور یادگار منایا جائے اس سے عید کہا جہاتا ہے۔ انسانی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو ’’عید‘‘ کے جوہری تصور سے آشنا نہ ہو۔ ہر دور میں عید کا تصور پایا جاتا ہے، تا ہم اس کی کیفیت و ماہیت میں تھوڑی سی تبدیلی رہی ہے۔ ایک روایت کے مطابق دنیا کے پہلی عید اس دن منائی گئی جب حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی، جس روز ہابیل اور قابیل کی لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس دن عید منائی، جس دن آپ علیہ السلام پر نمرود کی آگ گل و گلزار ہوئی تھی۔ اسی طرح دیگر انبیاء علیہم السلام کی قوموں نے بھی عیدیں منائی ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے اس دن عید منائی جب ان کو مچھلی کی قید سے چھٹکارا ملا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام کی امت نے اس روز عید منائی تھی، جس روز حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ظالم فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم آج بھی ان کے یوم ولادت کی مناسب سے ’’عید‘‘ مناتی ہے اور دنیا بھر میں اس کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر ملت، قوم اور کلچر کے لوگ مختلف تہواروں کی شکل میں عیدیں مناتے آرہے ہیں۔
بعث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے لیے دو عیدیں مختص ہوئیں۔ جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک کے آخری ایام میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہو قوم کی عید ہوتی ہے، تم بھی مختلف تہواروں کی شکل میں عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالی نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہم سال شان سے عید الفطر اور عیدالاضحی منایا کرو۔ یہی مسلمانوں کی عیدیں ہیں۔ (ابوداؤد)
مسلمانوں کی پہلی عید یعنی عیدالفطر ہے۔ اس کو ’’چھوٹی عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عید الفطر وہ عید ہے جو رمضان المبارک کے روزوں کے اختتام پر خوشی اور شکریہ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ عید کا دن خوشی و مسرت کا دن ہے۔ یہ عید اللہ کی طرف سے ایک انعام اور تحفہ بھی ہے، یعنی رمضان المبارک کے روزوں کے ذریعے عبادت، قیام اللیل اور اس بابرکت مہینے کی تکمیل پر رب العزت کی طرف سے خصوصی انعام والا دن ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے۔ عید کے دن مسلمانوں کی مسرت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں اور اس خوش و تسکین کے لمحات کو رنجشوں اور الائشوں سے پاک کرکے منایا جانا چاہیے۔
آپ بھی خوب خوشیاں منائیں، مسرتوں کا اظہار نت نئے طریقوں سے کریں۔ نئے کپڑے، نئے جوتے خریدیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے کہ اس پر مسرت خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمانوں بھائیوں کو بھی نہ بھولیں۔ یہ غریب لوگ آپ کے دائیں بائیں، آپ کے پڑوس میں، آپ کے محلے میں، آپ کے علاقے میں آپ کے ملک میں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوسکتے ہیں۔ جس کی جتنی ہمت و سکت ہے، اس کو عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے کے لیے حصہ لینا چاہیے۔ ایک عام مڈل کلاس کا انسان اپنے قریبی رشتہ دار اور ہمسایوں کا خیال رکھے تو ایک صاحب ثروت انسان ملک بھر اور دنیا بھر کے غریب مسلمان بھائیوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرے۔ ریاستیں اور حکومتیں بھی اپنی سطح پر عید کی خوشیوں میں دیگر کو شامل کرسکتی ہیں اور مختلف ادارے، این جو اوز، اور مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی یہ کام کرسکتیں ہیں۔ بہت سارے ادارے یہ کام کر بھی رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک چاہیے کہ حسب توفیق غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔ عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا کوئی بھی حکم حکمت و مقصد سے خالی نہیں۔ اللہ تعالی نے صاحب نصاب مسلمانوں پر زکوۃ اور صدقہ فطر واجب کرکے یہ آفاقی پیغام دیا ہے کہ غریبوں اور مصیبت زدہ انسانوں کو عام حالات میں اور بالخصوص عید کی خوشیوں میں اپنی زکوۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعے شامل کیا جائے۔ عام طور پر مسلمان اسی مبارک مہینے میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ حکم ہے جس کے ذریعے امیر لوگ اپنی آمدنی سے شریعت کے اصولوں اور احکام کے مطابق ایک خاص رقم الگ کرکے غریب مسلمانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لیے کپڑے خرید لیے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی ماہ مبارک میں صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر و غریب مسلمان پر واجب ہے۔ اہل علم نے صدقہ فطر کی بہت ساری حکمتیں بیان کی ہیں لیکن دو حکمتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہیں، وہ بہت ہی اعلی و ارفع ہیں۔ نمبر ایک روزے میں ہونے والی کوتاہیوں کی تلافی۔ نمبر دو، مسکینوں کے لیے عید کے دن رزق کا انتظام، تا کہ وہ بھی عید کے دن لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ (ابوداؤد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی ارشاد ہے کہ مسکینوں پر اتنا خرچ کرو تا کہ وہ سوال سے بے نیاز رہیں۔ بھیک مانگنے سے گریز کریں۔ اس لیے صاحب وسعت لوگوں پر لازم ہے کہ وہ عید سے کئی دن قبل ہی صدقہ فطر ادا کریں، تا کہ فقراء عید کی تیاری کرسکیں۔
اگر ہمارے پڑوس میں، رشتہ داری میں، فیملی میں اور محلے اور علاقے میں کوئی فیملی غربت کی وجہ سے عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہوپاتی تو اس کی بھرپور مدد کرکے اس کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کسی غریب کی بے لوٹ مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ ہوسکے تو ابھی سے غریبوں کی مدد کریں تا کہ وہ عید پر کپڑے خرید سکیں۔ یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ ہمارا دینی و اخلاقی فرض ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں