انسانی زندگی میں حسن اخلاق کو جو اہمیت و عظمت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ہر مذہب اور ہر دم کے لوگ؛ بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق و کردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے
قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں…
«لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» (سورۃ التوبۃ: 128)
« عن زرارة أن سعد بن هشام قال: قلت : يا أم المؤمنين أنبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قالت : ألست تقرأ القرآن ؟ قلت : بلى . قالت : فإن خلق نبي الله صلى الله عليه وسلم كان القرآن .»
عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إنما مَثَلُ الجَلِيسِ الصالحِ وجَلِيسِ السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، ونَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إما أنْ يُحْذِيَكَ، وإما أنْ تَبْتَاعَ منه، وإما أن تجد منه رِيحًا طيبةً، ونَافِخُ الكِيرِ: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه رِيحًا مُنْتِنَةً». {متفق علیه}
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے، (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۶۶۴)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا» (الاسراء:۱۱) یعنی قدرتی طور پر انسان بڑا سریع الطبع اور جلدباز واقع ہوا ہے…
دعا عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی: پکارنا، مانگنا، التجا کرنا، التماس کرنا، مدد طلب کرنا و غیرہ ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کی داستان محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔