مولانا عبدالحمید:

مذہبی دباؤ اور نمازخانوں کو بند کرنا “آئین کی کھلی خلاف ورزی” ہے

مذہبی دباؤ اور نمازخانوں کو بند کرنا “آئین کی کھلی خلاف ورزی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے چوبیس دسمبر 2023ء میں نماز جمعہ کی تقریب کے دوران ملک کے بعض بڑے شہروں میں نماز خانوں کو سیل کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے “آئین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا اور ان نماز خانوں کو کهولنا “لوگوں کی شدید خواہش” کا نام دیا۔

کسی حکومت کو نماز روکنے کی اجازت نہیں ہے
نماز دین کے سب سے اہم ارکان میں سے ایک ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم خود بھی نماز پڑھیں اور دوسروں کو بھی نماز پڑھنے کی ترغیب دیں۔ اسلامی حکومت اور ہر وہ حکومت جو خود کو مذہبی سمجھتی ہے اس کا ذمہ ہے کہ نماز پڑھنے کے لیے سہولتیں فراہم کرے؛ «الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ» [الحج: 41] اصل اور صحیح حکومت وہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو اقتدار عطا فرماتا ہے تو وہ نماز ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، {امربالمعروف و نہی عن المنکر} کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ ملک کے کئی شہروں میں اسلامی جمہوریہ کے ایجنٹ نمازیوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے تہران اور مشہد میں کئی نمازخانے سیل کر دیے گئے ہیں۔ کسی حکومت کو خدا اور خدا کی رسول کی طرف سے نماز کو روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب انگریز ان سرزمینوں پر آیا اور اس اسلامی ملک کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا تو اس نے کبھی نماز سے نہیں روکا۔ مشہور ہے کہ انگریزوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے مخالف نہ بنو پھر جو چاہیں نماز پڑھیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: بند کیے گئے نماز خانوں میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی حکومت کے خلاف کوئی اختلافی الفاظ کہے گئے۔ “نماز” عبادت ہے اور کسی حکومت کے لئے نقصان ده نہیں ہے۔ یہ جملہ بھی استعمال کرنا بہت برا ہے کہ نماز سے روک دیا گیا ہے۔ ہر شخص جتنا چاہے نماز پڑھ سکتا ہے؛ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ شیعہ ہے یا سنی، مسلم ہے یا غیر مسلم۔ یہود و نصاریٰ بھی عبادت کرتے ہیں اور عبادت سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ ایک وقت تھا جب کمیونسٹ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن اب وہ اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سختی نہیں چلتی اور مذاہب کو آزاد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا: شیعہ یا سنی اور یہودیوں اور عیسائیوں پر مذہبی دباؤ غلط اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جب آئین اجازت دیتا ہے تو نماز خانے کو کیوں سیل کرتے ہو؟! کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ کوئی جنرل اسٹور ہے جسے آپ سیل کر رہے ہیں؟! یہ اللہ کا گھر ہے اور جو کوئی نماز میں رکاوٹ ڈالتا ہے؛ شیعہ ہو یا سنی، یہ خدا کا دشمن ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: حکام کو میرا مشورہ ہے کہ ان نادانوں کو پکڑیں جو لوگوں کو نماز پڑھنے سے روک رہے ہیں۔ ایک شہر میں جب لوگوں نے کہا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، پولیس افسر نے منع کرکے کہا تها کہ تمہاری نماز چھوڑنے کا گناہ مجھ پر ہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ لوگ دین کو نہیں سمجھے ہیں۔ نماز نہ پڑھنے کا گناہ اس شخص کے ذمہ ہے جو نماز ترک کرتا ہے۔ اب جس نے منع کیا وہ الگ گناہ کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بعض مقامات پر انہوں نے کہا ہے کہ چونکہ آپ کا تعلق مکی مسجد سے ہے اس لیے آپ کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ جو مکی مسجد میں ہیں اور مکی سے تعلق رکھتے ہیں وہ مسلمان ہیں۔ مکی کا تعلق مکہ، بیت اللہ اور نماز سے ہے۔ لہذا نماز پڑھنے والوں کو اجازت دیں اور اگر وہ کچھ غلط کہتے ہیں تو انہیں روک دیں۔

نمازخانوں کو کهول دیں؛ نماز کی آزادی ہمارے بنیادی حقوق میں سے ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: ہم سب کی خواہش ہے کہ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ نمازخانوں کو سیل نه کریں اور بند کیے گئے نمازخانوں کو کهول دیں اور امامت کرنے والوں کو دھمکی نہ دیں۔ یہ ہمارے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اگر یہ حق ہم سے چھین لیا جائے کہ ہم نماز نہیں پڑھ سکیں تو ہمارے لیے کچھ بھی نہیں رہے گی۔ اگر آپ ہمیں سب کچھ دیں لیکن ہمیں نماز پڑھنے سے روکیں تو ہم آپ سے کچھ بھی قبول نہیں کریں گے۔ یہ میرے کلمات ہمدردی اور خیرخواہی کے ہیں۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ لوگ نماز پڑھیں۔ اور جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ ہمارے لیے اور اسلامی جمہوریہ کے حکام اور اہلکاروں کے لیے قابل قدر اور قابل احترام ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
نامور عالم دین نے مزید کہا: ’’حریت‘‘ بہت اہم ہے۔ یہ جو ہم اور ایران کے لوگ آزادی کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ شراب، سود، رشوت، منشیات اور گناہوں کو چھوڑ دو۔ بلکہ ہم آزادی اظہار اور قلم کو کہتے ہیں اور تنقید برداشت کریں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ہر جگہ نماز آزاد ہو۔ بلاشبہ اس صوبے {سیستان و بلوچستان} میں نماز کا کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے لیکن ملک کے کئی صوبوں میں جہاں سنی اقلیت میں ہیں، نماز پڑھنے میں مسئلہ درپیش ہے۔ جو بھی ملک میں کہیں بھی نماز پڑھتا ہے اسے نماز پڑھنے کی جگہ اور سہولیات فراہم کی جانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: حکومت کے اہم فرائض میں سے مساجد اور نمازخانوں کی حفاظت ہے۔ قرآن پاک فرماتا ہے: «وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا» اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے نہ ہٹائے تو مسلمانوں کی مساجد اور یہودی اور عیسائی عبادت گاه تباہ ہو جائیں گے۔ آج اسرائیل کے خلاف ہمارا ایک احتجاج یہ ہے کہ غزہ میں مسلمانوں کی مساجد اور عیسائی گرجا گھروں کو کیوں تباہ کیا؟! پوری تاریخ میں مسلمانوں نے ایک بھی یہودی یا عیسائی عبادت گاہ کو تباہ نہیں کیا۔ عبادت گاہیں مقدس ہیں اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔

ایرانی اہل سنت کا “قومی میڈیا” میں کوئی حصہ نہیں رہا ہے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب کے دوران اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں “میڈیا کی آزادی” کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: میڈیا کی آزادی کا تحفظ ضروری ہے۔ ہم سنیوں کا “قومی میڈیا” میں کوئی حصہ نہیں ہے جس کا انتظام بیت المال سے ہے، جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں مذاہب، جماعتوں اور گروہوں کے پاس میڈیا موجود ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ ہمارے پاس کم از کم ایک میڈیا اور سیٹلائٹ ٹی وی ہو تاکہ ہم اپنے دینی اور دنیاوی مسائل کو پیش کرسکیں۔ لیکن اب ہمارے پاس ایک ویب سائٹ ہے جو شروع سے بلاک کی گئی ہے اور کچھ لوگ اسے مکمل بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: آراء وسیع ہونی چاہئیں۔ جب حکمران کا خیال بلند ہو تو وہ قوم کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔ لیکن اگر حکمران کا نقطہ نظر تنگ ہوا تو وہ اور قوم الجھن میں جائے گی۔ اس لیے ہماری سفارش ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر لوگوں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ بلکہ تمام فریقین کو صبر اور ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ہم مل جل کر زندگی گزار سکیں۔ بعض علماء جیل میں ہیں۔ جبکہ انہوں نے کچھ خاص نہیں کہا اور ان معاملات پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ علماء کو قید کرنے کا کوئی اچھا ردعمل نہیں ہوتا۔ ان سے بات چیت کی جائے اور انہیں رہا کیا جائے تاکہ وہ معاشرے کی خدمت کریں۔ ہم سب توقع رکهتے ہیں کہ نوجوانوں، خواتین، طلباء اور دانشوروں کو رہا کیا جائے۔ ان کی آزادی اچھی اور خیر کا باعث ہوتی ہے۔

مصلی اور زاہدان شہر کے اردگرد کے سیکورٹی ماحول کو ہٹایا جائے
مولانا عبدالحمید نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں کہا: ہم نے صوبائی حکام سے کہا ہے کہ ہم اس طرف سے بھی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ بهی کوشش کریں تاکہ مسائل اور مشکلات میں کمی آئے۔ کیونکہ دونوں طرف سے بدامنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں آپ نمازیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، آپ لوگوں نے نماز جمعہ میں امن کے لیے دی گئی سفارشات پر عمل کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: صوبائی سپلائی کونسل اور اس کے حکام کو میری سفارش ہے کہ زاہدان میں سیکورٹی کی صورتحال کو کم کیا جائے اور اس حفاظتی ماحول کو مصلی کے آس پاس سے ہٹا دیا جائے۔ حفاظتی ماحول پیدا کرنا حکومت کے لیے لاگت اور لوگوں کی زندگیوں اور کاروبار کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ مصلی اور زاہدان کے شہر اور آس پاس سے حفاظتی ماحول کو ہٹانے سے حکومت کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور لوگ مزید آرام دہ محسوس کرتے ہیں اور معیشت کو کم نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کا قیام خوش آئند ہے، امید ہے کہ یہ جنگ بندی ہمیشہ کے لیے ہوگی
اس طویل تنازع کو ختم کرنے کے لیے عالمی برادری کو کوئی ’’بنیادی حل‘‘ سوچنا چاہیے

زاہدان کی خطیب جمعہ نے غزہ میں “عارضی جنگ بندی” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم بہت خوش ہیں اور ہمارے دل کو سکون مل چکا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہو گئی ہے اور فریقین کے اسیروں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ دونوں طرف کے اسیروں کی رہائی ہمارے لیے خوش آئند ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جنگ بندی ہمیشہ کے لیے ہوگی، کیونکہ جنگ کے بہت نقصانات ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کبھی جنگ کی تمنا نہ کرو، اگر آپ کسی جنگ میں پھنس جائیں اور دشمن آپ پر حملہ کرے اور آپ کا مقابلہ دشمن سے ہو تو مزاحمت کریں، لیکن جنگ کی خواہش نہ کریں۔ غزہ کی جنگ میں یہ بات درست ہے کہ اسرائیل اور یہودیوں کو نقصان پہنچا اور جانی نقصان بهی ہوا۔ لیکن فلسطینیوں کا نقصان زیادہ ہوا ہے کیوںکہ ان کے شہر کو تباہ کر دیا گیا اور تقریباً 15 ہزار فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ کسی بھی طرف سے لوگوں کا قتل خاص طور پر عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور بے گناہوں کا قتل کسی کو پسند نہیں۔
شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: عالمی برادری اور اسلامی ممالک کو اس طویل تنازعات کو ختم کرنے کے لیے کوئی بنیادی حل تلاش کرنا چاہیے۔ عالمی برادری اور دنیا کی تمام حکومتوں کو اس حوالے سے ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو کر بنیادی حل پر اتفاق کرتے ہوئے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کریں۔

زاہدان کا زلزلہ ایک الہی انتباہ اور حقوق الله اور حقوق العباد کے پاسداری کے لیے تھا
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں زاہدان میں آنے والے حالیہ زلزلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: زاہدان میں زلزلے کا واقعہ بہت کم و نادر ہے اور یہ زلزلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں اور نوجوانوں کو بیدار کرنے اور ہم سب کو گناہ، ظلم اور ناانصافی کو روکنے اور حقوق الله اور حقوق العباد کا احترام کرنے کے لیے ایک تنبیہ تھی۔
انہوں نے کہا: اگر اس زلزلے کی طاقت تهوڑی زیادہ ہوتی تو ہمارے شہر کو تباہ کردیتا اور ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل اور کرم تھا جس نے ہمیں ملبے کے نیچے نہیں ڈالا اور اس کے لیے ہمیں سجدہ شکر بجا لانا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں