ابتدائیہ:
امام غزالی ؒ اسلامی تاریخ کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جس کی کرنیں چوتھی صدی ہجری کے وسط میں دنیائے اسلام میں نمودار ہوئیں۔
امام نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر وہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی اسلامی فلسفہ، علم و حکمت، تصوف و روحانیت ، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔امام غزالی نے اپنے دور میں موجود علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ یقینا اپنے دور کے نابغہ ¿ روزگار اشخاص میں شمار ہوتے تھے ۔ امام غزالی کے علمی و فکری کارناموں پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے حالات زندگی پر بھی گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور ان کے تجدیدی کارناموں کا احاطہ بھی لازم ہے ۔ کیوں کہ آپ کی شخصیت اور افکار کے اثرات آج بھی اسلامی فکر میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں جن سے معاشرتی اصلاح کا سبق لیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم ان کے مختصر حالات زندگی کا تذکرہ کرکے ان کے تجدیدی کام کے مقاصد اور اس دور کے حالات کا تجزیہ پیش کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ موجودہ دور میں آپ کی تعلیمات سے کس طرح رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
ولادت:
آپ کا نام محمد، حجةالاسلام نصب، غزالی عرف ہے۔ سلسلہ نصب یہ ہے محمد بن محمد بن احمد۔ خراسان کے اضلاع میں ایک ضلع کا نام طوس ہے۔ اس میں دو شہر ہیں۔ طاہران اور طوفان ۔ امام صاحب ۰۵۴ھ میں طاہران میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ رشتہ فروش تھے اور اس مناسبت سے ان کا خاندان غزالی کہلاتا تھا۔
علم کی دہلیز پر پہلا قدم:
امام صاحب کے والد اتفاق سے تعلیم سے محروم رہ گئے تھے۔ جب مرنے لگے تو انہوں نے امام صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی امام احمد غزالی کو اپنے ایک دوست کے سپرد کیا اور کہا کہ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں لکھنے پڑھنے سے محروم رہ گیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکوں کو تعلیم دلائی جائے تاکہ میری جہالت کا کفارہ ہوجائے۔ ان کے مرنے پر اس پر اس بزرگ نے امام صاحب کو تعلیم دلانی شروع کی۔ چنانچہ ابتدائی مراحل طے کرائے۔ لیکن چند روز کے بعد تعلیم کا کوئی سامان نہ رہا، امام صاحب کے والد جو مصارف تعلیم کے لیے دے گئے تھے۔ وہ ختم ہو چکی۔ اس بزرگ نے امام صاحب سے کہا تمہارے والد کا سرمایہ ختم ہو چکا ہے اور میرے پاس کچھ مال و متاع نہیں اس لیے تم دونوں بھائی کسی مدرسے میں داخل ہوجا و۔ چنانچہ امام صاحب نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔
تعلیم کا دوسرا دور:
امام صاحب نے فقہ کی کتابیں احمد بن محمد رافکانی سے پڑھیں۔ یہ بزرگ امام صاحب کے شہر میں مقیم تھے اور یہیں درس دیتے تھے۔ اس کے بعد جرجان کا قصد کیا اور امام بو نصر اسمٰعیلی کی خدمت میں تحصیل شروع کی۔ اس زمانے میں درس کا یہ قاعدہ تھا کہ استاد جو تقریر کرتا تھا شاگرد اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے اور نہایت محفوظ رکھتے تھے۔ ان یادداشتوں کو تعلیقات کہتے تھے چنانچہ امام صاحب نے بھی تعلیقات کا مجموعہ تیار کیا تھا۔چند روز کے بعد وطن کو واپس آئے۔ اتفاق سے راہ میں ڈاکہ پڑا اور امام صاحب کے پاس جو سامان تھا ، سب لٹ گیا۔ اس میں وہ تعلیقات بھی تھیں جو امام ابونصر نے لکھوائی تھیں۔ امام صاحب کو اس کے لیے نہایت صدمہ تھا۔ چنانچہ ڈاکو وں کے سردار کے پاس گئے اور کہا کہ” میں اپنے اسباب اور سامان میں صرف اس مجموعہ کو مانگتا ہوں کیونکہ میں نے انہی کے سننے اور یاد کرنے کے لیے یہ سفر کیا تھا ۔ وہ ہنس پڑا اور کہا کہ تم نے خاک سیکھا جب کہ تمہاری یہ حالت ہے کہ ایک کاغذ نہ رہا تو تم کورے رہ گئے۔“ یہ کہہ کر اس نے وہ کاغذ واپس دے دیئے۔ امام صاحب پر اس کے طعنہ آمیز فقرے کا اثر کیا۔ چنانچہ وطن پہنچ کر وہ یادداشتیں زبانی یاد کرنی شروع کیں یہاں تک کہ پورے تین برس صرف کر دیئے اور ان کے حافظ بن گئے۔
اعلا تعلیم کا سفر:
امام غزالی کے غیر معمولی حافظہ نے ان کو علم کے زینے پر چڑھنا دوسروں کی نسبت آسان کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے اندر موجود علمی کی تحصیل کی جستجو آپ کو بے چین کیے رکھتی۔ آپ نے مزید تعلیم کے لیے علمی مراکز کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
نیشاپور کا سفر:
اب امام صاحب کی تحصیل علمی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ معمولی علماءان کی تشفی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے تکمیل علوم کے لیے وطن سے نکلنا چاہا۔ اس زمانے میں اگرچہ تمام ممالک اسلامیہ میں علوم و فنون کے دریا بہہ رہے تھے۔ ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک قصبہ مدرسوں سے معمور تھا۔ بڑے شہروں میں سیکڑوں علماءموجود تھے اور ہر عالم کی درسگاہ بجائے خود ایک مدرسہ تھا لیکن ان سب میں دو شہر علم و فن کے مرکز تھے۔ نیشاپور اور بغداد کیونکہ خراسان فارس اور عراق کے تمام ممالک میں دو بزرگ استاد اکمل تسلیم کیے جاتے تھے یعنی امام السحر مین اور علامہ ابو اسحق شیرازی اور یہ دونوں بزرگ انہیں دو شہروں میں درس دیتے تھے۔ نیشاپور چونکہ قریب تھا اس لیے امام صاحب نے وہیں کا قصد کیا اور امام الحرمین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
نیشاور کی علمی حالت:
نیشاپور کی علمی حالت یہ تھی کہ اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ جو تعمیر ہوا یہیں ہوا جس کا نام بہیقیہ تھا امام الحرمین (امام غزالی کے استاد) نے اسی مدرسے میں تعلیم پائی تھی۔ بغداد کا نظامیہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا کہ نیشاپور میں بڑے بڑے دارالعلوم قائم ہوچکے تھے۔ ایک وہی بہیقیہ جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے۔ دوسرا سعدیہ تیسرا نصریہ جس کو سلطان محمود کے بھائی نصر بن سبکتگین نے قائم کیا تھا۔ ان کے سوا اور بھی مدرسے تھے جن کا سرتاج نظامیہ نیشاپور تھا۔ امام الحرمین اسی مدرسے کے مدرس تھے۔
امام غزالی کے دور کے سیاسی حالات:
امام صاحب کے علمی کارناموں پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے دور کے سیاسی حالات کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ ان کام کی نوعیت اور پیش آمدہ مسائل کا ٹھیک طور پر ادراک ہو سکے۔
خاندان سلجوقیہ:
سلطنت عباسیہ کے کمزور ہونے پر ملک میں ہر طرف خودمختاری کی ہوا چل گئی حکومت و سلطنت کے بہت سے دعویدار نکل آئے۔ ان سب میں ترکوں کا قدم سب سے آگے رہا اور دیکھتے دیکھتے وہ تمام دنیا پر چھا گئے چنانچہ اس وقت سے دنیائے اسلام کا بڑا حصہ انہی کے اقتدار میں رہا اور آج بھی امام صاحب کے زمانے میں انہی ترکوں میں سے سلجوقی خاندان فرمانروا تھا۔ اس خاندان کا سب سے پہلا تاجدار طغرل بیگ تھا جس نے ۹۲۴ھ میں اول طوس پر قبضہ کیا اور رفتہ رفتہ ۷۳۴ھ میں عراق میں قابض ہو گیا۔ طغرل نے ۵۵۴ھ میں انتقال کیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا الپ ارسلان اور الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ تخت نشین ہوا جس کے زمانے میں سلجوقیوں کی حکومت انتہائی شباب پر پہنچ گئی۔ اس کی نسبت ابن خلکان کے یہ الفاظ ہیں ” ملک شاہ کی سلطنت نے وہ وسعت حاصل کی کہ کوئی سلطنت اس حد تک نہیں پہنچی۔ اس کی سلطنت طول میں کاشغر سے لے کر جو ترکستان کا سب سے اخیر شہر ہے اور جس کی سرحد چین سے ملتی ہے بیت القدس کا سب سے اخیر شہر ہے اور جس کی سرحد چین سے ملتی ہے بیت المقدس تک، اور عرض میں قسطنطنیہ سے لے کر خرز تک پھیلی ہوئی ہے اس نے تمام ممالک میں سرائیں اور پل تیار کیے اور ہر قسم کے ٹیکس موقوف کر دیئے۔ اس کے زمانے میں امن و امان کی یہ حالت تھی کہ ترکستان سے لے کر اخیر سرحد تک قافلے بغیر کسی حفاظت اور بدرقہ کے سفر کرتے تھے اور ایک آدمی تنہا ہزاروں کوس جدھر چاہتا چلا جاتا تھا لیکن اس کی حکومت کی عظمت اور شان جو کچھ تھی اس کے وزیر نظام الملک کی بدولت تھی۔
امام غزالی بحیثیت سفیر اور ان کی کامیابی:
ملک شاہ سلجوقی نے ۵۸۴ ھ میں جب وفات پائی تو شاہ محل ترکان خاتون نے امراءاور اہل دربار کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس کا چار سالہ بیٹا محمود تاج و تخت کا مالک ہو۔ اس کے ساتھ خلیفہ مقتدر باﷲ سے جواس وقت بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا،درخواست کی کہ خطبہ بھی اس کے نام کا پڑھا جائے خلیفہ نے اپنی کمزوری کے لحاظ سے یہ قبول کیا کہ سلطنت کے تمام کاروبار ترکان خاتون ہی کے زیر حکومت انجام پائیں لیکن خطبہ عباسی ہی خاندان میں قائم رہے۔ ترکان خاتون کو خطبہ و سکہ پر اصرار تھا اور وہ کسی طرح اس کے خلاف راضی نہ ہوتی تھی جب یہ مشکل کسی طرح حل نہ ہو سکی تو امام غزالی کو سفیر بنا کر بھیجا گیا اور ان کے حسن تقریر یا تقدس کے اثر سے خاتون راضی ہو گئی اور ایک بڑا فتنہ فرو ہو گیا۔
خلیفہ مستظہر باﷲ کی فرمائش:
۷۸۴ھ میں جب خلیفہ مقتدر باﷲ نے وفا ت پائی اور خلیفہ مستظہر باﷲ عہدہ خلافت کے لیے پیش کیا گیا تو اس کی بیعت میں اور اراکین سلطنت کے ساتھ ساتھ امام غزالی بھی شریک تھے۔ مستظہر نہایت علم دوست اور قدردان تھا اس لیے امام صاحب سے خاص قسم کا ربط رکھتا تھا ۔ فرقہ باطنیہ نے جب بہت زور پکڑا تو خلیفہ مذکور نے امام صاحب کو حکم بھیجا کہ ان کی رد میں کتاب لکھیں چنانچہ امام صاحب نے خلیفہ کے نام سے اس کتاب کو موسوم کیا اور مستظہر نام رکھا۔ یہ حکومت و خلافت کے تعلقات کی حالت تھی۔ علمی پایہ یہ تھا کہ ان کے درس میں تین سو مدرسین اور سو امراءاور رفقاءحاضر ہوتے تھے۔ درس کے علاوہ وعظ بھی فرماتے تھے اور چونکہ وہ وعظ میں بھی ہمیشہ علمی مطالب بیان کرتے تھے۔ یہ وعظ بھی درحقیقت علمی لیکچر ہوتے تھے چنانچہ ان وعظوں کو شیخ صاعد بن الفارس المعروف باین اللسان قلم بند کرتے جاتے تھے۔ اس طرح ایک سو تراسی وعظ قلم بند کیے گئے جن کا مجموعہ دو صخیم جلدوں میں تیار ہوا۔ امام صاحب نے اس مجموعہ پر نظرثانی کی اور اس نے مجالس غزالیہ کے نام سے شہرت پائی۔
امام غزالی سلاطین کے دربار میں:
دوسری طرف نظام الملک نے تعلیم و تدریس کووہ ترقی دی کہ تمام اسلامیہ میں چپہ چپہ پر مکاتب اور مدارس قائم کیے۔ روضتین فی اخبار الدولتین میں لکھا ہے کہ کوئی شہرایسانہ تھا جہاں اس کا تعمیر کردہ مدرسہ موجود نہ ہو یہاں تک کہ جزیرہ ابن عمر میں بھی جو بالکل ایک گوشے میں واقع ہے اور کسی کا وہاں گزر نہیں ہوتا ایک بڑا مدرسہ قائم ہے۔ علامہ قزدینی نے آثار البلاد میں تصریح کی ہے کہ اس زمانے میں مدارس کا سالانہ خرچ ۴ لاکھ اشرفیاں تھیں۔ اس کے سوا اپنے کل جاگیرات کا دسواں حصہ تعلیم کے مصارف پر وقف کر دیا تھا۔ نظام الملک خود صاحب علم و فضل اور اہل فضل و کمال کا بہت بڑا قدردان تھا۔ ابو علی فارمودی جب اس کے دربار میں آتے تھے تو ہمیشہ ان کے لیے مسند خالی کر دیا کرتے تھے۔ امام الحرمین اور ابوسحق شیرازی کا نہایت ادب کرتا تھا اور جب وہ دربار میں آتے تھے تو کھڑا ہوجاتا تھا۔ اس قدردانی اور پایہ شناسی نے اس کے دربارکو اہل کمال کا مرکز بنا دیا تھا۔ سیکڑوں علماءو فضلا ہمیشہ اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے اور وہ ان کے علمی مناظرات میں شریک ہو کر خود بھی دخل دیتا تھا اور مستفید ہوتا تھا۔
علماءسے مناظرہ:
امام غزالی کا مزاج ابتدا میں جاہ پسند تھا۔ امام الحرمین کی صحبت میں انہوں نے علماءکی قدر و منزلت کا جو سماں دیکھا اس کی طبیعت میں اس ولولے کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔ جاہ و منصب کی امید میں امام غزالی نے درسگاہ سے نکل کر نظام الملک کے دربار کا رخ کیا چونکہ ان کی علمی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔ نظام الملک نے نہایت تعظیم و تکریم سے ان کا استقبال کیا۔ امام غزالی نظام الملک کے دربار میں پہنچے تو سیکڑوں اہل کمال کا مجمع تھا۔ نظام الملک نے مناظرے کی مجلس منعقد کی۔ متعدد جلسے ہوئے اور مختلف علمی مضامین پر بحثیں رہیں۔ ہر معرکے میں امام صاحب ہی غالب رہے۔ اس کامیابی نے امام صاحب کی شہرت کو چمکا دیا اور تمام اطراف میں ان کے چرچے پھیل گئے۔ نظام الملک نے ان کو نظایہ کے مسند درس کے لیے انتخاب کیا۔ امام صاحب کی عمر اس وقت ۴۳ برس سے زیادہ نہ تھی۔ اس عمر میں نظامیہ کی افسری کا حاصل کرنا ایک ایسا فخر تھا جو امام صاحب کے سوا کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
امام غزالی کی مذہبی خدمات:
یہ تو تھیں امام غزالی کی زندگی میں پڑنے والے سیاسی اثرات جنہوں نے امام صاحب کو نہ صرف اہل علم طبقہ کی سوچ کو پڑھنے کا موقع فراہم کیا بلکہ حکمرانوں کے خیالات سے ہم آہنگ ہونے کا بھی موقع فراہم کیا۔اسی سبب کے تحت مذہبی طور پر امام غزالی کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی اور انہوں نے اپنا رجحان مذہب کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی۔
مذہبی خیالات میں انقلاب:
امام صاحب نے جس طرح کی تعلیم و تربیت پائی تھی اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے اہل مذہب کے طریقے کے سوا کسی طرف التفات نہ کرتے چنانچہ ان کے تمام ہم عصروں کی یہی حالت رہی چنانچہ امام صاحب ابتداءہی سے ایک خاص قسم کی طبیعت رکھتے تھے۔ ان کا مذاق یہ تھا کہ ان کے سامنے جس قدرمذہبی فرقے موجود تھے اور جو ان کے عقائد و خیالات تھے سب پر وہ غور کی نگاہ ڈالتے تھے ۔ نیشاپور وغیرہ مےں سلجوقیہ کے اثر کی بدولت دوسرے مذاہب کا بہت کم چرچا تھا لیکن بغداد دنیا بھر کے عقائد اور خیالات کا دنگل تھا۔ اس زمین پر قدم رکھ کر ہر شخص پورا آزاد ہوجاتا تھا اور جو کچھ چاہتا تھا کہہ سکتا تھا۔ شیعہ، سنی ، معتزلی، زندیق، ملحد، مجوسی ، عیسائی بغداد ہی کے دنگل میں باہم علمی لڑائیاں کرتے تھے اور کوئی شخص ان سے معترض نہیں ہو سکتا تھا۔ اس آزادی کی بدولت یہاںہر قسم کے مختلف عقائد و خیالات پھیلے ہوئے تھے۔ امام غزالی بغداد پہنچے تو ایک ایک فرقہ اور اہل مذہب سے ملے اور ان کے خیالات سنے ۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ ” میں ایک ایک باطنی، ظاہری، فلسفی، متکلم، زندیق سے ملتا تھا اور ان کے خیالات دریافت کرتا تھا ۔ ان مختلف فرقوںکے ساتھ ملنے جلنے سے امام صاحب پر جو اثر ہوا اور جس نے ان کی زندگی کا قالب بالکل بدل دیا۔ اس کو ہم امام صاحب ہی کے الفاظ میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھتے ہیں۔
امام صاحب کے خیالات:
”اس وقت جس قدر فرقے موجود تھے چار تھے۔ متکلمین،باطنیہ، فلاسفہ اور صوفیہ ۔ میںنے ایک ایک فرقے کے علوم و عقائد کی تحقیقات شروع کیں۔ علم کلام کے متعلق جس قدر قدماءکی تصنیفات تھیں سب پڑھیں لیکن وہ میری تسلی کے لیے کافی نہ تھیں۔ کیونکہ ان میں جن مقدمات سے استدلال ہو رہے تھے ان کی بنایاتقلید ہے یا اجماع یا قرآن و حدیث کے نصوص اور یہ چیزیں اس شخص کے مقابلے میں بطور صحت سے پسند نہیں کی جاسکتیں جو بدیہیات کے سوااور کوئی کسی چیز کا قائل نہ ہو۔
فلسفہ:
فلسفہ کاجس قدر حق یقینی ہے یعنی ریاضیات وغیرہ اس کو مذہب سے تعلق نہیں جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے یعنی الہیات وغیرہ وہ یقینی نہیں۔
باطنیہ:
فرقہ باطنیہ کے عقائد کا تمام تر مدار امام وقت کی تقلید پر ہے۔ لیکن امام صاحب کی حقیقت کی نسبت کیونکر یقین کیا جا سکتا ہے۔ اب صرف تصوف باقی رہ گیا ہے۔
تصوف:
یہ فن دراصل عملی فن ہے اس لیے عمل کے بغیر نتیجہ حاصل نہیںہوسکتا تھا اور عمل کے لیے ضروری تھا کہ زہد و ریاضت اختیار کی جائے۔ ادھر اپنے اشغال کو دیکھا تو کوئی خلوص پر مبنی نہ تھا۔ درس و تدریس کی طرف طبیعت کا میلان اس وجہ سے تھا کہ وہ جاہ پرستی اور شہرت عامہ کا ذریعہ بھی۔ ان واقعات نے دل میں تحریک پیدا کی۔ مگر چھ ماہ تک میں نے لعل و لیت میں گزارے۔ نفس کسی طرح گوارہ نہ کرتا تھا کہ ایسی بڑی عظمت و جاہ سے دست بردار ہوجائے۔ ان ترددات میں نوبت یہاں تک آگئی کہ زبان رک چکی اور دنیا بھی بند ہو گیا۔ رفتہ رفتہ ہضم کی قوت جاتی رہی آخر طبیبوں نے ہاتھ اٹھا لیا اور کہا کہ ایسی حالت میں علاج کچھ سودمند نہیں ۔میں نے سفر کا قطعی ارادہ کر لیا۔ علماءارکان سلطنت کو جب یہ خبر ہوئی تو سب نے نہایت الحاج کے ساتھ روکا اور حسرت سے کہا کہ ”یہ اسلام کی بدقسمتی ہے۔“
امام غزالی تصوف کی راہ پر:
طبیعت میں بے چینی تھی، لہٰذا رخت سفر باندھنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ یہ کام اگرچہ طبیعت پہ بہت گراں تھا مگر امام صاحب نے اس کو اختیار کر کے سب کچھ ترک کر دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
بے خودی کی حالت میں بغداد سے نکلنا:
امام صاحب مدت سے ترک دنیا کا ارادہ کررہے تھے لیکن تعلقات کی بندش چھوٹ نہیں سکتی تھیں۔ ایک دن وعظ کہہ رہے تھے کہ اتفاق سے ان کے چھوٹے بھائی امام احمد غزالی جو صوفی اور صاحب حال تھے۔ آنکلے اور یہ اشعار پڑھے۔
واصحبت تھدی وہ تھتدی وتسمع وعظا وہ تسمع
تم دوسروں کو ہدایت کرتے ہو مگر خود ہدایت نہیں پکڑتے اور وعظ سناتے ہو لیکن خود نہیں سنتے۔
نیا حجر الشحر حتیٰ متیٰ تسن الحدید وہ تقطع
اے سنگ انسان کب تک تو لوہے کو تیز کرتا رہے گا لیکن خود نہ کاٹے گا۔
دمشق کا قیام اور مراقبہ و مجاہدہ:
بغداد سے نکل کر شام کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر مجاہدہ و ریاضت میں مشغول ہوئے۔ روزانہ یہ شغل تھا کہ جامع اموی کے غربی مینار پر چڑھ کر دروازہ بند کرلیتے اور تمام تمام دن مراقبہ اور ذکر و شغل کیا کرتے۔متصل دو برس تک دمشق میں قیام رہا۔ اگرچہ زیادہ اوقات مجاہدہ و مراقبہ میں گزرے تاہم علمی اشغال بھی ترک نہیں ہوئے۔ جامع اموی جو دمشق کی گویا یونیورسٹی تھی۔ اس میں غربی جانب جو زاویہ تھا وہاں بیٹھ کر ہمیشہ درس دیا کرتے تھے۔
بیت المقدس آمد:
دو برس کے بعد دمشق سے بیت المقدس کا رخ کیا۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ جب امام صاحب دمشق میں تھے تو ایک دن مدرسہ امینیہ میں تشریف لے گئے۔ مدرس نے جو امام صاحب کو پہنچانتا نہ تھا سلسلہ تقریر میں کہا کہ غزالی نے یہ لکھا ہے ۔ امام صاحب اس خیال سے کہ یہ امر عجب اور غرور کا سبب ہوگا۔ اسی وقت دمشق سے نکل کھڑے ہوئے۔ بہرحال دمشق سے نکل کر بیت المقدس پہنچے یہاں بھی یہ شغل رہا کہ صخرا کے حجرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیتے اور مجاہدہ کیا کرتے۔
حج و زیارت:
بیت المقدس کی زیارت سے فارغ ہو کر مقام خلیل گئے جہاں حضرت ابراہیم ؑ کی قبر ہے۔ پھر حج کی نیت سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا قصد کیا۔ مکہ میں مدت تک قیام رہا ۔ اسی سفر میں مصر و اسکندریہ پہنچے اور اسکندریہ میں مدت تک قیام رہا۔ابن خلکان کا بیان ہے کہ یہاں سے یوسف بن تاشقین سے ملنے کے لیے مراکش جانا چاہتے تھے لیکن اسی اثناءمیں یوسف کا انتقال ہو گیا اور اس ارادے سے باز آنا پڑا۔
مقام خلیل میں:
۹۹۴ھ میں جب مقام خلیل میں پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا۔
کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جا وں گا۔
کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا۔
کسی سے مناظرہ اور مباحثہ نہ کروں گا۔ چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے۔
مجددانہ کردار کی ادائیگی:
امام صاحب کو جس چیز نے بیاباں نوردی پر آمادہ کیا تھا وہ تحقیق حق اور انکشاف حقیقت کا شوق تھا۔ امام صاحب کا بیان ہے کہ” مجاہدات اور ریاضات نے قلب میں ایسی صفائی پیدا کر دی کہ تمام حجاب اٹھ گئے اور جس قدر شک و شبے تھے آپ سے آپ جاتے رہے۔ انکشاف حق کے بعد امام صاحب نے دیکھا کہ زمانہ کا زمانہ مذہب سے متنزلزل ہو رہا ہے اور فلسفہ و عقلیات کے مقابلے میں مذہبی عقائد کی ہوا اکھڑی جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر ارادہ کر لیا کہ عزلت کے دائرے سے نکلیں ۔حسن اتفاق یہ کہ اسی زمانے میں سلطان وقت کا حکم پہنچا کہ درس کی خدمت قبول کریں یہ حکم اس قدر تاکیدی تھا کہ امام صاحب انکار کرتے تو ناراضی تک نوبت پہنچتی۔ امام صاحب اب بھی متامل تھے اور اسی لیے صوفی احباب سے مشورہ کیا سب نے عزلت کے چھوڑنے کی رائے دی۔ بہت سے مقدس لوگوں کو خواب میں القا ہوا کہ یہاں امر خدا کی خوشنودی کا باعث ہے سب سے بڑھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ حدیث وا رد ہے کہ خدا ہر نئی صدی کے آغاز پر ایک مجدد پیدا کرتا ہے۔ اتفاق سے پانچویں صدی کے آغاز کو ایک ہی مہینہ باقی تھا۔
نظامیہ نیشاپور میں تدریس:
دو قعدہ ۹۹۴ ھ میں امام صاحب نے نیشا پور کے مدرسہ نظامیہ میں مسند درس کو زینت دی اور بدستور پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہوئے ۔ امام صاحب نے سلطان وقت کے لفظ سے جس کو تعبیر کیا ہے وہ فخر الملک تھا جو نظام الملک کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور اس زمانے میں سنجر سلجوقی ( پسر ملک شاہ) کا وزیر اعظم تھا وہ نہایت علم دوست اور شناس تھا امام غزالی کے تقدس اور جامعیت کا شہرہ سن کر خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت عقیدت ظاہر کی اس کے ساتھ نہایت عاجزی سے عرض کی کہ نظامیہ نیشاپور کی مدرسی قبول فرمائیے۔
امام صاحب کے حاسدین:
امام صاحب کی مقبولیت عام جس قدر روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی ان کے حاسدوں کا گروہ بھی بڑھتا جاتا خصوصاً امام نے احیاءالعلوم میں جس طرح تمام علماءو مشائخ کی ریاکاریوں کی قلعی کھولی تھی اس نے ایک زمانے کو اپنا دشمن بنا دیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک گروہ لٹیرے مخالفت پر کمر باندھی اور علانیہ ان کی آبروریزی کی فکر میں ہوتے۔
امام صاحب کی مخالفت:
امام صاحب نے آغاز شباب میں ایک کتاب منخول نامی اصول فقہ میں تصنیف کی تھی۔ جس میں ایک موقع پر امام ابوحنیفیہ پر نہات سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی تھی اور نہایت گستاخانہ الفاظ ان کی شان میں استعمال کیے تھے۔ امام کے مخالفین کے لیے یہ عمدہ دستاویز تھی یہ لوگ سنجر کے دربار میں یہ کتاب لے کر پہنچے اور اس پر زیادہ آب و رنگ چڑھا کر پیش کیا۔ اس کے ساتھ امام صاحب اور تصنیف کے مطالب ہی الٹ پلٹ کر بیان کیے اور دعویٰ کیا کہ امام غزالی کے عقائد زندیقانہ اور ملحدانہ ہیں۔
سلطان سنجر کا امام صاحب کو طلب کرنا:
سنجر خود صاحب علم نہ تھے کہ بد گوئیوں کی شکایتوں کا خود فیصلہ کرسکتے ۔ جبکہ دستار والوں نے جو کچھ کہا اس کو یقین آگیا اور امام غزالی کی حاضری کا حکم دیا۔ امام صاحب عہد کرچکے تھے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جائیں گے۔ ادھر فرمان شاہی کا بھی لحاظ تھا۔ اس لیے مشہد رضا تک اور وہاں ٹھہر گئے۔ سلطان کو زبان فارسی میں ایک مفصل خط لکھا۔
سنجر کے دربار میں:
اس خط کو پڑھ کر سلطان امام صاحب کی زیارت کا مشتاق ہوا اور درباریوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ رو در رو باتیں کرکے ان کے عقائد و خیالات سے واقف ہوں۔ مخالفین کو یہ حال معلوم ہوا تو ڈرے کہ کہیں بادشاہ پر امام صاحب کا جادو نہ چل جائے اس لیے یہ کوشش شروع کی کہ امام صاحب شکر گاہ تک آئیں لیکن دربار میں نہ جانے پائیں۔ امام صاحب ناچار لشکرگاہ میں آئے اور معین الملک سے ملے۔ معین الملک بڑے عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا اور ان کے ساتھ ساتھ سنجر کے دربار تک گیا۔ سنجر کی طرف خطاب کیا اور ایک طویل تقریر کی جو بعینہ ان کے مکاتبات میں درج ہے ۔ گفتگو کے خاتمہ پر کہا کہ مجھ کو دو باتیں عرض کرنی ہیں۔ ایک یہ کہ طوس کے لوگ پہلے ہی بدانتظامی اور ظلم کی وجہ سے تباہ تھے۔ اب سردی اور قحط کی وجہ سے بالکل برباد ہوگئے۔ ان پر رحم کر، خدا تجھ پر بھی رحم کرے گا۔ افسوس مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوںکی گردنیں طوق ہائے زریں کے بار سے۔“ دوسرے یہ کہ میں بارہ برس گوشہ نشین رہا۔ پھر فخر الملک نے یہاں آنے کے لیے اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ کوئی شخص ایک بات بھی سچ کہنی چاہے تو زمانہ اس کا دشمن بن جانا ہے۔ لیکن فخر الملک نے نہ مانا اور کہا کہ بادشاہ وقت عادل ہے اگر کوئی خلاف بات ہو گئی تو میں سینہ سپرہوں گا۔“ ” میری نسبت جو مشہور کیا جاتا ہے کہ میں امام ابوحنیفہ پر طعن کیے ہیں، محض غلط ہے۔امام ابوحنیفہ کی نسبت مبراوہی اعتقاد ہے جو میں نے کتاب احیاءالعلوم میں لکھا ہے ۔ میں ان کو فن فقہ میں انتخاب روزگار سمجھتا ہوں۔
سنجر پر امام صاحب کی تقریر کا اثر:
امام صاحب کی تقریر سن کر مخبر نے کہا کہ آج عراق اور خراسان کے تمام علماءکا مجمع ہوتا تو سب لوگ آپ کے کلام سے مستفید ہوتے۔ تاہم یہ حالات آپ نے اپنے ہاتھ سے قلم بند کیجئے تاکہ تمام ممالک میں مشتہر کیے جائیں جس سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حالت کی نسبت کیسا ہے۔ آپ کو درس کی خدمت ضرور قبول کرنی ہوگی۔ فخر الملک جس نے آپ کو نیشا پور کے قیام پر مجبور کیا تھا میرا ادنیٰ خادم تھا میں حکم دوں گاکہ تمام علما سال میں ایک بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کی مشکلات آپ سے حل کریں۔
مخالفین اب بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئے۔ امام صاحب کے پاس جا کر ان سے پوچھا کہ آپ مذہب میں کس کے مقلد ہیں۔ امام صاحب نے کہا عقلیات و عقل کا ، اور منقولات میں قرآن کا، آئمہ میں کسی کا مقلد نہیں ہوں۔ ۰۰۵ ھ میں سلطان محمد بن مالک بادشاہ نے جب نظام الملک کے بڑے بیٹے احمد کو وزیر اعظم مقرر کرکے قوام الدین نظام الملک صدر الاسلام لقب دیا تو اس نے امام صاحب کو پھر بغداد میں بلانا چاہا۔
دربار خلافت سے امام صاحب کی طلبی:
احمد بن نظام الملک نے خود امام صاحب کو جو خط لکھا اس کا ماحصل یہ تھا کہ اگرچہ آپ جہاں تشریف رکھیں گے وہی جگہ درسگاہ عام بن جائے گی لیکن جس طرح آپ مقتدائے روزگار ہیں آپ کی قیامگاہ بھی وہی شہر ہونا چاہیے جو تمام اسلام کا مرکز اور قبلہ گاہ ہو تاکہ تمام دنیا کے ہر حصے کے لوگ باآسانی وہاں پہنچ سکیں اور ایسا مقام صرف دارالسلام بغداد ہے۔
امام صاحب کا انکار و معذرت:
امام صاحب نے ان خطوط و فرامین کے جواب میں ایک طول طویل خط لکھا اور بغداد نہ آنے کے متعدد عذر لکھے۔ غرض خلافت و سلطنت کی طرف سے تو بہت کچھ ہوئی امام صاحب نے صاف انکار کیا اور گوشہ عافیت سے باہر نہ نکلے۔
فن حدیث کی تکمیل:
امام صاحب نے حدیث کا فن اثنائے تحصیل میں نہیں سیکھا تھا۔ اب اس کی تکمیل کا خیال آیا۔ حافظ عمر بن ابی الحسن الرداسی ایک مشہور محدث تھے۔ وہ اتفاقیہ طوس میں آئے ۔ امام صاحب نے ان کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور ان سے صحیح بخاری و مسلم کی سند لی۔ حافظ ابن عاکر نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے صحیح بخاری ابو اسمعیل حفنی سے پڑھی۔
اولاد و تلامذہ:
امام صاحب نے اولاد ذکور نہیں چھوڑی۔ چند لڑکیاں تھیں جن میں سے ایک کا نام ست المنیٰ تھا۔ ان کی اولاد کے سلسلے کا پتہ دور تک چلتا ہے۔ تیوی نے کتاب المصباح مجدالدین سے امام صاحب کے لقب کی نسبت ایک روایت نقل کی ہے۔ شیخ مجددالدین چھٹی پشت میں ست المنیٰ کی اولاد میں سے تھے۔ اور ۱۰۷ھ میں موجود تھے۔ امام صاحب کے شاگرد نہایت کثرت سے تھے۔ خود امام صاحب نے ایک خط میں ایک ہزار تعداد بیان کی ہے۔ ان میں بعض بڑے نامور گزرے ہیں۔ محمد بن تومرت جس نے اسپین میں خاندان تاشفقین کو مٹا کر ایک نہایت عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ڈالی امام کا ہی شاگرد تھا۔
امام غزالی کے قلمی شاہکار:
امام غزالی کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے درس و تدریس کا کام بھی کیا، بادشاہوں کے دربار میں بھی علمی مباحث کا حصہ بنے اور اس سے بڑھ کر علمی میدان میں قلم سے اپنے رشتے کو مربوط رکھتے ہوئے بے شمار کتب تصنیف کیں اور اصلاح معاشرہ، اسلامی فلسفہ اور دیگر باطل خیالات و افکار کو موضوع بحث بنایا ۔
احیاءالعلوم کی تصانیف:
ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے احیا العلوم اسی سفر میں تصنیف کی اور دمشق میں کتاب مذکور کو ہزاروں شائقین نے خود انہی سے پڑھا ۔ بعض نامور مورخوں نے اس واقعہ کی صحت سے اس بناءپر انکار کر لیا کہ اس قسم کے سفر میں اس طرز کی کتاب کیونکر تصنیف کی جاسکتی ہے؟ بے شبہ امام صاحب جس جزب بے خودی حالت میں سفر کے لیے اٹھے۔ اس کے لحاظ سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ قیاس میں نہیں آسکتا۔ لیکن زیادہ تحقیق اور کاوش سے معلوم ہوتا ہے کہ دس برس کی مدت سفر میں ان کی حالت یکساں نہیں رہی۔ مدتوں اگر ان پر جذب و محویت طاری رہی تو برسوں وہ سلوک کے عالم میں بھی رہے اور اس زمانے میں وہ ہر قسم کے علمی اشغال میں مصروف رہتے تھے۔ رسالہ قواعد العقائد میں ہے انہوں نے اسی سفر میں بیت المقدس والوں کی فرمائش پر لکھا۔
چند مشہور تصانیف:
امام صاحب کی چند نامور تصانیف کے نام یہ ہیں:
احیاءالعلوم حجة الحق
اسرار الانوار الرسالة القدسیہ
بیان فضائح عقیدة المصباح
بیان تصولین التساضعی قواعد العقائد
تلبیس ابلیس کیمیائے سعادت
تنبیہہ الغافلین منخول
جواہر القرآن وجیز
آخری تصنیف:
امام صاحب اخیر میں اگرچہ بالکل عابد بن گئے تھے اور شب و روز مجاہدات و ریاضات میں بسر کرتے تھے۔ تاہم تصنیف و تالیف کا مشغلہ بالکل ترک نہ ہوا۔ اصول فقہ میں مستصفی جو ان کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تصنیف ہے۔ ۴۰۵ھ کی تصنیف ہے۔ اس سے ایک برس بعد امام صاحب نے انتقال کیا۔
روزانہ تصانیف کا اوسط:
علامہ نودی نے بستان میں ایک مستند شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصنیفات اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا۔ کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ۶۱ صفحے روزانہ ہوا اور یہ مقدار امام صاحب کے اور مشاغل کے ساتھ درحقیقت حیرت انگیز ہے۔
امام صاحب کی تصنیفات اور یورپ:
یہ عجیب بات ہے کہ امام صاحب کی تصنیفات کے ساتھ جو اعتنا یورپ نے کی خود مسلمانوں نے نہیں کی۔ بے شبہ مسلمانوں نے امام صاحب کی اکثر تصنیفات محفوظ رکھیں اور ان پر شروع و حواشی لکھے لیکن یہ التفات تصوف و اخلاق کے متعلق تھیں۔ عقلیات میں جو ان کی معرکہ آراء تصنیفات ہیں اور جہاں آکر ان کا اصلی جوہر کھلتا ہے۔ ان کو کسی نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اس قسم کی کتابوں کو ہمارے علماءان کی طرف منسوب بھی نہیں ہونے دیتے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی کتب خانوں میں ان تصنیفات کا بہت کم پتہ چلتا ہے اس قسم کی ایک تصنیف مضتون بہ علی غیر اہلہ ہے۔ منخول جو اصول فقہ اور امام صاحب کی پہلی تصنیف ہے ہماری نظر سے گزری ہے بڑے معرکے کی تصنیف ہے اور چونکہ آغاز شباب کی ہے امام صاحب اس میں کسی امام یا مجتہد کے پابند نہیں بلکہ جو کچھ کہتے ہیں نہایت بے باکی اور آزادی سے کہتے ہیں صرف اس عیب کی وجہ سے یہ کتاب علماءکی نظر سے گر گئی۔
امام غزالی کے تجدید کارناموں کے معاشرے پر اثرات:
امام غزالی کی ہمہ گیر شخصیت نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا ہے۔امام کو تحصیل علم کے بعد نظام الملک کے دربار میں پیش ہونے کا موقع ملا اور آپ نے وہاں اپنے آپ کو مسائل پر گہری نظر رکھنے والا فقیہ ، لطیف نکات کو عمدگی سے بیان کرنے والا متکلم اور فکر و دانش سے بھرپوراور دلائل سے لیس فلسفی کی حیثیت سے منوایا۔ اس دوران آپ نے فلسفہ، منطق، علم کلام اور تصوف وغیرہ پر شہرہ آفاق تصانیف تحریر کیں اور باطل نظریات کا پردہ چاک کیا۔اس اہم کام کی انجام دہی سے پہلے آپ نے مکمل طور پر ان علوم کا مطالعہ کیا جن سے آپ کو سابقہ پیش آنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے ان موضاعات پر ماہرانہ انداز میں قلم اٹھایا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ امام کے وہ کیا بنیادی کام تھے جن کے سبب آپ نے معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ اس سلسلے میں ان کے دو نمایاں تجدیدی کام ہیں جو انہوں نے انجام دئے۔ ایک تو فلسفہ اور باطنیت کے نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس محاذ پر ان کا مقابلہ متکلمین سے تھا جو ہر بات کو عقل کی آنکھ سے دیکھتے تھے، دوسرے باطنیہ تھے جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس خاص اسرار ہیں جو انہوں نے معصوم امام سے علم حقائق کی صورت حاصل کئے ، تیسرے فلاسفہ تھے جو منطق و استدلال کے پیروکار تھے۔ چوتھا تصوف کا پورا نظام تھا جس نے آغاز میں توانہیں متاثر کیا کہ یہی وہ ذریعہ تھا جس سے ظاہر و باطن کی اصلاح ممکن تھی مگرامت کے اس عظیم بگاڑ کے آگے اپنی اصلاح و تسکین ہیچ تھی اور وقت کا تقاضہ تھا کہ میدان میں آکر اہل فلسفہ اور عقلیات کے ماہرین کا مقابلہ کیا جائے کہ ان کی سوچ علماءاور صوفیاءتک پہ غالب آ چکی تھی۔ لہٰذا امام نے خلوت کی زندگی چھوڑ کر اس کام کے لیے کمر کس لی۔
دوسرا امام نے معاشرت کا اخلاقی و اسلامی جائزہ لیکر اس پر تنقید کی اور اس کی اصلاح کی عملی تدبیر کی۔اپنی کتاب احیاءعلوم الدین میں انہوں نے معاشرتی اصلاح کی بات کی ہے۔ اصلاح معاشرت کے لیے ضروری تھا کہ علمی و دینی حلقوں میں پھیلی کمزوریوں اور بالعموم معاشرتی خرابیوں کو اجاگر کیا جائے۔اس کے لیے انہوں نے نہ صرف اپنے پورے زمانے کا جائزہ لیا بلکہ دقیق نظری کے ساتھ پوری اسلامی تاریخ کا نچوڑ بھی پیش کیا اور اول درجہ پر علماءاور اہل دین کو ہدف تنقید بنایا۔انہوں نے لکھا کہ کچھ علماءتو درباری بن کر بادشاہوں کی جی حضوری کرتے رہے اور بقیہ مناظروں اور مباحثوں میں جت گئے اور اپنا سارا زور مسالک کے باہمی اختلافات پر لایعنی بحث میں صرف کرتے رہے۔اس رجحان نے علماءکو کلیات سے نکال کر فروعیات میں لگا دیا جو ان کے علم کے محدود ہونے کا ذریعہ بنا۔ علم کا حصول اپنے اپنے مسلک کے دفاع کے لیے اور بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہونے لگا کیوں بادشاہوں نے اپنی دل لگی کے لئے اس قسم کے مشاغل اختیار کئے رکھے تھے کہ علماءکے درمیان مباحثہ کروا کر ان علماءکا طرز گفتگو،شعلہ بیانی، دلائل کو پیش کرنے کا انداز اور منطق کا استعمال دیکھ کر محظوظ ہوا جائے۔چنانچہ علماءتحصیل علم کے مقصد کو پس پشت ڈال کر ان مجادلوں میں لگ گئے اور یوں یہ ساری بحث و تمحیص کسی صورت معاشرتی اصلاح کا ذریعہ تو نہ بنی البتہ عوام کو لڑوانے اور ان میں مسلکی عصبیت کا بیج بونے کا سبب ضرور بنی۔ امام معاشرتی اصلاح کا دوسرا ہرکارہ سلاطین وقت کو قرار دیتے ہیں جن کا طرز حکومت بد ترین معاشرت اور بیہودہ معیشت کی بنیاد بنا۔ حرام مال اس طرح ہر طرف موجود تھا کہ بادشاہوں تک پہنچنے والے مال میں حلال کی کوئی مد نہ ہوتی ۔ لے دے کر جزیہ کی رقم تھی جو حلال ذریعہ تھی اور وہ بھی ظالمانہ طریقوں سے وصول کیا جاتا۔
امام غزالی نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرمانروا تھا۔ امام نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :
”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوقہائے زریں کے بار سے۔“
( تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ۔جلد اول صفحہ نمبر: ۰۶۱ ۔طباعت: دوم۔ سن طباعت: ۱۲ اپریل ۹۶۹۱ئ)
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے زمانے کے دیگر طبقات پر بھی تنقید کی اور ان کی کمزوریوں کو بیان کیا۔ اپنی کتاب احیاءالعلوم میں ایک مستقل حصہ میں آپ نے ان فریب خوردہ اشخاص اور ان کی غلط فہمیوں اور ان کی خود فریبی کا حال اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کام ایک مجدد ہی انجام دے سکتا تھا۔علماءکا علم کلام، تصوف، وعظ و تذکیر،علم حدیث اور اس کے متعلقات نحو، صرف کی تحقیق اور شعر گوئی وغیرہ میں مبالغہ آرائی سے کام لینے پر انہوں نے شدید تنقید کی۔عدلیہ کی بے اعتدالی، دولت مند افراد کا مال جمع کرنا ، تجارتی اشخاص کا ذخیرہ اندوزی کر کے معیشت کا پہیہ جام کرنا ، فقرائ، مساکین اور بیواﺅں کے ساتھ نارروا سلوک رکھنایہ سب اس معاشرے کا حصہ تھا جن پر امام غزالی نے چوٹ کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں لوگوں کا ڈنڈی مارنے اور روحانیت سے دور ہونے کے معاملے پر آپ نے بہترین انداز میں اصلاح کی ہے۔
اسلام کے فلسفہ ¿ تعلیم پر آپ نے اپنا جامع نظریہ پیش کیا اور علم کی تقسیم کو علم محمود اور علم مذموم کی صورت میں بیان کیا۔ پھر آپ کے نزدیک علم محمود میں مزید تقسیم ہے جس کے تحت ایک علم فرض عین ہے جو دین اسلام کا بنیادی علم قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ اسلام وغیرہ کی صورت میں ہے جبکہ فرض کفایہ عصری علوم ہیں جو بحیثیت قوم سیکھنے اور دنیوی ترقی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ مجددانہ کردار تھا جس سے امام نے اس معاشرے میں جہاں ہر طرف مسلمان تو تھے مگر اسلام اپنی اصلی حالت میں موجود نہ تھا، اسلام کا ٹھیک تصور پیش کیا اور غور و فکر کی ایک نئی جہت دریافت کی۔ عوام کو اندھی تقلید اور گمراہی سے بچایا اور خواص میں علماءاور اہل علم لوگوں کی لگامیں درست کیں۔ ان سب امور کی انجام دہی میں اما م نے صرف قلمی جدوجہد نہیں کی بلکہ عوام میں درس و تدریس کی اور اہل علم و اہل اقتدار لوگوں کے سامنے جرات مندانہ کلام کیا۔
امام غزالی کی جامع شخصیت اور علمی کمالات کا سبب تھا کہ اس نے عالم اسلام پر اپنی فکر کے گہرے اثرات چھوڑے اورعلمی حلقوں میں ایسی ذہنی و فکری حریت پیدا کردی کہ اسلامی دنیا اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اہل فلاسفہ پر جو چوٹ کی توطویل عرصہ اس تنقید کا جواب دینے والاا ہل عقل کو نہ مل سکا جو ان فلسفوں کواپنی بقاءکے لیے نئی بنیاد فراہم کرتا۔ اللہ تعالیٰ امام غزالی کے چھوڑے ہوئے علمی بحر میں غوطہ زن ہونے اور اس سے ایسے علم و فکر کے لعل و گوہر دریافت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو نظریاتی محاذ پر اسلامی فلسفہ کے غلبہ اور معاشرتی نظام کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے۔
کتابیات و حوالہ جات:
۱۔ الغزالی از مولانا شبلی نعمانی
۲۔ تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، جلد اول
۳۔ مسلمانوں کے سیاسی افکار از رشید احمد
۴، انوار الاولیاءاز رئیس احمد جعفری
۵۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ از دانش گاہ پنجاب لاہور
۶۔ urdu-section http://www.newageislam.com/
۷۔ http://earlyislamichistory.com/?q=kitab-ul-fazail
۸۔ http://www.urduweb.org/mehfil/threads
فاضل مضمون نگار ماہنامہ ساتھی کراچی کے مدیر ہیں۔
(تخریج وترتیب: سید فصیح اللہ حسینی)
ابتدائیہ:
امام غزالی ؒ اسلامی تاریخ کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جس کی کرنیں چوتھی صدی ہجری کے وسط میں دنیائے اسلام میں نمودار ہوئیں۔ امام نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر وہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی اسلامی فلسفہ، علم و حکمت، تصوف و روحانیت ، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔امام غزالی نے اپنے دور میں موجود علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ یقینا اپنے دور کے نابغہ ¿ روزگار اشخاص میں شمار ہوتے تھے ۔ امام غزالی کے علمی و فکری کارناموں پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے حالات زندگی پر بھی گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور ان کے تجدیدی کارناموں کا احاطہ بھی لازم ہے ۔ کیوں کہ آپ کی شخصیت اور افکار کے اثرات آج بھی اسلامی فکر میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں جن سے معاشرتی اصلاح کا سبق لیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم ان کے مختصر حالات زندگی کا تذکرہ کرکے ان کے تجدیدی کام کے مقاصد اور اس دور کے حالات کا تجزیہ پیش کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ موجودہ دور میں آپ کی تعلیمات سے کس طرح رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
ولادت:
آپ کا نام محمد، حجةالاسلام نصب، غزالی عرف ہے۔ سلسلہ نصب یہ ہے محمد بن محمد بن احمد۔ خراسان کے اضلاع میں ایک ضلع کا نام طوس ہے۔ اس میں دو شہر ہیں۔ طاہران اور طوفان ۔ امام صاحب ۰۵۴ھ میں طاہران میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ رشتہ فروش تھے اور اس مناسبت سے ان کا خاندان غزالی کہلاتا تھا۔
علم کی دہلیز پر پہلا قدم:
امام صاحب کے والد اتفاق سے تعلیم سے محروم رہ گئے تھے۔ جب مرنے لگے تو انہوں نے امام صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی امام احمد غزالی کو اپنے ایک دوست کے سپرد کیا اور کہا کہ مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں لکھنے پڑھنے سے محروم رہ گیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکوں کو تعلیم دلائی جائے تاکہ میری جہالت کا کفارہ ہوجائے۔ ان کے مرنے پر اس پر اس بزرگ نے امام صاحب کو تعلیم دلانی شروع کی۔ چنانچہ ابتدائی مراحل طے کرائے۔ لیکن چند روز کے بعد تعلیم کا کوئی سامان نہ رہا، امام صاحب کے والد جو مصارف تعلیم کے لیے دے گئے تھے۔ وہ ختم ہو چکی۔ اس بزرگ نے امام صاحب سے کہا تمہارے والد کا سرمایہ ختم ہو چکا ہے اور میرے پاس کچھ مال و متاع نہیں اس لیے تم دونوں بھائی کسی مدرسے میں داخل ہوجا و۔ چنانچہ امام صاحب نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔
تعلیم کا دوسرا دور:
امام صاحب نے فقہ کی کتابیں احمد بن محمد رافکانی سے پڑھیں۔ یہ بزرگ امام صاحب کے شہر میں مقیم تھے اور یہیں درس دیتے تھے۔ اس کے بعد جرجان کا قصد کیا اور امام بو نصر اسمٰعیلی کی خدمت میں تحصیل شروع کی۔ اس زمانے میں درس کا یہ قاعدہ تھا کہ استاد جو تقریر کرتا تھا شاگرد اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے اور نہایت محفوظ رکھتے تھے۔ ان یادداشتوں کو تعلیقات کہتے تھے چنانچہ امام صاحب نے بھی تعلیقات کا مجموعہ تیار کیا تھا۔چند روز کے بعد وطن کو واپس آئے۔ اتفاق سے راہ میں ڈاکہ پڑا اور امام صاحب کے پاس جو سامان تھا ، سب لٹ گیا۔ اس میں وہ تعلیقات بھی تھیں جو امام ابونصر نے لکھوائی تھیں۔ امام صاحب کو اس کے لیے نہایت صدمہ تھا۔ چنانچہ ڈاکو وں کے سردار کے پاس گئے اور کہا کہ” میں اپنے اسباب اور سامان میں صرف اس مجموعہ کو مانگتا ہوں کیونکہ میں نے انہی کے سننے اور یاد کرنے کے لیے یہ سفر کیا تھا ۔ وہ ہنس پڑا اور کہا کہ تم نے خاک سیکھا جب کہ تمہاری یہ حالت ہے کہ ایک کاغذ نہ رہا تو تم کورے رہ گئے۔“ یہ کہہ کر اس نے وہ کاغذ واپس دے دیئے۔ امام صاحب پر اس کے طعنہ آمیز فقرے کا اثر کیا۔ چنانچہ وطن پہنچ کر وہ یادداشتیں زبانی یاد کرنی شروع کیں یہاں تک کہ پورے تین برس صرف کر دیئے اور ان کے حافظ بن گئے۔
اعلا تعلیم کا سفر:
امام غزالی کے غیر معمولی حافظہ نے ان کو علم کے زینے پر چڑھنا دوسروں کی نسبت آسان کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے اندر موجود علمی کی تحصیل کی جستجو آپ کو بے چین کیے رکھتی۔ آپ نے مزید تعلیم کے لیے علمی مراکز کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
نیشاپور کا سفر:
اب امام صاحب کی تحصیل علمی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ معمولی علماءان کی تشفی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے تکمیل علوم کے لیے وطن سے نکلنا چاہا۔ اس زمانے میں اگرچہ تمام ممالک اسلامیہ میں علوم و فنون کے دریا بہہ رہے تھے۔ ایک ایک شہر بلکہ ایک ایک قصبہ مدرسوں سے معمور تھا۔ بڑے شہروں میں سیکڑوں علماءموجود تھے اور ہر عالم کی درسگاہ بجائے خود ایک مدرسہ تھا لیکن ان سب میں دو شہر علم و فن کے مرکز تھے۔ نیشاپور اور بغداد کیونکہ خراسان فارس اور عراق کے تمام ممالک میں دو بزرگ استاد اکمل تسلیم کیے جاتے تھے یعنی امام السحر مین اور علامہ ابو اسحق شیرازی اور یہ دونوں بزرگ انہیں دو شہروں میں درس دیتے تھے۔ نیشاپور چونکہ قریب تھا اس لیے امام صاحب نے وہیں کا قصد کیا اور امام الحرمین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
نیشاور کی علمی حالت:
نیشاپور کی علمی حالت یہ تھی کہ اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ جو تعمیر ہوا یہیں ہوا جس کا نام بہیقیہ تھا امام الحرمین (امام غزالی کے استاد) نے اسی مدرسے میں تعلیم پائی تھی۔ بغداد کا نظامیہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا کہ نیشاپور میں بڑے بڑے دارالعلوم قائم ہوچکے تھے۔ ایک وہی بہیقیہ جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے۔ دوسرا سعدیہ تیسرا نصریہ جس کو سلطان محمود کے بھائی نصر بن سبکتگین نے قائم کیا تھا۔ ان کے سوا اور بھی مدرسے تھے جن کا سرتاج نظامیہ نیشاپور تھا۔ امام الحرمین اسی مدرسے کے مدرس تھے۔
امام غزالی کے دور کے سیاسی حالات:
امام صاحب کے علمی کارناموں پر نظر ڈالنے سے پہلے ان کے دور کے سیاسی حالات کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ ان کام کی نوعیت اور پیش آمدہ مسائل کا ٹھیک طور پر ادراک ہو سکے۔
خاندان سلجوقیہ:
سلطنت عباسیہ کے کمزور ہونے پر ملک میں ہر طرف خودمختاری کی ہوا چل گئی حکومت و سلطنت کے بہت سے دعویدار نکل آئے۔ ان سب میں ترکوں کا قدم سب سے آگے رہا اور دیکھتے دیکھتے وہ تمام دنیا پر چھا گئے چنانچہ اس وقت سے دنیائے اسلام کا بڑا حصہ انہی کے اقتدار میں رہا اور آج بھی امام صاحب کے زمانے میں انہی ترکوں میں سے سلجوقی خاندان فرمانروا تھا۔ اس خاندان کا سب سے پہلا تاجدار طغرل بیگ تھا جس نے ۹۲۴ھ میں اول طوس پر قبضہ کیا اور رفتہ رفتہ ۷۳۴ھ میں عراق میں قابض ہو گیا۔ طغرل نے ۵۵۴ھ میں انتقال کیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا الپ ارسلان اور الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ تخت نشین ہوا جس کے زمانے میں سلجوقیوں کی حکومت انتہائی شباب پر پہنچ گئی۔ اس کی نسبت ابن خلکان کے یہ الفاظ ہیں ” ملک شاہ کی سلطنت نے وہ وسعت حاصل کی کہ کوئی سلطنت اس حد تک نہیں پہنچی۔ اس کی سلطنت طول میں کاشغر سے لے کر جو ترکستان کا سب سے اخیر شہر ہے اور جس کی سرحد چین سے ملتی ہے بیت القدس کا سب سے اخیر شہر ہے اور جس کی سرحد چین سے ملتی ہے بیت المقدس تک، اور عرض میں قسطنطنیہ سے لے کر خرز تک پھیلی ہوئی ہے اس نے تمام ممالک میں سرائیں اور پل تیار کیے اور ہر قسم کے ٹیکس موقوف کر دیئے۔ اس کے زمانے میں امن و امان کی یہ حالت تھی کہ ترکستان سے لے کر اخیر سرحد تک قافلے بغیر کسی حفاظت اور بدرقہ کے سفر کرتے تھے اور ایک آدمی تنہا ہزاروں کوس جدھر چاہتا چلا جاتا تھا لیکن اس کی حکومت کی عظمت اور شان جو کچھ تھی اس کے وزیر نظام الملک کی بدولت تھی۔
امام غزالی بحیثیت سفیر اور ان کی کامیابی:
ملک شاہ سلجوقی نے ۵۸۴ ھ میں جب وفات پائی تو شاہ محل ترکان خاتون نے امراءاور اہل دربار کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس کا چار سالہ بیٹا محمود تاج و تخت کا مالک ہو۔ اس کے ساتھ خلیفہ مقتدر باﷲ سے جواس وقت بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا،درخواست کی کہ خطبہ بھی اس کے نام کا پڑھا جائے خلیفہ نے اپنی کمزوری کے لحاظ سے یہ قبول کیا کہ سلطنت کے تمام کاروبار ترکان خاتون ہی کے زیر حکومت انجام پائیں لیکن خطبہ عباسی ہی خاندان میں قائم رہے۔ ترکان خاتون کو خطبہ و سکہ پر اصرار تھا اور وہ کسی طرح اس کے خلاف راضی نہ ہوتی تھی جب یہ مشکل کسی طرح حل نہ ہو سکی تو امام غزالی کو سفیر بنا کر بھیجا گیا اور ان کے حسن تقریر یا تقدس کے اثر سے خاتون راضی ہو گئی اور ایک بڑا فتنہ فرو ہو گیا۔
خلیفہ مستظہر باﷲ کی فرمائش:
۷۸۴ھ میں جب خلیفہ مقتدر باﷲ نے وفا ت پائی اور خلیفہ مستظہر باﷲ عہدہ خلافت کے لیے پیش کیا گیا تو اس کی بیعت میں اور اراکین سلطنت کے ساتھ ساتھ امام غزالی بھی شریک تھے۔ مستظہر نہایت علم دوست اور قدردان تھا اس لیے امام صاحب سے خاص قسم کا ربط رکھتا تھا ۔ فرقہ باطنیہ نے جب بہت زور پکڑا تو خلیفہ مذکور نے امام صاحب کو حکم بھیجا کہ ان کی رد میں کتاب لکھیں چنانچہ امام صاحب نے خلیفہ کے نام سے اس کتاب کو موسوم کیا اور مستظہر نام رکھا۔ یہ حکومت و خلافت کے تعلقات کی حالت تھی۔ علمی پایہ یہ تھا کہ ان کے درس میں تین سو مدرسین اور سو امراءاور رفقاءحاضر ہوتے تھے۔ درس کے علاوہ وعظ بھی فرماتے تھے اور چونکہ وہ وعظ میں بھی ہمیشہ علمی مطالب بیان کرتے تھے۔ یہ وعظ بھی درحقیقت علمی لیکچر ہوتے تھے چنانچہ ان وعظوں کو شیخ صاعد بن الفارس المعروف باین اللسان قلم بند کرتے جاتے تھے۔ اس طرح ایک سو تراسی وعظ قلم بند کیے گئے جن کا مجموعہ دو صخیم جلدوں میں تیار ہوا۔ امام صاحب نے اس مجموعہ پر نظرثانی کی اور اس نے مجالس غزالیہ کے نام سے شہرت پائی۔
امام غزالی سلاطین کے دربار میں:
دوسری طرف نظام الملک نے تعلیم و تدریس کووہ ترقی دی کہ تمام اسلامیہ میں چپہ چپہ پر مکاتب اور مدارس قائم کیے۔ روضتین فی اخبار الدولتین میں لکھا ہے کہ کوئی شہرایسانہ تھا جہاں اس کا تعمیر کردہ مدرسہ موجود نہ ہو یہاں تک کہ جزیرہ ابن عمر میں بھی جو بالکل ایک گوشے میں واقع ہے اور کسی کا وہاں گزر نہیں ہوتا ایک بڑا مدرسہ قائم ہے۔ علامہ قزدینی نے آثار البلاد میں تصریح کی ہے کہ اس زمانے میں مدارس کا سالانہ خرچ ۴ لاکھ اشرفیاں تھیں۔ اس کے سوا اپنے کل جاگیرات کا دسواں حصہ تعلیم کے مصارف پر وقف کر دیا تھا۔ نظام الملک خود صاحب علم و فضل اور اہل فضل و کمال کا بہت بڑا قدردان تھا۔ ابو علی فارمودی جب اس کے دربار میں آتے تھے تو ہمیشہ ان کے لیے مسند خالی کر دیا کرتے تھے۔ امام الحرمین اور ابوسحق شیرازی کا نہایت ادب کرتا تھا اور جب وہ دربار میں آتے تھے تو کھڑا ہوجاتا تھا۔ اس قدردانی اور پایہ شناسی نے اس کے دربارکو اہل کمال کا مرکز بنا دیا تھا۔ سیکڑوں علماءو فضلا ہمیشہ اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے اور وہ ان کے علمی مناظرات میں شریک ہو کر خود بھی دخل دیتا تھا اور مستفید ہوتا تھا۔
علماءسے مناظرہ:
امام غزالی کا مزاج ابتدا میں جاہ پسند تھا۔ امام الحرمین کی صحبت میں انہوں نے علماءکی قدر و منزلت کا جو سماں دیکھا اس کی طبیعت میں اس ولولے کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔ جاہ و منصب کی امید میں امام غزالی نے درسگاہ سے نکل کر نظام الملک کے دربار کا رخ کیا چونکہ ان کی علمی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔ نظام الملک نے نہایت تعظیم و تکریم سے ان کا استقبال کیا۔ امام غزالی نظام الملک کے دربار میں پہنچے تو سیکڑوں اہل کمال کا مجمع تھا۔ نظام الملک نے مناظرے کی مجلس منعقد کی۔ متعدد جلسے ہوئے اور مختلف علمی مضامین پر بحثیں رہیں۔ ہر معرکے میں امام صاحب ہی غالب رہے۔ اس کامیابی نے امام صاحب کی شہرت کو چمکا دیا اور تمام اطراف میں ان کے چرچے پھیل گئے۔ نظام الملک نے ان کو نظایہ کے مسند درس کے لیے انتخاب کیا۔ امام صاحب کی عمر اس وقت ۴۳ برس سے زیادہ نہ تھی۔ اس عمر میں نظامیہ کی افسری کا حاصل کرنا ایک ایسا فخر تھا جو امام صاحب کے سوا کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
امام غزالی کی مذہبی خدمات:
یہ تو تھیں امام غزالی کی زندگی میں پڑنے والے سیاسی اثرات جنہوں نے امام صاحب کو نہ صرف اہل علم طبقہ کی سوچ کو پڑھنے کا موقع فراہم کیا بلکہ حکمرانوں کے خیالات سے ہم آہنگ ہونے کا بھی موقع فراہم کیا۔اسی سبب کے تحت مذہبی طور پر امام غزالی کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی اور انہوں نے اپنا رجحان مذہب کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی۔
مذہبی خیالات میں انقلاب:
امام صاحب نے جس طرح کی تعلیم و تربیت پائی تھی اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے اہل مذہب کے طریقے کے سوا کسی طرف التفات نہ کرتے چنانچہ ان کے تمام ہم عصروں کی یہی حالت رہی چنانچہ امام صاحب ابتداءہی سے ایک خاص قسم کی طبیعت رکھتے تھے۔ ان کا مذاق یہ تھا کہ ان کے سامنے جس قدرمذہبی فرقے موجود تھے اور جو ان کے عقائد و خیالات تھے سب پر وہ غور کی نگاہ ڈالتے تھے ۔ نیشاپور وغیرہ مےں سلجوقیہ کے اثر کی بدولت دوسرے مذاہب کا بہت کم چرچا تھا لیکن بغداد دنیا بھر کے عقائد اور خیالات کا دنگل تھا۔ اس زمین پر قدم رکھ کر ہر شخص پورا آزاد ہوجاتا تھا اور جو کچھ چاہتا تھا کہہ سکتا تھا۔ شیعہ، سنی ، معتزلی، زندیق، ملحد، مجوسی ، عیسائی بغداد ہی کے دنگل میں باہم علمی لڑائیاں کرتے تھے اور کوئی شخص ان سے معترض نہیں ہو سکتا تھا۔ اس آزادی کی بدولت یہاںہر قسم کے مختلف عقائد و خیالات پھیلے ہوئے تھے۔ امام غزالی بغداد پہنچے تو ایک ایک فرقہ اور اہل مذہب سے ملے اور ان کے خیالات سنے ۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ ” میں ایک ایک باطنی، ظاہری، فلسفی، متکلم، زندیق سے ملتا تھا اور ان کے خیالات دریافت کرتا تھا ۔ ان مختلف فرقوںکے ساتھ ملنے جلنے سے امام صاحب پر جو اثر ہوا اور جس نے ان کی زندگی کا قالب بالکل بدل دیا۔ اس کو ہم امام صاحب ہی کے الفاظ میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھتے ہیں۔
امام صاحب کے خیالات:
”اس وقت جس قدر فرقے موجود تھے چار تھے۔ متکلمین،باطنیہ، فلاسفہ اور صوفیہ ۔ میںنے ایک ایک فرقے کے علوم و عقائد کی تحقیقات شروع کیں۔ علم کلام کے متعلق جس قدر قدماءکی تصنیفات تھیں سب پڑھیں لیکن وہ میری تسلی کے لیے کافی نہ تھیں۔ کیونکہ ان میں جن مقدمات سے استدلال ہو رہے تھے ان کی بنایاتقلید ہے یا اجماع یا قرآن و حدیث کے نصوص اور یہ چیزیں اس شخص کے مقابلے میں بطور صحت سے پسند نہیں کی جاسکتیں جو بدیہیات کے سوااور کوئی کسی چیز کا قائل نہ ہو۔
فلسفہ:
فلسفہ کاجس قدر حق یقینی ہے یعنی ریاضیات وغیرہ اس کو مذہب سے تعلق نہیں جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے یعنی الہیات وغیرہ وہ یقینی نہیں۔
باطنیہ:
فرقہ باطنیہ کے عقائد کا تمام تر مدار امام وقت کی تقلید پر ہے۔ لیکن امام صاحب کی حقیقت کی نسبت کیونکر یقین کیا جا سکتا ہے۔ اب صرف تصوف باقی رہ گیا ہے۔
تصوف:
یہ فن دراصل عملی فن ہے اس لیے عمل کے بغیر نتیجہ حاصل نہیںہوسکتا تھا اور عمل کے لیے ضروری تھا کہ زہد و ریاضت اختیار کی جائے۔ ادھر اپنے اشغال کو دیکھا تو کوئی خلوص پر مبنی نہ تھا۔ درس و تدریس کی طرف طبیعت کا میلان اس وجہ سے تھا کہ وہ جاہ پرستی اور شہرت عامہ کا ذریعہ بھی۔ ان واقعات نے دل میں تحریک پیدا کی۔ مگر چھ ماہ تک میں نے لعل و لیت میں گزارے۔ نفس کسی طرح گوارہ نہ کرتا تھا کہ ایسی بڑی عظمت و جاہ سے دست بردار ہوجائے۔ ان ترددات میں نوبت یہاں تک آگئی کہ زبان رک چکی اور دنیا بھی بند ہو گیا۔ رفتہ رفتہ ہضم کی قوت جاتی رہی آخر طبیبوں نے ہاتھ اٹھا لیا اور کہا کہ ایسی حالت میں علاج کچھ سودمند نہیں ۔میں نے سفر کا قطعی ارادہ کر لیا۔ علماءارکان سلطنت کو جب یہ خبر ہوئی تو سب نے نہایت الحاج کے ساتھ روکا اور حسرت سے کہا کہ ”یہ اسلام کی بدقسمتی ہے۔“
امام غزالی تصوف کی راہ پر:
طبیعت میں بے چینی تھی، لہٰذا رخت سفر باندھنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ یہ کام اگرچہ طبیعت پہ بہت گراں تھا مگر امام صاحب نے اس کو اختیار کر کے سب کچھ ترک کر دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
بے خودی کی حالت میں بغداد سے نکلنا:
امام صاحب مدت سے ترک دنیا کا ارادہ کررہے تھے لیکن تعلقات کی بندش چھوٹ نہیں سکتی تھیں۔ ایک دن وعظ کہہ رہے تھے کہ اتفاق سے ان کے چھوٹے بھائی امام احمد غزالی جو صوفی اور صاحب حال تھے۔ آنکلے اور یہ اشعار پڑھے۔
واصحبت تھدی وہ تھتدی وتسمع وعظا وہ تسمع
تم دوسروں کو ہدایت کرتے ہو مگر خود ہدایت نہیں پکڑتے اور وعظ سناتے ہو لیکن خود نہیں سنتے۔
نیا حجر الشحر حتیٰ متیٰ تسن الحدید وہ تقطع
اے سنگ انسان کب تک تو لوہے کو تیز کرتا رہے گا لیکن خود نہ کاٹے گا۔
دمشق کا قیام اور مراقبہ و مجاہدہ:
بغداد سے نکل کر شام کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر مجاہدہ و ریاضت میں مشغول ہوئے۔ روزانہ یہ شغل تھا کہ جامع اموی کے غربی مینار پر چڑھ کر دروازہ بند کرلیتے اور تمام تمام دن مراقبہ اور ذکر و شغل کیا کرتے۔متصل دو برس تک دمشق میں قیام رہا۔ اگرچہ زیادہ اوقات مجاہدہ و مراقبہ میں گزرے تاہم علمی اشغال بھی ترک نہیں ہوئے۔ جامع اموی جو دمشق کی گویا یونیورسٹی تھی۔ اس میں غربی جانب جو زاویہ تھا وہاں بیٹھ کر ہمیشہ درس دیا کرتے تھے۔
بیت المقدس آمد:
دو برس کے بعد دمشق سے بیت المقدس کا رخ کیا۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ جب امام صاحب دمشق میں تھے تو ایک دن مدرسہ امینیہ میں تشریف لے گئے۔ مدرس نے جو امام صاحب کو پہنچانتا نہ تھا سلسلہ تقریر میں کہا کہ غزالی نے یہ لکھا ہے ۔ امام صاحب اس خیال سے کہ یہ امر عجب اور غرور کا سبب ہوگا۔ اسی وقت دمشق سے نکل کھڑے ہوئے۔ بہرحال دمشق سے نکل کر بیت المقدس پہنچے یہاں بھی یہ شغل رہا کہ صخرا کے حجرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیتے اور مجاہدہ کیا کرتے۔
حج و زیارت:
بیت المقدس کی زیارت سے فارغ ہو کر مقام خلیل گئے جہاں حضرت ابراہیم ؑ کی قبر ہے۔ پھر حج کی نیت سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا قصد کیا۔ مکہ میں مدت تک قیام رہا ۔ اسی سفر میں مصر و اسکندریہ پہنچے اور اسکندریہ میں مدت تک قیام رہا۔ابن خلکان کا بیان ہے کہ یہاں سے یوسف بن تاشقین سے ملنے کے لیے مراکش جانا چاہتے تھے لیکن اسی اثناءمیں یوسف کا انتقال ہو گیا اور اس ارادے سے باز آنا پڑا۔
مقام خلیل میں:
۹۹۴ھ میں جب مقام خلیل میں پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا۔
کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جا وں گا۔
کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا۔
کسی سے مناظرہ اور مباحثہ نہ کروں گا۔ چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے۔
مجددانہ کردار کی ادائیگی:
امام صاحب کو جس چیز نے بیاباں نوردی پر آمادہ کیا تھا وہ تحقیق حق اور انکشاف حقیقت کا شوق تھا۔ امام صاحب کا بیان ہے کہ” مجاہدات اور ریاضات نے قلب میں ایسی صفائی پیدا کر دی کہ تمام حجاب اٹھ گئے اور جس قدر شک و شبے تھے آپ سے آپ جاتے رہے۔ انکشاف حق کے بعد امام صاحب نے دیکھا کہ زمانہ کا زمانہ مذہب سے متنزلزل ہو رہا ہے اور فلسفہ و عقلیات کے مقابلے میں مذہبی عقائد کی ہوا اکھڑی جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر ارادہ کر لیا کہ عزلت کے دائرے سے نکلیں ۔حسن اتفاق یہ کہ اسی زمانے میں سلطان وقت کا حکم پہنچا کہ درس کی خدمت قبول کریں یہ حکم اس قدر تاکیدی تھا کہ امام صاحب انکار کرتے تو ناراضی تک نوبت پہنچتی۔ امام صاحب اب بھی متامل تھے اور اسی لیے صوفی احباب سے مشورہ کیا سب نے عزلت کے چھوڑنے کی رائے دی۔ بہت سے مقدس لوگوں کو خواب میں القا ہوا کہ یہاں امر خدا کی خوشنودی کا باعث ہے سب سے بڑھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ حدیث وا رد ہے کہ خدا ہر نئی صدی کے آغاز پر ایک مجدد پیدا کرتا ہے۔ اتفاق سے پانچویں صدی کے آغاز کو ایک ہی مہینہ باقی تھا۔
نظامیہ نیشاپور میں تدریس:
دو قعدہ ۹۹۴ ھ میں امام صاحب نے نیشا پور کے مدرسہ نظامیہ میں مسند درس کو زینت دی اور بدستور پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہوئے ۔ امام صاحب نے سلطان وقت کے لفظ سے جس کو تعبیر کیا ہے وہ فخر الملک تھا جو نظام الملک کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور اس زمانے میں سنجر سلجوقی ( پسر ملک شاہ) کا وزیر اعظم تھا وہ نہایت علم دوست اور شناس تھا امام غزالی کے تقدس اور جامعیت کا شہرہ سن کر خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت عقیدت ظاہر کی اس کے ساتھ نہایت عاجزی سے عرض کی کہ نظامیہ نیشاپور کی مدرسی قبول فرمائیے۔
امام صاحب کے حاسدین:
امام صاحب کی مقبولیت عام جس قدر روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی ان کے حاسدوں کا گروہ بھی بڑھتا جاتا خصوصاً امام نے احیاءالعلوم میں جس طرح تمام علماءو مشائخ کی ریاکاریوں کی قلعی کھولی تھی اس نے ایک زمانے کو اپنا دشمن بنا دیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک گروہ لٹیرے مخالفت پر کمر باندھی اور علانیہ ان کی آبروریزی کی فکر میں ہوتے۔
امام صاحب کی مخالفت:
امام صاحب نے آغاز شباب میں ایک کتاب منخول نامی اصول فقہ میں تصنیف کی تھی۔ جس میں ایک موقع پر امام ابوحنیفیہ پر نہات سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی تھی اور نہایت گستاخانہ الفاظ ان کی شان میں استعمال کیے تھے۔ امام کے مخالفین کے لیے یہ عمدہ دستاویز تھی یہ لوگ سنجر کے دربار میں یہ کتاب لے کر پہنچے اور اس پر زیادہ آب و رنگ چڑھا کر پیش کیا۔ اس کے ساتھ امام صاحب اور تصنیف کے مطالب ہی الٹ پلٹ کر بیان کیے اور دعویٰ کیا کہ امام غزالی کے عقائد زندیقانہ اور ملحدانہ ہیں۔
سلطان سنجر کا امام صاحب کو طلب کرنا:
سنجر خود صاحب علم نہ تھے کہ بد گوئیوں کی شکایتوں کا خود فیصلہ کرسکتے ۔ جبکہ دستار والوں نے جو کچھ کہا اس کو یقین آگیا اور امام غزالی کی حاضری کا حکم دیا۔ امام صاحب عہد کرچکے تھے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جائیں گے۔ ادھر فرمان شاہی کا بھی لحاظ تھا۔ اس لیے مشہد رضا تک اور وہاں ٹھہر گئے۔ سلطان کو زبان فارسی میں ایک مفصل خط لکھا۔
سنجر کے دربار میں:
اس خط کو پڑھ کر سلطان امام صاحب کی زیارت کا مشتاق ہوا اور درباریوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ رو در رو باتیں کرکے ان کے عقائد و خیالات سے واقف ہوں۔ مخالفین کو یہ حال معلوم ہوا تو ڈرے کہ کہیں بادشاہ پر امام صاحب کا جادو نہ چل جائے اس لیے یہ کوشش شروع کی کہ امام صاحب شکر گاہ تک آئیں لیکن دربار میں نہ جانے پائیں۔ امام صاحب ناچار لشکرگاہ میں آئے اور معین الملک سے ملے۔ معین الملک بڑے عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا اور ان کے ساتھ ساتھ سنجر کے دربار تک گیا۔ سنجر کی طرف خطاب کیا اور ایک طویل تقریر کی جو بعینہ ان کے مکاتبات میں درج ہے ۔ گفتگو کے خاتمہ پر کہا کہ مجھ کو دو باتیں عرض کرنی ہیں۔ ایک یہ کہ طوس کے لوگ پہلے ہی بدانتظامی اور ظلم کی وجہ سے تباہ تھے۔ اب سردی اور قحط کی وجہ سے بالکل برباد ہوگئے۔ ان پر رحم کر، خدا تجھ پر بھی رحم کرے گا۔ افسوس مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوںکی گردنیں طوق ہائے زریں کے بار سے۔“ دوسرے یہ کہ میں بارہ برس گوشہ نشین رہا۔ پھر فخر الملک نے یہاں آنے کے لیے اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ کوئی شخص ایک بات بھی سچ کہنی چاہے تو زمانہ اس کا دشمن بن جانا ہے۔ لیکن فخر الملک نے نہ مانا اور کہا کہ بادشاہ وقت عادل ہے اگر کوئی خلاف بات ہو گئی تو میں سینہ سپرہوں گا۔“ ” میری نسبت جو مشہور کیا جاتا ہے کہ میں امام ابوحنیفہ پر طعن کیے ہیں، محض غلط ہے۔امام ابوحنیفہ کی نسبت مبراوہی اعتقاد ہے جو میں نے کتاب احیاءالعلوم میں لکھا ہے ۔ میں ان کو فن فقہ میں انتخاب روزگار سمجھتا ہوں۔
سنجر پر امام صاحب کی تقریر کا اثر:
امام صاحب کی تقریر سن کر مخبر نے کہا کہ آج عراق اور خراسان کے تمام علماءکا مجمع ہوتا تو سب لوگ آپ کے کلام سے مستفید ہوتے۔ تاہم یہ حالات آپ نے اپنے ہاتھ سے قلم بند کیجئے تاکہ تمام ممالک میں مشتہر کیے جائیں جس سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حالت کی نسبت کیسا ہے۔ آپ کو درس کی خدمت ضرور قبول کرنی ہوگی۔ فخر الملک جس نے آپ کو نیشا پور کے قیام پر مجبور کیا تھا میرا ادنیٰ خادم تھا میں حکم دوں گاکہ تمام علما سال میں ایک بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کی مشکلات آپ سے حل کریں۔
مخالفین اب بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئے۔ امام صاحب کے پاس جا کر ان سے پوچھا کہ آپ مذہب میں کس کے مقلد ہیں۔ امام صاحب نے کہا عقلیات و عقل کا ، اور منقولات میں قرآن کا، آئمہ میں کسی کا مقلد نہیں ہوں۔ ۰۰۵ ھ میں سلطان محمد بن مالک بادشاہ نے جب نظام الملک کے بڑے بیٹے احمد کو وزیر اعظم مقرر کرکے قوام الدین نظام الملک صدر الاسلام لقب دیا تو اس نے امام صاحب کو پھر بغداد میں بلانا چاہا۔
دربار خلافت سے امام صاحب کی طلبی:
احمد بن نظام الملک نے خود امام صاحب کو جو خط لکھا اس کا ماحصل یہ تھا کہ اگرچہ آپ جہاں تشریف رکھیں گے وہی جگہ درسگاہ عام بن جائے گی لیکن جس طرح آپ مقتدائے روزگار ہیں آپ کی قیامگاہ بھی وہی شہر ہونا چاہیے جو تمام اسلام کا مرکز اور قبلہ گاہ ہو تاکہ تمام دنیا کے ہر حصے کے لوگ باآسانی وہاں پہنچ سکیں اور ایسا مقام صرف دارالسلام بغداد ہے۔
امام صاحب کا انکار و معذرت:
امام صاحب نے ان خطوط و فرامین کے جواب میں ایک طول طویل خط لکھا اور بغداد نہ آنے کے متعدد عذر لکھے۔ غرض خلافت و سلطنت کی طرف سے تو بہت کچھ ہوئی امام صاحب نے صاف انکار کیا اور گوشہ عافیت سے باہر نہ نکلے۔
فن حدیث کی تکمیل:
امام صاحب نے حدیث کا فن اثنائے تحصیل میں نہیں سیکھا تھا۔ اب اس کی تکمیل کا خیال آیا۔ حافظ عمر بن ابی الحسن الرداسی ایک مشہور محدث تھے۔ وہ اتفاقیہ طوس میں آئے ۔ امام صاحب نے ان کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور ان سے صحیح بخاری و مسلم کی سند لی۔ حافظ ابن عاکر نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے صحیح بخاری ابو اسمعیل حفنی سے پڑھی۔
اولاد و تلامذہ:
امام صاحب نے اولاد ذکور نہیں چھوڑی۔ چند لڑکیاں تھیں جن میں سے ایک کا نام ست المنیٰ تھا۔ ان کی اولاد کے سلسلے کا پتہ دور تک چلتا ہے۔ تیوی نے کتاب المصباح مجدالدین سے امام صاحب کے لقب کی نسبت ایک روایت نقل کی ہے۔ شیخ مجددالدین چھٹی پشت میں ست المنیٰ کی اولاد میں سے تھے۔ اور ۱۰۷ھ میں موجود تھے۔ امام صاحب کے شاگرد نہایت کثرت سے تھے۔ خود امام صاحب نے ایک خط میں ایک ہزار تعداد بیان کی ہے۔ ان میں بعض بڑے نامور گزرے ہیں۔ محمد بن تومرت جس نے اسپین میں خاندان تاشفقین کو مٹا کر ایک نہایت عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ڈالی امام کا ہی شاگرد تھا۔
امام غزالی کے قلمی شاہکار:
امام غزالی کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے درس و تدریس کا کام بھی کیا، بادشاہوں کے دربار میں بھی علمی مباحث کا حصہ بنے اور اس سے بڑھ کر علمی میدان میں قلم سے اپنے رشتے کو مربوط رکھتے ہوئے بے شمار کتب تصنیف کیں اور اصلاح معاشرہ، اسلامی فلسفہ اور دیگر باطل خیالات و افکار کو موضوع بحث بنایا ۔
احیاءالعلوم کی تصانیف:
ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے احیا العلوم اسی سفر میں تصنیف کی اور دمشق میں کتاب مذکور کو ہزاروں شائقین نے خود انہی سے پڑھا ۔ بعض نامور مورخوں نے اس واقعہ کی صحت سے اس بناءپر انکار کر لیا کہ اس قسم کے سفر میں اس طرز کی کتاب کیونکر تصنیف کی جاسکتی ہے؟ بے شبہ امام صاحب جس جزب بے خودی حالت میں سفر کے لیے اٹھے۔ اس کے لحاظ سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ قیاس میں نہیں آسکتا۔ لیکن زیادہ تحقیق اور کاوش سے معلوم ہوتا ہے کہ دس برس کی مدت سفر میں ان کی حالت یکساں نہیں رہی۔ مدتوں اگر ان پر جذب و محویت طاری رہی تو برسوں وہ سلوک کے عالم میں بھی رہے اور اس زمانے میں وہ ہر قسم کے علمی اشغال میں مصروف رہتے تھے۔ رسالہ قواعد العقائد میں ہے انہوں نے اسی سفر میں بیت المقدس والوں کی فرمائش پر لکھا۔
چند مشہور تصانیف:
امام صاحب کی چند نامور تصانیف کے نام یہ ہیں:
احیاءالعلوم حجة الحق
اسرار الانوار الرسالة القدسیہ
بیان فضائح عقیدة المصباح
بیان تصولین التساضعی قواعد العقائد
تلبیس ابلیس کیمیائے سعادت
تنبیہہ الغافلین منخول
جواہر القرآن وجیز
آخری تصنیف:
امام صاحب اخیر میں اگرچہ بالکل عابد بن گئے تھے اور شب و روز مجاہدات و ریاضات میں بسر کرتے تھے۔ تاہم تصنیف و تالیف کا مشغلہ بالکل ترک نہ ہوا۔ اصول فقہ میں مستصفی جو ان کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تصنیف ہے۔ ۴۰۵ھ کی تصنیف ہے۔ اس سے ایک برس بعد امام صاحب نے انتقال کیا۔
روزانہ تصانیف کا اوسط:
علامہ نودی نے بستان میں ایک مستند شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصنیفات اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا۔ کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ۶۱ صفحے روزانہ ہوا اور یہ مقدار امام صاحب کے اور مشاغل کے ساتھ درحقیقت حیرت انگیز ہے۔
امام صاحب کی تصنیفات اور یورپ:
یہ عجیب بات ہے کہ امام صاحب کی تصنیفات کے ساتھ جو اعتنا یورپ نے کی خود مسلمانوں نے نہیں کی۔ بے شبہ مسلمانوں نے امام صاحب کی اکثر تصنیفات محفوظ رکھیں اور ان پر شروع و حواشی لکھے لیکن یہ التفات تصوف و اخلاق کے متعلق تھیں۔ عقلیات میں جو ان کی معرکہ آراء تصنیفات ہیں اور جہاں آکر ان کا اصلی جوہر کھلتا ہے۔ ان کو کسی نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اس قسم کی کتابوں کو ہمارے علماءان کی طرف منسوب بھی نہیں ہونے دیتے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی کتب خانوں میں ان تصنیفات کا بہت کم پتہ چلتا ہے اس قسم کی ایک تصنیف مضتون بہ علی غیر اہلہ ہے۔ منخول جو اصول فقہ اور امام صاحب کی پہلی تصنیف ہے ہماری نظر سے گزری ہے بڑے معرکے کی تصنیف ہے اور چونکہ آغاز شباب کی ہے امام صاحب اس میں کسی امام یا مجتہد کے پابند نہیں بلکہ جو کچھ کہتے ہیں نہایت بے باکی اور آزادی سے کہتے ہیں صرف اس عیب کی وجہ سے یہ کتاب علماءکی نظر سے گر گئی۔
امام غزالی کے تجدید کارناموں کے معاشرے پر اثرات:
امام غزالی کی ہمہ گیر شخصیت نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا ہے۔امام کو تحصیل علم کے بعد نظام الملک کے دربار میں پیش ہونے کا موقع ملا اور آپ نے وہاں اپنے آپ کو مسائل پر گہری نظر رکھنے والا فقیہ ، لطیف نکات کو عمدگی سے بیان کرنے والا متکلم اور فکر و دانش سے بھرپوراور دلائل سے لیس فلسفی کی حیثیت سے منوایا۔ اس دوران آپ نے فلسفہ، منطق، علم کلام اور تصوف وغیرہ پر شہرہ آفاق تصانیف تحریر کیں اور باطل نظریات کا پردہ چاک کیا۔اس اہم کام کی انجام دہی سے پہلے آپ نے مکمل طور پر ان علوم کا مطالعہ کیا جن سے آپ کو سابقہ پیش آنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے ان موضاعات پر ماہرانہ انداز میں قلم اٹھایا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ امام کے وہ کیا بنیادی کام تھے جن کے سبب آپ نے معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ اس سلسلے میں ان کے دو نمایاں تجدیدی کام ہیں جو انہوں نے انجام دئے۔ ایک تو فلسفہ اور باطنیت کے نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس محاذ پر ان کا مقابلہ متکلمین سے تھا جو ہر بات کو عقل کی آنکھ سے دیکھتے تھے، دوسرے باطنیہ تھے جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس خاص اسرار ہیں جو انہوں نے معصوم امام سے علم حقائق کی صورت حاصل کئے ، تیسرے فلاسفہ تھے جو منطق و استدلال کے پیروکار تھے۔ چوتھا تصوف کا پورا نظام تھا جس نے آغاز میں توانہیں متاثر کیا کہ یہی وہ ذریعہ تھا جس سے ظاہر و باطن کی اصلاح ممکن تھی مگرامت کے اس عظیم بگاڑ کے آگے اپنی اصلاح و تسکین ہیچ تھی اور وقت کا تقاضہ تھا کہ میدان میں آکر اہل فلسفہ اور عقلیات کے ماہرین کا مقابلہ کیا جائے کہ ان کی سوچ علماءاور صوفیاءتک پہ غالب آ چکی تھی۔ لہٰذا امام نے خلوت کی زندگی چھوڑ کر اس کام کے لیے کمر کس لی۔
دوسرا امام نے معاشرت کا اخلاقی و اسلامی جائزہ لیکر اس پر تنقید کی اور اس کی اصلاح کی عملی تدبیر کی۔اپنی کتاب احیاءعلوم الدین میں انہوں نے معاشرتی اصلاح کی بات کی ہے۔ اصلاح معاشرت کے لیے ضروری تھا کہ علمی و دینی حلقوں میں پھیلی کمزوریوں اور بالعموم معاشرتی خرابیوں کو اجاگر کیا جائے۔اس کے لیے انہوں نے نہ صرف اپنے پورے زمانے کا جائزہ لیا بلکہ دقیق نظری کے ساتھ پوری اسلامی تاریخ کا نچوڑ بھی پیش کیا اور اول درجہ پر علماءاور اہل دین کو ہدف تنقید بنایا۔انہوں نے لکھا کہ کچھ علماءتو درباری بن کر بادشاہوں کی جی حضوری کرتے رہے اور بقیہ مناظروں اور مباحثوں میں جت گئے اور اپنا سارا زور مسالک کے باہمی اختلافات پر لایعنی بحث میں صرف کرتے رہے۔اس رجحان نے علماءکو کلیات سے نکال کر فروعیات میں لگا دیا جو ان کے علم کے محدود ہونے کا ذریعہ بنا۔ علم کا حصول اپنے اپنے مسلک کے دفاع کے لیے اور بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہونے لگا کیوں بادشاہوں نے اپنی دل لگی کے لئے اس قسم کے مشاغل اختیار کئے رکھے تھے کہ علماءکے درمیان مباحثہ کروا کر ان علماءکا طرز گفتگو،شعلہ بیانی، دلائل کو پیش کرنے کا انداز اور منطق کا استعمال دیکھ کر محظوظ ہوا جائے۔چنانچہ علماءتحصیل علم کے مقصد کو پس پشت ڈال کر ان مجادلوں میں لگ گئے اور یوں یہ ساری بحث و تمحیص کسی صورت معاشرتی اصلاح کا ذریعہ تو نہ بنی البتہ عوام کو لڑوانے اور ان میں مسلکی عصبیت کا بیج بونے کا سبب ضرور بنی۔ امام معاشرتی اصلاح کا دوسرا ہرکارہ سلاطین وقت کو قرار دیتے ہیں جن کا طرز حکومت بد ترین معاشرت اور بیہودہ معیشت کی بنیاد بنا۔ حرام مال اس طرح ہر طرف موجود تھا کہ بادشاہوں تک پہنچنے والے مال میں حلال کی کوئی مد نہ ہوتی ۔ لے دے کر جزیہ کی رقم تھی جو حلال ذریعہ تھی اور وہ بھی ظالمانہ طریقوں سے وصول کیا جاتا۔
امام غزالی نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرمانروا تھا۔ امام نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :
”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوقہائے زریں کے بار سے۔“
( تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ۔جلد اول صفحہ نمبر: ۰۶۱ ۔طباعت: دوم۔ سن طباعت: ۱۲ اپریل ۹۶۹۱ئ)
اس کے علاوہ انہوں نے اپنے زمانے کے دیگر طبقات پر بھی تنقید کی اور ان کی کمزوریوں کو بیان کیا۔ اپنی کتاب احیاءالعلوم میں ایک مستقل حصہ میں آپ نے ان فریب خوردہ اشخاص اور ان کی غلط فہمیوں اور ان کی خود فریبی کا حال اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کام ایک مجدد ہی انجام دے سکتا تھا۔علماءکا علم کلام، تصوف، وعظ و تذکیر،علم حدیث اور اس کے متعلقات نحو، صرف کی تحقیق اور شعر گوئی وغیرہ میں مبالغہ آرائی سے کام لینے پر انہوں نے شدید تنقید کی۔عدلیہ کی بے اعتدالی، دولت مند افراد کا مال جمع کرنا ، تجارتی اشخاص کا ذخیرہ اندوزی کر کے معیشت کا پہیہ جام کرنا ، فقرائ، مساکین اور بیواﺅں کے ساتھ نارروا سلوک رکھنایہ سب اس معاشرے کا حصہ تھا جن پر امام غزالی نے چوٹ کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں لوگوں کا ڈنڈی مارنے اور روحانیت سے دور ہونے کے معاملے پر آپ نے بہترین انداز میں اصلاح کی ہے۔
اسلام کے فلسفہ ¿ تعلیم پر آپ نے اپنا جامع نظریہ پیش کیا اور علم کی تقسیم کو علم محمود اور علم مذموم کی صورت میں بیان کیا۔ پھر آپ کے نزدیک علم محمود میں مزید تقسیم ہے جس کے تحت ایک علم فرض عین ہے جو دین اسلام کا بنیادی علم قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ اسلام وغیرہ کی صورت میں ہے جبکہ فرض کفایہ عصری علوم ہیں جو بحیثیت قوم سیکھنے اور دنیوی ترقی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ یہ وہ مجددانہ کردار تھا جس سے امام نے اس معاشرے میں جہاں ہر طرف مسلمان تو تھے مگر اسلام اپنی اصلی حالت میں موجود نہ تھا، اسلام کا ٹھیک تصور پیش کیا اور غور و فکر کی ایک نئی جہت دریافت کی۔ عوام کو اندھی تقلید اور گمراہی سے بچایا اور خواص میں علماءاور اہل علم لوگوں کی لگامیں درست کیں۔ ان سب امور کی انجام دہی میں اما م نے صرف قلمی جدوجہد نہیں کی بلکہ عوام میں درس و تدریس کی اور اہل علم و اہل اقتدار لوگوں کے سامنے جرات مندانہ کلام کیا۔
امام غزالی کی جامع شخصیت اور علمی کمالات کا سبب تھا کہ اس نے عالم اسلام پر اپنی فکر کے گہرے اثرات چھوڑے اورعلمی حلقوں میں ایسی ذہنی و فکری حریت پیدا کردی کہ اسلامی دنیا اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اہل فلاسفہ پر جو چوٹ کی توطویل عرصہ اس تنقید کا جواب دینے والاا ہل عقل کو نہ مل سکا جو ان فلسفوں کواپنی بقاءکے لیے نئی بنیاد فراہم کرتا۔ اللہ تعالیٰ امام غزالی کے چھوڑے ہوئے علمی بحر میں غوطہ زن ہونے اور اس سے ایسے علم و فکر کے لعل و گوہر دریافت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو نظریاتی محاذ پر اسلامی فلسفہ کے غلبہ اور معاشرتی نظام کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے۔
کتابیات و حوالہ جات:
۱۔ الغزالی از مولانا شبلی نعمانی
۲۔ تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، جلد اول
۳۔ مسلمانوں کے سیاسی افکار از رشید احمد
۴، انوار الاولیاءاز رئیس احمد جعفری
۵۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ از دانش گاہ پنجاب لاہور
۶۔ urdu-section http://www.newageislam.com/
۷۔ http://earlyislamichistory.com/?q=kitab-ul-fazail
۸۔ http://www.urduweb.org/mehfil/threads
فاضل مضمون نگار ماہنامہ ساتھی کراچی کے مدیر ہیں۔
(تخریج وترتیب: سید فصیح اللہ حسینی)
بھترہن مضمون ھے جزاک اللہ
بس اتنا کہونگا جزاک اللہ