حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب

حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب

آپ 1909ء کو جناب فیروز خان صاحب کے گھر ’’دریہ‘‘ متصل حضرو ضلع کیمبلپور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد صاحب دیندار اور گاؤں کے نمبردار تھے قومیت کے لحاظ سے ’’اعوان‘‘ ہیں۔ حضرو ہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا، پہلا تعلیمی سفر حجہ ضلع راولپنڈی کے لئے کیا، وہاں حضرت مولانا سیف الرحمن پشاوری کے شاگرد مولانا احمددین صاحب سے ابتدائی فارسی اور صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں پھر ’’شاہ محمد‘‘ ہری پور ہزاری میں مولانا سکندر علی صاحب اور ان کے بڑے بھائی مولانا محمد اسماعیل صاحب ساکن کوکل، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لیا، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھوار اور مولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انّہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ، جلالیں، بیضاوی اور ترجمہ قرآن بھی یہیں پڑھا، بعد از ان حضرت مولانا حسین علی صاحب ساکن ’’وان بچھراں‘‘ ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے، ان سے تفسیر قرآن کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کے لئے رختِ سفر باندھا، امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی رحمہ اللہ نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933ء میں دورہ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ’’برکات الاسلام‘‘ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے، پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939ء میں وزیر آباد سے راولپنڈی لے آلئے، یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، پہلی مرتبہ جب دورہ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا۔ اور اب تک کئی ہزار طلباء آپ سے پڑھ چکے ہیں، کوئی 25 سال پہلے دارالعلوم ’’تعلیم القرآن‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے۔ آپ حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور اُنہی کے تعلیم فرمودہ وظائف پر کار بند ہیں۔ آپ مسئلہ توحید کھول کر بیان کرنے میں خصوصیت رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں طرح طرح کی مخالفتوں اور مصیبتوں کا شکار ہوئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی، آپ ایک نامور جید عالم، محقق اور مفسر ہیں، ’’تفسیر جواہر القرآن‘‘ کے نام سے ایک تفسیر لکھی اور کئی سارے بھی تالیف فرمائے جو مقبول عام ہیں اس وقت آپ جمعیت اشاعت توحید و سنت پاکستان کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں ایک جید ترین عالم دین اور شیخ طریقت ہیں، سنہ 1970ء میں حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، اور مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہم اللہ کے خاص دست راست رہے اور اسلامی نظام کی جد و جہد کرتے رہے اور مرکزی جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے امیر کی حیثیت سے سوشلزم و کیمیونزم تحریکات کے خلاف ان حضرات کے ساتھ مل کر کلمہ حق بلند کرتے رہے۔
مولانا غلام اللہ خان 11؍رجب المرجب 1400ھ کو وفات پاگئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون

اکابر علمائے دیوبند، ص433.434


آپ کی رائے

2 تعليقات لـ “حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب

  1. hameedullah says:

    سوانح حیات مولانا غلام اللہ خان صاحبpdf مل جائے گی،؟

  2. ثناءاللہ says:

    اِس مولوی کی موت کہاں اور کب ہوا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں